"MIK" (space) message & send to 7575

’’چھوٹے‘‘ چھوٹے ہی رہ جاتے ہیں!

حالات کا یہ ستم بھی عجیب ہی ہے کہ پاکستانی معاشرے میں لاکھوں بچے ''چھوٹے‘‘ کی حیثیت سے زندگی بسر کرنے پر مجبور کردیے گئے ہیں۔ ''چھوٹے‘‘ کے درجے میں رکھے جانے والے بچے بے فکری سے گھومنے پھرنے اور یاری دوستی میں خوشی خوشی وقت گزارنے کے بجائے کام سیکھنے پر لگادیے جاتے ہیں۔ زندگی کا معاشی پہلو ان کی زندگی میں وقت سے بہت پہلے آجاتا ہے۔ وقت سے بہت پہلے کوئی ہنر سیکھنے اور پسینہ بہانے کے عمل سے گزرنے کے باعث ان کی شخصیت میں بناؤ سے زیادہ بگاڑ پیدا ہو جاتا ہے۔ جب بچے پیشہ ورانہ تربیت حاصل کرتے ہیں یا ایسا کرنے پر مجبور کردیے جاتے ہیں تب اُن کی زندگی میں بہت سے حسین لمحات و ایام لاپتا ہو جاتے ہیں۔ بعد میں یہ بچے زندگی بھر اپنے لاپتا ایّام کو ڈھونڈتے پھرتے ہیں یا پھر اُنہیں یاد کرکے دل جلاتے رہتے ہیں۔ ابتدائی بارہ پندرہ سال تو زندگی سے محظوظ ہونے ہی کے ہوتے ہیں۔ یہی وہ عمر ہے جس میں انسان کسی بھی واضح پریشانی کے بغیر وقت گزارتا ہے اور پھر زندگی بھر اُن حسین دنوں کو یاد کرکے دل کے بہلانے کی سبیل نکالتا رہتا ہے۔ بچپن اور لڑکپن کی حسین یادیں انسان کو ہر مشکل گھڑی میں سہارا دیتی ہیں۔ اور اگر یہی دور داؤ پر لگ جائے؟
پیٹ بھرنے کے لیے جو کچھ کرنا ہے وہ تو پھر زندگی بھر کرنا ہے۔ اس مرحلے سے ہر انسان کو ناگزیر طور پر گزرنا ہی پڑتا ہے کہ یہ کوئی آپشن نہیں بلکہ لازمہ ہے۔ کام کرنے کی عمر آتی ہے تو پھر جاتی نہیں۔ سانسوں کا ربط برقرار رکھنے کی جدوجہد انسان کو قبر کا مرحلہ آنے تک جاری رکھنا پڑتی ہے۔ معاشرے کی معاشی الجھنیں بڑھتی ہی جارہی ہیں۔ بہت سے غریب گھرانے اس قابل نہیں رہے کہ بچوں کو سرکاری سکول میں بھی پڑھاسکیں۔ اُن کی ترجیح یہ ہے کہ بچوں کو بہت چھوٹی عمر سے کام پر لگادیا جائے۔ گھر کی معاشی الجھنیں دور کرنے کے عمل میں حصہ لینے والے بچوں میں اعتماد تو بہت چھوٹی عمر سے آجاتا ہے مگر اور بہت کچھ چلا جاتا ہے۔ سکول جانے کی عمر میں بچوں کو کام پر لگادینا اُن کی زندگی سے واضح کھلواڑ کے سوا کچھ نہیں۔
زندگی کے معاشی پہلو کے حوالے سے معاشرے کی عمومی روش دن بہ دن پیچیدہ تر ہوتی جارہی ہے۔ پسماندہ گھرانے شدید مشکلات سے دوچار ہیں۔ وہ آمدن میں اضافے سے متعلق اپنی کوششوں میں بچوں کو بھی شامل کرلیتے ہیں۔ نفسی اور عمرانی امور کے ماہرین اس نکتے پر زور دیتے ہیں کہ سکول جانے والی عمر کے بچوں سے کام نہ کرایا جائے۔
ہر بچے کا یہ بنیادی حق ہے کہ زندگی کے پہلے ایک ڈیڑھ عشرے کے دوران اُسے معاشی جدوجہد کا حصہ نہ بنایا جائے۔ کوئی ایک بچہ بھی ایسا نہیں ہوتا جو زندگی کے تمام رنگوں کو دیکھنا اور اُن سے کھیلنا نہ چاہتا ہو۔ ہر طرح کے تفکرات کے دائرے سے باہر رہتے ہوئے ہلکی پھلکی اور راحت و تسکین سے مزین زندگی بسر کرنے کی اور کون سی عمر ہوسکتی ہے؟ کم و بیش تمام ہی بچوں کے لیے بہتر تعلیم اور تفریح کے لمحات معیاری زندگی یقینی بنانے کی انتہائی بنیادی شرائط ہیں۔ دباؤ اور تناؤ سے محفوظ بچپن غیر معمولی نوعیت کے کیریئر کے لیے ناگزیر ہوا کرتا ہے۔ بچپن اور لڑکپن کا زمانہ غیر ضروری دباؤ سے آزاد رہے تو سوچنے سمجھنے اور میدانِ عمل میں کچھ کر دکھانے کی صلاحیتیں بہ طریقِ احسن پروان چڑھتی ہیں۔
یہ بات قابلِ غور ہے کہ چھوٹی عمر ہی میں کمانے کا عمل شروع ہو تو بے وقفہ جاری رہتا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ دس بارہ سال کا کوئی لڑکا گھر چلانے میں مدد دینے کے خیال سے کچھ کرے اور پھر حالات بہتر ہونے پر کام نہ کرے۔ معاشی سرگرمیوں سے جو ایک بار جُڑ جائے وہ پھر کہاں الگ ہو پاتا ہے؟ علاوہ ازیں یہ بھی ایک ناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ جب بچے کمانے لگتے ہیں تو حالات بہتر ہو جانے پر بھی والدین یہی چاہتے ہیں کہ وہ کماتے رہیں کیونکہ اس سے گھر چلانے میں آسانی تو بہر حال رہتی ہے۔
حالات کی مجبوری کے تحت بھی جو لوگ اپنے بچوں کو چھوٹی عمر سے کوئی ہنر سکھانا چاہتے ہیں وہ یہ بات نہ بھولیں کہ بچوں کے لیے سب سے ضروری‘ بلکہ ناگزیر چیز تعلیم ہے۔ اور ساتھ ہی ساتھ تفریح اور فراغت کے لمحات بھی۔ مجبوریاں اپنی جگہ مگر بچوں کے بنیادی حقوق پر سمجھوتا کرنا انتہائی خطرناک ثابت ہوتا ہے۔ تھوڑے سے فائدے کے لیے بچوں کی پوری زندگی داؤ پر لگانا کسی بھی اعتبار سے دانش مندی نہیں۔ بارہ سے پندرہ سال کی عمر تک کسی ہنر میں مہارت یقینی بنانے کی کوشش تو ضرور کی جانی چاہیے مگر اتنی چھوٹی عمر میں بچوں کو کام پر لگانا اور پھر گھر چلانے میں اُن کا معاشی کردار بڑھاتے جانا کسی بھی درجے میں مستحسن نہیں۔
یہ نکتہ بالعموم نظر انداز کردیا جاتا ہے کہ اگر ذہن کی بلوغت سے قبل ہی کوئی بچہ کمانے لگے تو اُس کا فکری ڈھانچا اور سانچا بگڑ جاتا ہے۔ کیا ہم اس حقیقت سے انکار کرسکتے ہیں کہ ہر کام کا قدرت نے ایک وقت مقرر کر رکھا ہے؟ کسی بچے کے لیے بڑی باتیں کبھی کبھی زہر ثابت ہوتی ہیں۔ معاشی جدوجہد سے جُڑنا بھی بچوں کے لیے بڑی بات ہوتی ہے‘ بلکہ سچ تو یہ ہے کہ یہی سب سے بڑی عملی حقیقت ہے۔
چھوٹی عمر سے کمانے والوں میں بہت سی خرابیوں کی راہ بھی ہموار ہوتی جاتی ہے۔ ایسے بچوں میں اعتماد ضرورت اور گنجائش سے کہیں زیادہ پایا جاتا ہے۔ عمر کے اعتبار سے زیادہ اعتماد بھی خطرناک ثابت ہوتا ہے۔ محض اعتماد کی بنیاد پر ہر بازی نہیں جیتی جاسکتی۔ حد سے بڑھے ہوئے اعتماد کے ساتھ بعض اوقات بچے ایسے فیصلے بھی کرلیتے ہیں جو انہیں نہیں کرنے چاہئیں۔ اور پھر یوں بھی ہے کہ چھوٹی عمر سے کمانے والوں کو کسی بھی معاملے میں کچھ سمجھانا بالعموم آسان نہیں ہوتا۔ وہ چونکہ کمانے کے عمل میں شریک ہوتے ہیں اِس لیے اُن میں پایا جانے والا اعتماد اُنہیں صرف اپنی ذات پر غیر متزلزل یقین رکھنے کی طرف لے جاتا ہے۔ یہی خاصیت کبھی کبھی غلط فیصلے بھی کراتی ہے اور غلطی کی نشاندہی کیے جانے پر بھی اصلاح کی زیادہ گنجائش پیدا نہیں ہوتی۔
یہ حقیقت بھی عمومی طور پر نظر انداز کردی جاتی ہے کہ چھوٹی عمر ہی میں کمانے والوں میں بڑوں کے لیے وہ وقعت نہیں پائی جاتی جو پائی جانی چاہیے۔ بڑوں کا ایک بنیادی فرض یہ بھی ہے کہ وہ چھوٹوں کو اُن کی عمر کی مناسبت سے سکون و راحت کے حصول میں مدد دیں۔ جب ایسا نہیں ہوتا تو منطقی طور پردکھ ہی ہوتا ہے۔ ایک طرف تو سکون و راحت کا سامان نہ کیا جانا اور دوسری طرف چھوٹی عمر سے کمانے پر مجبور ہونا ... یہ دونوں حقیقتیں مل کر بچوں کی فکری ساخت پر شدید منفی اثرات مرتب کرتی ہیں۔ بچوں کو کمانے کے عمل میں شریک کرنے والے والدین یہ نکتہ بھول جاتے ہیں کہ ایسی حالت میں اُن کی اپنی توقیر بھی داؤ پر لگ سکتی ہے۔
پاکستان جیسے معاشروں میں بچوں کو عملی زندگی کے لیے بھرپور انداز سے تیار کرنا لازم ہے۔ انہیں لڑکپن کے دور ہی سے کوئی ہنر سیکھنے کی تحریک دی جاسکتی ہے۔ ہنر مندی انسان میں اعتماد کا گراف بلند کرتی ہے مگر اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ لڑکپن کے حسین زمانے کو معاشی جدوجہد کی نذر کردیا جائے۔ والدین کا فرض ہے کہ اولاد کو دباؤ سے آزاد اور پرسکون زندگی بسر کرنے کا موقع دیں۔ اگر دس بارہ سال کی عمر سے اُن پر کمانے کی ذمہ داری ڈال دی جائے تو شخصیت صرف مسخ ہوکر رہ جاتی ہے۔ تعلیم اور دوستی کا بے فکری سے عبارت زمانہ ہر انسان کے لیے حسین یادوں کا خزانہ تیار کرتا ہے۔ یہ حسین یادیں زندگی بھر دل کو بہلاتی اورلبھاتی ہیں۔ آزادی اور بے فکری کا زمانہ مجبوری کی حالت میں کی جانے والی معاشی جدوجہد کے نتیجے میں ٹیڑھی کھیر بن جاتا ہے۔ کسی بھی وجہ سے والدین جن بچوں کو ''چھوٹے‘‘ بناکر کام پر لگاتے ہیں وہ پھر چھوٹے ہی رہ جاتے ہیں۔ یہ اُن سے شدید نا انصافی ہے۔ بچپن اور لڑکپن کا حق ہے کہ اُس پر غیر ضروری بوجھ نہ ہو۔ ہاں‘ پندرہ سے اٹھارہ سال کی عمر کے دوران عملی زندگی شروع کرائی جاسکتی ہے تاکہ بیس سال کا ہونے تک معقول آمدن کا حصول یقینی بنانا ممکن ہو۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں