"MIK" (space) message & send to 7575

مبارک باد یا فاتحہ خوانی

کل سوشل میڈیا پر ایک اچھی پوسٹ پڑھنے کو ملی۔ کسی نے کیا خوب جملہ شیئر کیا تھا کہ زندگی کی جنگ آپ کو خود لڑنی ہے۔ لوگ تو مبارک دینے آئیں گے یا پھر فاتحہ خوانی کے لیے! روئے ارض پر زندگی کی اتنی ہی حقیقت ہے۔ بات اپنی ذات سے شروع ہوتی ہے اور گھوم پھر کر اپنی ذات ہی کی طرف آتی ہے۔ یہ حقیقت حیرت انگیز ہے نہ افسوس ناک۔ آپ ہی سوچیے کہ آپ کے لیے آپ کی اپنی ذات سے بڑھ کر کون ہے؟ کسے آپ اپنے وجود سے بھی بڑھ کر اہمیت دیتے ہیں؟ یہ سوچ سراسر بے بنیاد ہے کہ کوئی کہیں سے آئے اور اتنی مدد کرے کہ تمام مشکلات دور ہوجائیں۔ ایسا ہو نہیں سکتا کیونکہ قدرت کا طے کردہ نظام اس سے ہٹ کر ہے۔ قدرت نے ہمارے لیے ایک ایسا نظام تیار کیا ہے جس میں ہمارے لیے بہتر نتائج اُسی وقت پیدا ہوتے ہیں جب ہم اپنے لیے کچھ کرتے ہیں۔ دوسروں کے آسرے پر زندہ رہنے کی صورت میں ہمارے لیے کوئی معاملہ اطمینان کا باعث ثابت ہوسکتا ہے نہ فخر کا۔ حقیقت یہ ہے کہ ہر انسان کو اپنے لیے جدوجہد کرنا پڑتی ہے۔ اس جدوجہد ہی کے نتیجے میں زندگی کا چمن ہمیں بہاریں دکھاتا ہے۔
دنیا ہمارے لیے تھوڑا بہت کرسکتی ہے‘ بہت زیادہ نہیں۔ بنیادی طور پر دنیا کا کام ہے تماشا دیکھنا۔ کسی بھی انسان کے لیے زندگی کا پورا معاملہ اول و آخر اپنی پسند و ناپسند کا ہے۔ سب کچھ انسان کے اپنے اختیار میں ہے۔ چاہے تو محنت شاقّہ کے ذریعے زندگی کو سنوارے یا پھر تن آسانی کے سمندر میں کُود کر اپنی زندگی کا بیڑا غرق کرلے۔ کیا آپ اس حقیقت کو نظر انداز کرسکتے ہیں کہ آپ کے مسائل کو آپ سے بڑھ کر کوئی نہیں جانتا؟ کون ہے جو آپ کے دل میں جھانک کر دیکھ سکے اور آپ کی اَن کہی باتیں بھی سُن اور سمجھ سکے؟ کوئی بھی نہیں۔ اللہ کے سوا کوئی بھی نہیں جو آپ کے مسائل کو آپ سے بڑھ کر جان سکے۔ جب کوئی آپ کو آپ سے بڑھ کر جان ہی نہیں سکتا تو مدد بھی کیسے کرسکتا ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ آپ کا اگر کوئی ہے تو صرف آپ ہیں۔ رشتے اور تعلقات سب اپنی جگہ مگر حتمی تجزیے میں آپ کے وجود کا بھلا چاہنے والا آپ سے بڑھ کر کوئی نہیں ہوسکتا۔
ہم زندگی بھر مشکل حالات کا سامنا کرتے رہتے ہیں۔ ان مشکل حالات سے جان چھڑانے میں کس طور کامیاب ہوتے ہیں؟ اپنی محنت سے۔ اپنے لیے راستہ ہمیں خود نکالنا پڑتا ہے۔ اگر ہم ایسا نہ کریں تو کوئی بھی ہماری طرف متوجہ نہیں ہوتا۔ اپنے معاملات کو درست کرنے کے معاملے میں سب سے پہلے اور سب سے زیادہ دلچسپی تو ہمیں خود لینی ہے۔ اس منزل سے گزرنے ہی پر کچھ ہوسکتا ہے اور ہوتا ہے۔ اگر ہم خود اپنے معاملات میں سنجیدہ نہ ہوں تو کوئی اور کیوں ہونے لگا؟ اب آئیے اس بات پر کہ کوئی اور ہمارے لیے کوئی بڑا یا فیصلہ کن کردار کیوں ادا نہیں کرسکتا۔ بات کچھ یوں ہے کہ دنیا اُنہی کی طرف متوجہ ہوتی ہے جو اپنی طرف متوجہ ہوتے ہیں۔ ہر اُس انسان کو لوگوں کی بھرپور توجہ ملتی ہے جو اپنے معاملات میں گہری دلچسپی لیتے ہیں اور اُنہیں بہتر بنانے کی سعی بھی کرتے ہیں۔ سیدھی سی بات ہے‘ کسی بھی انسان کے لیے سب سے اہم چیز ہے اُس کا اپنا وجود۔ جب لوگ کسی کو اس حال میں دیکھتے ہیں کہ وہ اپنے وجود ہی کو درخورِ اعتنا نہیں سمجھ رہا ہوتا تو اُنہیں یقین ہو جاتا ہے کہ وہ دوسروں کے معاملے میں کبھی سنجیدہ نہیں ہوگا‘ گہری دلچسپی نہیں لے گا۔
ہم زندگی بھر ایسے کیسز دیکھتے ہیں جن میں کسی نے اپنے معاملات کو ڈھیلا چھوڑ دیا ہو اور پھر پریشانی کا سامنا کیا ہو۔ پھر بھی ہم کوئی سبق نہیں سیکھتے یا زیادہ سنجیدہ نہیں ہوتے۔ زندگی کا ہر معاملہ ہمیں کچھ نہ کچھ سکھاتا ہے۔ ہمیں قدم قدم پر دوسروں سے بہت کچھ سیکھنے کو ملتا ہے۔ یہ معاملہ مزاج اور ذہنی تیاری کا ہے۔ اگر کوئی طے کرلے کہ کسی سے کچھ نہیں سیکھنا تو پھر وہ خود کچھ سیکھتا ہے اور نہ کسی کے سکھانے سے کچھ سیکھنے پر مائل ہوتا ہے۔ کائنات کے اصول سب کے لیے ہوتے ہیں۔ جو اصول انفرادی معاملات پر اطلاق پذیر ہوتے ہیں وہی اصول اجتماعی معاملات کے لیے بھی ہوتے ہیں اور اطلاق پذیر بھی ہوتے ہیں۔ وہی معاشرے کامیاب رہتے ہیں جو اپنے لیے راستہ خود بنانے پر یقین رکھتے ہیں۔ آج تک کسی بھی معاشرے نے دوسروں کے بل پر ترقی بھی نہیں کی اور اپنی بقا بھی ممکن نہیں بنائی۔ معاشرے اُسی وقت پروان چڑھتے ہیں جب وہ پروان چڑھنے کے لیے درکار محنت کا ذہن بناتے ہیں‘ ہر طرح کی مشکلات کا سامنا کرنے کے لیے خود کو تیار کرتے ہیں اور اس راہ میں حائل ہونے والی کسی بھی دیوار یا رکاوٹ سے نہیں گھبراتے۔ تاریخ کے دور میں اُنہی معاشروں اور ریاستوں کو بھر پور کامیابی ملی ہے جنہوں نے کچھ کرنے کا سوچا ہے اور اپنے اعمال کو اُس سوچ کے سانچے میں ڈھالا ہے۔ بقا بنیادی مسئلہ ہے۔ ترقی اور خوش حالی اُس کے بعد کی منزل ہے۔ ہر معاشرے کے لیے بنیادی چیز بقا ہے اس لیے بقا کا سوال اٹھ کھڑا ہو تو اپنی پوری توانائی کے ساتھ میدان میں آنا پڑتا ہے۔ چشمِ فلک نے ایسے کئی تماشے دیکھے ہیں۔ بہت سے معاشروں اور ممالک کا نام و نشان محض اس لیے مٹ گیا کہ انہوں نے اپنے لیے سنجیدہ ہونا نہیں سیکھا تھا۔ وہ دوسروں پر تکیہ کرکے چلتے رہے اور بالآخر بربادی و گمنامی کے گڑھے میں جا گرے۔ ایسے معاملات میں ایسا ہی ہوتا ہے۔ دوسروں کو سہارا بنانے والوں کا ہمیشہ بُرا انجام ہوا ہے۔
آج کی دنیا میں بھی ایسی بیسیوں مثالیں موجود ہیں جن کی مدد سے ہم بخوبی سمجھ سکتے ہیں کہ جنہوں نے دوسروں کے سہارے جینے کی کوشش کی وہ صرف اور صرف بربادی سے ملاقات کر پائے۔ ساتھ دینے کی باتیں کرنے والے بہت ہوتے ہیں مگر ساتھ دینے والے خال خال پائے جاتے ہیں اور اُن کی طرف سے بڑھایا جانے والا دستِ تعاون بھی کچھ خاص کام نہیں آتا۔ حتمی تجزیے میں تو اپنے لیے خود ہی سامنے آنا پڑتا ہے۔
تازہ ترین مثال یوکرین کی ہے۔ یوکرین اگر روس کے خلاف کامیاب رہتا ہے یا بہت حد تک اپنی بات منوانے میں کامیاب رہتا ہے تو ایک دنیا اُسے مبارک دے گی اور اگر یوکرین کا سبھی کچھ داؤ پر لگ گیا‘ روس کے سامنے کچھ بھی حاصل نہ ہوسکا تو فاتحہ خوانی کا مرحلہ آئے گا۔ یوکرین کی قیادت نے یہ نکتہ بہت دیر میں سمجھا کہ اپنے دفاع کے لیے اپنے زورِ بازو پر بھروسا کرنا ہوتا ہے۔ کوئی اور آپ کی جنگ نہیں لڑ سکتا۔ کرائے کے فوجی بھی ایک حد تک ہی لڑتے ہیں اور جب وہ حد آ جاتی ہے تو اپنا مال سمیٹ کر ایک طرف ہو جاتے ہیں۔ تب خود ہی میدان میں رہ کر اپنے دشمن کو منہ دینا پڑتا ہے۔ بات اپنی ذات سے شروع ہوکر گھومتی پھرتی پھر اپنی ہی ذات تک آ جاتی ہے۔ یوکرین کو یقین دلایا گیا تھا کہ اُس پر کوئی ایسا ویسا وقت آیا تو فکر مند ہونے کی ضرورت نہیں کیونکہ اُس کا دفاع کرنے کے لیے امریکا بھی ہوگا اور یورپ بھی۔ نیٹو کے نیٹ ورک کی طرف سے بھی دفاع کے معاملے میں معاونت کا یقین دلایا گیا تھا۔ ہوا کیا؟ جب مشکل گھڑی آئی تو کوئی بھی آگے نہ آیا۔ روس نے حملہ کیا تو امریکا اور یورپ دونوں نے پیٹھ دکھادی۔ یوکرین کو روس کا سامنا خود ہی کرنا پڑا ہے۔ ایسی ہی صورتحال 1971ء میں ہمارے لیے بھی پیدا ہوئی تھی۔ تب ہم نے اپنی اچھی خاصی صلاحیت کے ہوتے ہوئے امریکا سے آس لگائی تھی اور ہم امریکا کے لیے اُس وقت کا یوکرین ثابت ہوئے تھے!
یہ دنیا ہر انسان کو سو طرح کے سبق سکھاتی ہے۔ سب سے بڑا سبق یہ ہے کہ اپنی جنگ خود لڑنی ہے۔ اگر اس محاذ پر تساہل برتا یا بے عقلی و تن آسانی کا مظاہرہ کیا تو سمجھ لیجیے کہ معاملہ فاتحہ خوانی تک پہنچ سکتا ہے۔ مبارک باد دینے کی طرح یہ کام بھی دوسروں ہی کو کرنا ہے اور خوشی خوشی کرنا ہے۔ ہر معاملے کو ایک محاذ سمجھ کر قبول کیجیے۔ اپنی ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہونے کے لیے کسی جنگ کا انتظار مت کیجیے کہ ع
زندگی ہر قدم اِک نئی جنگ ہے

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں