"MIK" (space) message & send to 7575

’’بے فضول‘‘ کی اکھاڑ پچھاڑ کیوں؟

دعوے تھے اور دعوے ہیں۔ وعدے بھی تھے اور وہی ہیں۔ ہم، من حیث القوم‘ اب تک وعدوں اور دعووں کا جھولا جھول رہے ہیں۔ ہزار باتیں ہیں جن کا بنیادی مقصد صرف دل کو بہلانا ہے۔ جن باتوں سے کوئی ٹھوس نتیجہ برآمد ہوسکتا ہو اُن کے سننے کو تو کان ترس گئے ہیں۔ تین برسوں کے دوران حکومت اور اپوزیشن کے درمیان جتنے بھی تماشے ہوئے‘ اُن سے قوم کو کیا ملا؟ کچھ بھی تو نہیں! اور سچ یہ ہے کہ ترقی کے نام پر ترقیٔ معکوس مقدر بنی ہوئی ہے یعنی جو تھوڑا بہت کسی طور بچ رہا تھا‘ وہ بھی ہاتھ سے جاتا رہا۔ ان تین برسوں میں کم و بیش تمام ہی شعبے شدید انحطاط کا شکار رہے۔ کسی بھی من پسند زاویے سے جائزہ لیجیے‘ اندازہ ہوگا کہ ہر طرف سے تصویر یکساں ہی دکھائی دے رہی ہے۔
نہ تم بدلے، نہ ہم بدلے، نہ دل کی آرزو بدلی
میں کیونکر اعتبارِ انقلابِ آسماں کر لوں!
قوم نے سوچا تھا تبدیلی کی اتنی بات کی جارہی ہے تو چلو، آزماکر دیکھ لیتے ہیں۔ اور گاڑی پھر کچے میں اتر گئی۔ ہر بار ایسا ہی تو ہوتاآیا ہے۔ قوم دلاسوں اور جھانسوں میں آکر اپنا نقصان کر بیٹھتی ہے اور ہر بار ع
غضب کیا تِرے وعدے پہ اعتبار کیا
والی کیفیت پیدا ہوتی ہے اور ہمیں پھر خون کے آنسو رُلا جاتی ہے۔ پاکستان تحریکِ انصاف کو پہلی بار وفاق میں اقتدار ملا۔ وفاقی سطح پر کچھ کرنے کا اُس کے پاس تجربہ نہیں تھا۔ ایسے میں اِدھر اُدھر سے افرادی قوت لے کرکام چلایا گیا۔ ایسے میں جو کچھ ہوتا ہے وہی ہوا‘ یعنی جن لوگوں کی خدمات حاصل کرکے جیسے تیسے حکومتی سیٹ اَپ تیار کیا گیا تھا اُنہوں نے اپنی سہولت کے مطابق جی بھرکے سبز باغ دکھائے اور پھر صحرا میں تنہا چھوڑ کر اپنے اپنے دھندوں پہ لگ گئے۔ اس وقت بھی یہی کچھ چل رہا ہے۔ حکمران اپنی آرزوؤں اور امنگوں کی دنیا میں جی رہے ہیں۔ وہ ایک خیالی دنیا کو حقیقت کا روپ دینے کے خواہش مند ہیں جبکہ زمینی حقیقتیں اُن کے خلاف ہیں۔ ان کی نیت چاہے کتنی ہی صاف ہو، وہ سسٹم کو اچھی طرح جانتے نہیں اور اُسے درست کرنے کے اطوار سے بھی ناواقف بلکہ ناتجربہ کار بھی ہیں۔
ایک طرف تو یہ معاملہ ہے کہ حکمران سسٹم سے کماحقہٗ واقف نہ ہونے کی بنیاد پر اپنے حصے کا کام نہیں کر پارہے اور مختلف پریشر گروپس کے ہاتھوں بلیک میل ہو رہے ہیں اور دوسری طرف پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کا کہنا ہے کہ حکومت کے خلاف لانگ مارچ کی پوری تیاری ہے! اپوزیشن جیسے ہی تیار ہوئی، عدم اعتماد کی تحریک کامیابی سے ہم کنار ہو جائے گی۔ ملتان میں میڈیا کی سرکردہ شخصیات سے ملاقات کے دوران بلاول بھٹو زرداری نے کہا ''شہباز شریف قائد حزب اختلاف کا کردار ادا نہیں کرسکے اور پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) نے بھی ہم سے ہی استعفے مانگنا شروع کردیے جس کے باعث اپوزیشن کے اتحاد میں دراڑیں پڑیں۔ جب بھی شہباز شریف کا کوئی بیان آیا‘ پیچھے سے آواز آئی یہ اُن کا ذاتی فیصلہ ہے۔ پارٹی صدر کی حیثیت سے ان کا فیصلہ حتمی ہونا چاہیے۔ پی ڈی ایم میں کنفیوژن دور کرنے کی ضرورت ہے۔ پیپلز پارٹی ہی پہلے پنجاب اور پھر قومی اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد لائے گی!‘‘۔
بلاول بھٹو کی باتوں سے تو یہ اندازہ ہوتا ہے گویا اپوزیشن تیار بیٹھی ہے حکومت کا تختہ الٹنے کے لیے۔ اگر واقعی ایسا ہے تو پھر تختہ اب تک الٹا کیوں نہیں جاسکا؟ کس بات کا انتظار کیا جا رہا ہے؟ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے پلیٹ فارم کو بروئے کار لاتے ہوئے حکومت کے خلاف محاذ کھڑا کرنے کی کوشش تو کی گئی تھی‘ یہ اور بات ہے کہ آپس کے اختلافات ہی نے معاملہ بگاڑ دیا۔ اپوزیشن متحد ہوکر اس پلیٹ فارم کو ڈھنگ سے بروئے کار لانے میں اب تک کامیاب نہیں ہوسکی تو اس کا بنیادی سبب یہ نہیں ہے کہ حکومت میں اتنا دم خم تھا کہ اُس نے معاملات کو قابو میں کرلیا۔ بات کچھ یوں ہے کہ اپوزیشن اب تک اپنے ایجنڈے ہی کا تعین نہیں کر پائی۔ ہر بڑی جماعت کی یہی کوشش رہی کہ تحریک کا ڈول ڈال کر اپنے دورِ حکومت کے محاسبے سے بچا جائے۔ قوم جنہیں بڑا سمجھ کر یہ امید رکھتی ہے کہ وہ مسائل حل کرکے امن و استحکام اور خوش حالی کی راہ ہموار کریں گے‘ وہ اپنے مفادات کے تحت کوشش کے دائرے سے باہر نہیں نکل پارہے۔
حکومت کی بساط لپیٹنے کی ہر کوشش نیم دِلی کے باعث اب تک ناکامی سے دوچار ہوئی ہے۔ اس کام کے لیے جس نوعیت کا بھرپور سیاسی عزم درکار ہے‘ وہ دور تک دکھائی نہیں دیتا۔ حال ہی میں کراچی میں پی ڈی ایم کے جلسے نے سب کچھ بیان کردیا۔ پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی راہیں بالکل الگ ہیں اور مولانا فضل الرحمن جو کچھ کر کے دکھانا چاہتے ہیں‘ وہ بھی ایک الگ دنیا ہے۔ ایسے میں حکومت کے خلاف کوئی بھی محاذ کیسے قائم کیا جاسکتا ہے؟ اور اگر کسی طور ایسا کوئی محاذ قائم کر بھی لیا جائے تو سوال یہ ہے کہ ڈٹ کرلڑنے کے لیے سرِ صف کون ہوگا؟
