"MIK" (space) message & send to 7575

زبردستی کا اُبال

قوم عجیب کیفیت میں مبتلا ہے۔ ہر بے بنیاد معاملہ زندگی کا حصہ بنا ہوا ہے۔ زمینی حقیقتوں سے چشم پوشی ہماری سب سے بڑی خصوصیت ہوکر رہ گئی ہے۔ جن باتوں پر دھیان دیا جانا چاہیے وہ ایک طرف دھری ہیں اور ہر اُس چیز پر ہماری توجہ ہے جسے اُٹھاکر کچرے کے ڈبے میں ڈال دینا چاہیے۔ سوشل میڈیا نے ہمارے معاشرے کو الٹ‘ پلٹ کر رکھ دیا ہے۔ لوگ بات بات پر بہکنے، بدکنے اور بھڑکنے لگے ہیں۔ سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی کسی بھی پوسٹ کو کچھ بھی سمجھ لیا جاتا ہے۔ سوچنے کی زحمت بھی گوارا نہیں کی جاتی کہ جو کچھ پوسٹ میں بیان کیا گیا ہے وہ حقیقت پر مبنی ہو بھی سکتا ہے یا نہیں۔ سوچے کون؟ سوچنے کی فرصت کسے ہے؟ سبھی آسانیاں چاہتے ہیں۔ آسانی اِس سے زیادہ کس بات میں ہوگی کہ جو کچھ بھی سامنے ہو اُسے بخوشی قبول کرلیا جائے؟ سوشل میڈیا کی ہر پوسٹ کو بالکل درست سمجھنے والوں کی تعداد بڑھتی جارہی ہے۔ لوگ مختلف معاملات میں ہر بات یوں قبول کرتے جارہے ہیں گویا ایسا کرنا اُن پر لازم کردیا گیا ہو۔ اللہ نے ہر انسان کو ذہن سے نوازا ہے۔ سوال صرف اُس سے کام لینے کا ہے۔ سوشل میڈیا آلے کا درجہ رکھتے ہیں مگر یاروں نے اِنہیں آلے میں تبدیل کرلیا ہے۔ معاشرے کو زیادہ سے زیادہ مثبت معاملات و اقدار کی ضرورت ہے اور زمینی حقیقت یہ ہے کہ سوشل میڈیا کے سمندر میں پوری قوم کو غرق کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ ریٹنگ کی دوڑ لگی ہوئی ہے۔ ہر شخص اپنے لیے زیادہ سے زیادہ لائکس چاہتا ہے، چاہے اِس کے لیے وہ اخلاقیات اور سماجی اقدار کی حدود کو پامال ہی کیوں نہ کر دے۔
مسئلہ یہ ہے کہ سیاست ہو یا معاشرت یا پھر کوئی اور معاملہ ہو، تمام معاملات میں لوگ انتہائی جذباتیت کا شکار ہیں۔ بات بات پر پیمانہ چھلکنے لگتا ہے۔ سوشل میڈیا پر جو کچھ بھی یومیہ بنیاد پر وائرل کیا جارہا ہے وہ ہماری زندگی میں اکھاڑ پچھاڑ کا باعث بن رہا ہے۔ کوئی بھی چیز جس مقصد کے تحت مارکیٹ میں لائی جارہی ہے وہ مقصد بطریقِ احسن حاصل کیا جارہا ہے۔ لوگ شدید بے ذہنی کا شکار ہیں۔ ذہن سے کام لینے کی روایت دم توڑ چکی ہے۔ معاملات کو ''جیسے ہیں جہاں ہیں‘‘ کی بنیاد پر قبول کرنے کی عادت سی ہوگئی ہے۔ لوگوں نے ذہن کو سوشل میڈیا کے حوالے کردیا ہے، اُس کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ہے۔ کسی بھی پوسٹ کو دیکھتے ہی شدید جذباتیت کا مظاہرہ کرنا ہمارے مزاج کا ناگزیر حصہ بن چکا ہے۔
زندگی کو زیادہ سے زیادہ آسان بنانا ہر انسان پر لازم ہے۔ غیر ضروری الجھنوں سے نجات پانا بھی لازم ہے اور دوسروں کے لیے الجھنیں پیدا کرنے سے گریز بھی ناگزیر ہے مگر ہم ان دونوں محاذوں پر شدید ناکامی سے دوچار ہوچکے ہیں۔ کیوں نہ ہوں؟ جب ہم نے آسانی کے نام پر بے ذہنی کو اپنالیا تو پھر زندگی میں الجھنیں ہی الجھنیں پائی جائیں گی اور پائی جارہی ہیں۔ آج بیشتر پاکستانیوں کی زندگی میں سیاست کچھ اِس انداز کی لازمی چیز بن چکی ہے گویا آکسیجن ہو کہ نہ ہوئی تو ہم دم گھٹنے سے مر جائیں گے۔ سیاست کے نام پر لوگ دوستیوں اور تعلقات کو داؤ پر لگارہے ہیں۔ سیاسی وابستگی کی بنیاد پر یومیہ مباحث ہماری زندگی کا حصہ بنتے جارہے ہیں۔ لوگ جس سیاست دان کو پسند کرتے ہیں اُسے دیوتا کا درجہ دے کر پُوجنا شروع کردیتے ہیں۔ یہ شخصیت پرستی سے بہت آگے کا معاملہ ہوگیا ہے۔ ہم میں سے بیشتر یہ ماننے کو تیار ہی نہیں ہوتے کہ جنہیں ہم اپنا سیاسی رہبر مانتے ہیں وہ بھی انسان ہیں اور اُن سے بھی کوئی غلطی سرزد ہوسکتی ہے۔ لوگ سیاست میں اپنے اپنے بُت کو ساتھ لے کر بحث کے اکھاڑے میں اترتے ہیں اور تعلقات سے دوستی تک سبھی کچھ داؤ پر لگا بیٹھتے ہیں۔ فضول بحث کے اکھاڑے میں دراصل وہی پچھڑتے ہیں جو بظاہر بالا دست ہوں۔ اس حقیقت کو سمجھنے میں بھی ایک زمانہ لگتا ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ ہمارے ہاں لوگ چائے کے ہوٹلوں پر بیٹھ کر سیاسی معاملات پر بحث کیا کرتے تھے۔ دوستیاں تب بھی بگڑتی تھیں مگر تناسب بہت کم تھا۔ اب معاملہ یہ ہے کہ لوگ اسمارٹ فون پر سوشل میڈیا کے ذریعے سیاسی مباحث کی محافل گرم کرتے ہیں اور اِن گرما گرم محافل میں خود بھی خاک ہو جاتے ہیں۔ قدم قدم پر ع
ڈور کو سلجھا رہا ہوں اور سِرا ملتا نہیں
والی کیفیت برپا ہو رہتی ہے مگر پھر بھی لوگ جذباتیت ترک کرکے حقیقت پسندی کی راہ پر گامزن ہونا پسند نہیں کرتے۔ یہ جذباتیت ہمارے پورے قومی وجود کو دیمک کی طرح چاٹ رہی ہے۔ مثبت افکار و اقدار کے پنپنے کی گنجائش نہیں چھوڑی جارہی۔ ہر بے بنیاد طرزِ فکر کو یوں گلے لگایا جارہا ہے گویا اُس کے بغیر ہم جینے کے قابل ہی نہ رہیں گے۔ کسی بھی غلط بات کا یوں دفاع کیا جاتا ہے کہ حقیقت پسندی کی گردن شرم سے جھک جاتی ہے۔ یہ سب صرف ہو نہیں رہا بلکہ بہت تیزی سے ہو رہا ہے اور ہم دن بہ دن اِس دلدل میں دھنستے ہی جارہے ہیں۔ محض جذباتیت کے زیرِ سایہ زندگی بسر کی جاسکتی ہے؟ یقیناً نہیں۔ پھر بھی ہم ایسا ہی کر رہے ہیں۔ یہ سب کچھ اس لیے ہے کہ ہم نے طے کرلیا ہے کہ حقیقت پسندی کو گلے لگائیں نہ مثبت سوچ کو۔ زندگی قدم قدم پر مثبت سوچ کا تقاضا کرتی ہے۔ ڈھنگ سے وہی جی پاتے ہیں جو زمینی حقیقتوں کا ادراک رکھنے کے ساتھ ساتھ اُن کا احترام بھی کرتے ہیں۔ سوشل میڈیا کی مہربانی سے ہمارے معاشرے میں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بے ذہنی کا گراف بلند تر ہوتا جارہا ہے۔ لوگ سوچنے کے عادی ہی نہیں رہے۔ زندگی کو ''جیسی ہے جہاں ہے‘‘ کی بنیاد پر قبول کرنے کی روایت مضبوط ہوتی جارہی ہے۔ خود کو حالات کے دھارے پر چھوڑنے والوں کی تعداد بڑھتی جارہی ہے۔ حالات سے نمٹنے کی صرف ایک صورت ہوتی ہے ... یہ کہ ذہن سے کام لیتے ہوئے ایسی منصوبہ سازی کی جائے کہ کوئی بھی معاملہ اپنی منطقی حد سے آگے نہ بڑھے۔ اس کے لیے غیر معمولی قوتِ ارادی کی ضرورت پڑتی ہے۔ خود کو حالات کے دھارے پر چھوڑنے والے کبھی منزلِ مقصود تک نہیں پہنچ پاتے۔ اُن کے حصے میں بس وہی منزل رہ جاتی ہے جہاں حالات کا دھارا پہنچادے۔ ہم ایک قوم کی حیثیت سے اس وقت ایسی ہی کیفیت سے دوچار ہیں۔ سوچنا ہے نہ کچھ کرنا ہے، بس تماشا دیکھنا ہے۔ جو کچھ ہو رہا ہے اُس کے بدتر اور مضر پہلو بے نقاب ہو جائیں تب بھی ہم کچھ سمجھنے اور سیکھنے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ بیشتر کا یہ حال ہے کہ سوچنے کی تحریک دیجیے تو کہتے ہیں ہم سوچتے تو ہیں۔ عام آدمی محض تماشا دیکھنے اور تھوڑا بہت ردِ عمل ظاہر کرنے کو بھی سوچنا سمجھتا ہے۔ جب لوگ سوچنا چھوڑ دیتے ہیں تب اُنہیں اس بات کا قائل کرنا بھی بہت مشکل ہوتا ہے کہ وہ سوچنا چھوڑ چکے ہیں۔ بات سیدھی سی ہے، سوچنے میں ذہن کھپانا پڑتا ہے، کچھ باتوں کا خیال رکھنا پڑتا ہے اور کچھ باتوں کو چھوڑتے بنتی ہے۔ لوگ سوچتے ہیں ایسے میں کون سوچنے کا وبال پالے۔ بے ذہنی کے ساتھ جینے میں مزے ہی مزے ہیں۔ جو کچھ سامنے آئے بس اُسی کو سب کچھ سمجھ کر قبول کرلیا جائے۔ ایسا کرنے میں ذہن خرچ ہوتا ہے نہ کچھ کرنا پڑتا ہے۔ یہ ہاتھ پیر ہلائے بغیر کی زندگی ہے۔ آج ہم میں سے کتنے ہیں جو معاملات کو سمجھنے اور بہتر زندگی کی طرف جانے کے لیے سوچنے کی زحمت گوارا کرنے کو تیار ہیں؟
یہ وقت ہم سے بہت سے تقاضے کر رہا ہے۔ دنیا بہت آگے جاچکی ہے۔ اور ہمارا یہ حال ہے کہ کہیں ٹِکے ہوئے بھی نہیں بلکہ پیچھے ہٹ رہے ہیں۔ یہ بھی ترقی ہے! جی ہاں، اِسے ترقیٔ معکوس (الٹی ترقی) کہا جاتا ہے۔ وقت کا سب سے بڑا تقاضا یہ ہے کہ ہم بات بات پر جذباتی ہونے کی خصوصیت سے نجات پائیں، سوچنے کو اپنے معمولات کا حصہ بنائیں، کسی بھی معاملے کے تمام مثبت اور منفی پہلوؤں کو ذہن میں رکھیں، زمینی حقیقتوں سے مطابق رکھنے والی طرزِ فکر و عمل اپنائیں اور کسی بھی چیلنج سے نمٹنے کے لیے وہ سب کچھ کر گزریں جسے کرنا ناگزیر ہو۔ جو کچھ بھی کرنا ہے بہت تیزی سے کرنا ہے۔ تاخیر کی گنجائش نہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں