جسمانی اور ذہنی مشقت کا فرق ہر دور میں نمایاں رہا ہے۔ ہزاروں سال قبل بھی لوگ اس فرق کو سمجھتے تھے اور اِسے برتتے ہوئے زندگی بسر کرتے تھے۔ ہر دور کے انسان نے ذہن کو بروئے کار لانے والوں کو غیر معمولی اہمیت دی ہے، برتر مانتے ہوئے اُن کا احترام کیا ہے۔ جسمانی مشقت کو بھی قدر و استحسان کی نظر سے دیکھنے والوں کی کمی نہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ ذہن کی مدد سے زندگی بسر کرنے والوں کو خاص مقام ملتا رہا ہے۔ فی زمانہ رویے تبدیل ہوگئے ہیں اور ذہنی پیچیدگیاں اِتنی بڑھ گئی ہیں کہ ذہنی مشقت کو خصوصی اہمیت دینے والوں کی تعداد گھٹ گئی ہے‘ اِس کے باوجود یہ حقیقت اب بھی تسلیم کی جاتی ہے کہ یہ دنیا ذہن کو بروئے کار لانے والوں کی بدولت چل رہی ہے۔ جن معاشروں نے ذہن سے کام لینے والوں کو محترم جانا ہے، اہمیت دی ہے وہ مثالی نوعیت کی کامیابی سے ہم کنار ہوتے ہوئے ہیں۔ ایک زمانہ تھا کہ علم و فن سے تعلق رکھنے والوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھنے والوں کی کمی بھی نہیں تھی۔ شعر و ادب اور فنونِ لطیفہ سے تعلق رکھنے والوں کو معاشرے کے لیے نعمت گردانا جاتا تھا۔ وہ معاشرے کی شناخت ہوا کرتے تھے۔ وہ معاشرے میں تحریک و تحرک پیدا کرنے کا ذریعہ بھی تھے۔ شعر و ادب اور فنونِ لطیفہ کے شعبے میں ایسی شخصیات بھی گزری ہیں جنہیں محض دیکھ کر لوگ کچھ کرنے کی تحریک پالیا کرتے تھے۔ ایسی شخصیات پاکستان میں بھی ہوا کرتی تھیں کہ جن کا محض موجود رہنا کافی تھا۔ تب اہلِ علم و فن بھی اپنی ذمہ داری سے کماحقہٗ واقف تھے اور معاشرے کو کچھ نہ کچھ دینے کی کوشش کرتے تھے۔
ہمارے ہاں صدیوں تک اہلِ علم بے عملی کی راہ پر گامزن رہنے کے رجحان کا شکار رہے۔ اردو ادب کے حوالے سے ڈھائی تین سو سال کی تاریخ کھنگالیے تو اندازہ ہوگا کہ ایک طویل دور ایسا بھی گزرا جب اہلِ علم و فن کو راجا، مہا راجا اور نواب پالتے تھے۔ دربار سے وابستہ علمی و ادبی شخصیات اور فنکار فکرِ معاش سے آزاد ہو جاتے تھے اور یوں اپنے فن کو پورا وقت دے پاتے تھے۔ سلیم احمد مرحوم نے کہا تھا کہ شاعری پورا آدمی مانگتی ہے۔ یہ بات بادشاہوں، رجواڑوں اور درباروں کے زمانے کے لیے تھی۔ تب شعرا، اہلِ ہنر اور فنونِ لطیفہ کے ماہرین کو اتنا کچھ ملتا تھا کہ وہ فکرِ معاش کے نام پر اپنا وقت فضول یا سطحی نوعیت کی مشقّت میں ضائع کرنے پر مجبور نہیں ہوتے تھے۔ میر تقی میرؔ سے مرزا غالبؔ تک شعرا اور دیگر اہلِ علم و فن کو سرکاری خرچ پر پالنے کا رواج عام رہا۔ تب کسی بھی شاعر، مصنف، محقق، مغنی، سازندے اور دیگر اہلِ فن کے لیے فکرِ معاش میں مبتلا رہنا لازم نہ تھا۔ بعد میں حالات نے پلٹا کھایا تو مغلیہ سلطنت کا سورج ڈوبا اور رجواڑوں کا حال بھی بُرا ہوگیا۔ رجواڑوں میں سرکاری خرچ پر پلنے والے اہلِ علم و فن جب فکرِ معاش کے بندھن سے آزاد رہنے کی پوزیشن میں نہ رہے تب اُن کے لیے حقیقی معنوں میں الجھنوں کا آغاز ہوا۔ اہلِ علم و فن کے لیے بھی جسم و جاں کا رشتہ برقرار رکھنے کے لیے کچھ نہ کچھ کرنا لازم ٹھہرا۔ تب تک ذہنوں میں یہ خنّاس سماچکا تھا کہ جو سوچتے اور قلم تھامتے ہیں وہ عمومی معاشی جدوجہد کے لیے پیدا نہیں ہوئے ہوتے۔ اس فکری کجی نے بہت سوں کو مکمل برباد کرکے دم لیا۔
اگر ہم بیسویں صدی کا جائزہ لیں تو اُس میں بھی ایسی بہت سی شخصیات دکھائی دیتی ہیں جن کی عمومی سوچ یہ تھی کہ سوچنے، لکھنے اور شعر کہنے والوں کو کمانے کے جھنجھٹ سے آزاد رہنا چاہیے۔ اور پھر ایک قدم آگے جاکر اُن کی یہ بھی سوچ ہوتی تھی کہ گھریلو ذمہ داریوں سے بھی اُن کا کوئی تعلق نہیں ہونا چاہیے۔ انیسویں صدی کی طرح بیسویں صدی کے ابتدائی چار پانچ عشروں کے دوران بھی شعرا اور ادیب فکرِ معاش کو درخورِ اعتنا نہ سمجھنے کے خبط میں مبتلا دکھائی دیتے ہیں۔ ہندوستان کی تقسیم اور پاکستان کے قیام کے بعد جب زمینی حقائق تبدیل ہوئے تب اہلِ علم و فن کے لیے بھی سب کچھ بدل گیا۔ جو مغنی اور سازندے ناک پر مکھی نہیں بیٹھنے دیتے تھے وہ ریڈیو کے سٹاف آرٹسٹ بن کر زندگی بسر کرنے کی طرف مائل ہوئے۔ یہی حال محققین، ادیبوں اور شعرا کا بھی ہوا۔ وہ سرکاری محکموں میں نوکری کے ذریعے گھر کا چولھا جلتا رکھنے کا اہتمام کرنے کے قابل ہوئے۔ سوچنے اور لکھنے والوں کے لیے تعلیم کا شعبہ بھی بہت اچھا رہا۔ پاکستان کے سات عشروں کی تاریخ گواہ ہے کہ بہت سے شعرا، افسانہ نگار اور محققین کالج اور یونیورسٹی کی سطح پر پڑھاکر معقول طرزِ زندگی کا اہتمام کرنے کے قابل ہو پائے۔ بیسویں صدی کے اواخر تک بھی ایسے شعرا سامنے آتے رہے جن کی سوچ یہ رہی کہ شعر کہنے اور افسانہ لکھنے والوں کو الگ سے کچھ نہیں کرنا چاہیے۔ اُن کے ذہنوں میں یہ سوچ سمائی رہی کہ معاشی جدوجہد اہلِ علم کا کام نہیں یعنی معاشرے کو اُن کی گزر بسر کی ذمہ داری قبول کرنی چاہیے۔ 1960 سے 1990 تک کی دہائیوں میں شعر گوئی یا افسانہ نگاری کا رجحان رکھنے والے ہزاروں پاکستانی نوجوان اِسی سوچ کے ہاتھوں تباہ ہوئے۔ اِس کی ایک کلاسک مثال جون ایلیا ہیں۔ جون بھائی متعدد مواقع پر یہ کہتے پائے گئے کہ اب کیا ہم کام بھی کریں! اُن کے ذہن میں یہ ''نکتۂ دل نواز‘‘ سماگیا تھا کہ ہم شعر کہہ رہے ہیں تو بس اِتنا کافی ہے، بلکہ ہمارا احسان ہے۔ ہمارے لیے دال روٹی کا اہتمام اب معاشرہ یا ریاست کرے۔ اور اگر یہ ممکن نہ ہو تو اہلِ ثروت کھانے پینے کا خرچ برداشت کریں۔ اہلِ ثروت کھانے کا تو نہیں، ہاں شعرا کے پینے کا خرچ ضرور برداشت کرتے رہے ہیں! اور اہلِ ثروت کی اِس روش ہی میں تمام خرابیاں مضمر ہیں۔ وہ بے ڈھنگے انداز سے خرچ کرکے شعرا اور ادیبوں کے ذہن مزید خراب کرتے رہے ہیں۔ جون بھائی ہی نے کہا تھا ؎
نوکری کر رہے ہو مدت سے
تم کوئی کام کیوں نہیں کرتے؟
جون بھائی کی نظر میں کسی شاعر کا ملازم ہونا انتہائی معیوب اور سطحی معاملہ تھا۔ یہ بات بھی اُن کی نظر میں زیادہ مستحسن نہ تھی کہ کوئی درزی، دکان دار، الیکٹریشن، ڈرائیور، کلرک یا کچھ اور بھی ہو اور شاعر بھی ہو! اُن کے نزدیک شاعری چوبیس گھنٹے کا کام تھی۔ اُن کے نزدیک یہ سوچنا بھی سوہانِ روح تھا کہ سوچنے، لکھنے اور شعر کہنے والے کو کسی کی نوکری بھی کرنی چاہیے۔ ایک قدم آگے جاکر انہوں نے خود کو گھریلو ذمہ داریوں سے بھی آزاد ٹھہرایا۔ اس کے نتیجے میں گھریلو زندگی پہلے تلخیوں کا شکار ہوئی اور پھر مکمل تباہی سے دوچار ہوئی۔ آج اُن کی سابق اہلیہ اور تین بچوں کے دلوں میں گزرے ہوئے زمانوں کے حوالے سے صرف رنجشیں ہیں۔ اِس پر بھی جون بھائی کی 'ثابت قدمی‘ دیکھیے ؎
میں بھی بہت عجیب ہوں، اتنا عجیب ہوں کہ بس
خود کو تباہ کر لیا اور ملال بھی نہیں!
خاکسار کے اُستادِ محترم جناب رئیسؔ امروہوی بھی جون بھائی کی اصلاحِ احوال کے لیے کچھ نہ کر پائے۔ وہ کوئی اور نہیں‘ جون ایلیا کے بڑے بھائی تھے۔ رئیسؔ امروہوی نے زندگی بھر محنت کی، نوکری بھی کی، لوگوں سے احترام بھی پایا، معاشرے کے کام بھی آئے اور خدا جانے مجھ سمیت کتنوں کو شعر و ادب کی دنیا میں آگے بڑھنے کا حوصلہ بھی بخشا۔ انہوں نے گھریلو ذمہ داریوں سے کبھی راہِ فرار اختیار نہیں کی یعنی کماکر اہلِ خانہ کو دینے پر بھی توجہ دی۔ اُن کے مزاج میں بے اعتدالی برائے نام تھی۔ آج کوئی اُن کا نام لے کر گلے شکوے نہیں کرتا۔ ہاں! جون ایلیا کے مزاج کی بے اعتدالیوں کو یاد کرکے رونے والوں کی کمی نہیں۔ حال ہی میں اُن کی صاحبزادی فینانہ کی دل خراش ''محرمِ رازِ درونِ مے خانہ‘‘ قسم کی پوسٹ سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی ہے۔ اِس پوسٹ کو پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ شاعر جب خود کو صرف شاعر سمجھتا ہے تو کیسی قیامت برپا ہوتی ہے۔
سلامتیٔ طبع اِس میں ہے کہ انسان اپنی صلاحیتوں کو معاشرے کی بہتری کیلئے بروئے کار لائے اور اپنی ذمہ داریوں سے راہِ فرار کبھی اختیار نہ کرے۔