ایک بڑی مشکل یہ ہے کہ اپوزیشن کو خود بھی اندازہ نہیں کہ اگر اُس نے حکومت کے خلاف کوئی بڑی تحریک چلائی اور وہ کوشش نمایاں حد تک کامیاب ہوگئی تو عوام کو دینے کے لیے اُس کے پاس ہے کیا۔ اپوزیشن کی جماعتیں بھی اقتدار کے مزے لُوٹتی رہی ہیں۔ اُن کے ادوار میں جو کچھ ہوا‘ وہ بھی کچھ زیادہ قابلِ فخر نہیں۔ عوام کو جو کچھ درکار ہے‘ وہ اِس وقت کسی بھی جماعت کے پاس نہیں۔ ایسے میں اگر پاکستان تحریکِ انصاف کی حکومت کی بساط لپیٹ بھی دی جائے تو کیا ہوگا؟ سوال متبادل کا ہے۔ اگر قوم کو موزوں ترین متبادل نہ ملے تو اکھاڑ پچھاڑ سے کیا حاصل؟
جو کچھ حکومت نے اب تک کیا ہے اور کر رہی ہے‘ وہ قوم کی نگاہوں سے پوشیدہ نہیں۔ یہ سب کچھ زیادہ امید افزا نہیں مگر کیا کیجیے کہ قوم یہ بھی دیکھ چکی ہے کہ اپوزیشن کیا کرسکتی ہے۔ ایسے میں کسی بھی بڑی حکومت مخالف تحریک کی کامیابی کے بارے میں زیادہ پُرامید نہیں رہا جاسکتا۔ کسی بھی معاملے میں غیر معمولی حد تک پُرامید رہنے کی کوئی نہ کوئی ٹھوس بنیاد ہونی چاہیے۔ اس وقت اپوزیشن جو کچھ کر رہی ہے‘ اُسے دیکھتے ہوئے یہ سوچا بھی نہیں جاسکتا کہ وہ حکومت کو رخصت کرنے کے ایجنڈے پر متفق ہوسکتی ہے یا یہ کہ حکومت مخالف تحریک کی کامیابی کی صورت میں قوم کو کچھ دے سکتی ہے۔ قوم بھی یہ سوچنے پر مجبور ہے کہ حکومت کی تبدیلی سے جب کوئی بڑی، معنی خیز اور اُمید افزا صورتِ حال پیدا ہو ہی نہیں سکتی تو پھر اکھاڑ پچھاڑ کیوں کی جائے، کیوں اس بے مقصد مشق کا حصہ بنا جائے؟
سوال حکومت کو گرانے یا بیشتر معاملات میں ناکام بنانے کا نہیں بلکہ قوم کو کچھ دینے کا ہے۔ اپوزیشن کے پاس کوئی ایجنڈا ہے نہ پروگرام۔ پی ٹی آئی کی حکومت کے لیے مشکلات پیدا کرنے کی صورت میں اگر اپوزیشن کچھ دے سکتی ہے تو آگے آئے۔ زبردستی کی ہلچل کس کام کی؟ ملک کے اپنے حالات کسی بڑی اکھاڑ پچھاڑ کی اجازت دیتے ہیں نہ بیرونی معاملات نے کچھ کرنے کی گنجائش چھوڑی ہے۔ کورونا کی وبا کے نتیجے میں نافذ کیے جانے والے لاک ڈاؤن کے نتیجے میں معیشت کا جو حال ہوا ہے‘ وہ کسی سے پوشیدہ نہیں۔ قوم اب تک لاک ڈاؤن کے شدید منفی اثرات سے نمٹنے کی جدوجہد میں مصروف ہے۔ ایسے میں حکومت مخالف تحریک کے ذریعے معاملات کو مزید تلپٹ کرنے کے کسی عمل میں عوام کو کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ اپوزیشن اپنا شوق پورا کرنا چاہتی ہے‘ تو ضرور کرے مگر سب سمجھ رہے ہیں کہ اس مشق سے کچھ حاصل ہونے والا نہیں۔ کرنے کا کام یہ ہے کہ قوم کو خطے کی بدلتی ہوئی زمینی حقیقتوں سے ہم آہنگی پیدا کرنے کے لیے تیار کیا جائے۔ اس کام میں تاخیر کی کوئی گنجائش نہیں۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں