ایک بار پھر اسلام آباد میں میلہ لگنے والا ہے۔ اب کسی بھی سیاسی اجتماع کو زیادہ سے زیادہ میلہ ہی کہا جاسکتا ہے۔ قوم ہر معاملے میں ہلّاگلّا چاہتی ہے۔ سیاسی اجتماعات اب مل بیٹھنے کا بہترین ذریعہ بن چکے ہیں۔ لوگ احتجاج بھی کرتے ہیں تو پوری طرح محظوظ ہوتے ہوئے۔ نعرے لگاتے ہیں تو محض دل پشوری کے لیے۔ دھرنے دیتے ہیں تو مسائل کے حل سے زیادہ دل بستگی کے سامان کی خاطر۔ یہ تماشا دس بارہ سال سے جاری ہے۔ کوئی کتنی ہی کوشش کر دیکھے، لوگ اپنی ڈگر سے ہٹنے کو تیار نہیں۔ عوام سیاست کے نام پر جھانسے میں آتے دیر نہیں لگاتے۔ انتہائی بنیادی مسائل کے حل کی کوئی سبیل نکالنے کی کوشش کرنے پر اب محض دل بہلانے کی تدبیر کرنے کو ترجیح دی جارہی ہے۔ قومی سیاسی جماعتیں کیا چاہتی ہیں، کچھ کھلتا نہیں۔ یہ بات تو طے ہے کہ سبھی کا کوئی نہ کوئی ایجنڈا ضرور ہوتا ہے مگر یہ ایجنڈا کیا ہے اِس کے بارے میں پورے یقین سے کوئی کچھ بھی نہیں کہہ سکتا۔ راتوں رات ایجنڈا بھی بدل جاتا ہے اور ایجنڈے کے مطابق کام کرنے کا طریق بھی۔ ایسے میں عام آدمی تو عام آدمی، خاصے ذہین افراد کی سمجھ میں بھی کچھ نہیں آتا۔ کم و بیش ڈھائی عشروں کے دوران پاکستان میں سیاست کے نام پر ہر وہ کھیل ہوا ہے جس نے ہمارے معاملات کو مزید بگاڑا ہے۔ عوام پریشان ہیں کہ اپنے بنیادی مسائل کے حل کے لیے کسے وکیل کریں‘ کس سے منصفی چاہیں۔ عوام کے بنیادی مسائل کی بات کرنے والے خال خال ہیں اور اُنہیں خود عوام بھی توجہ سے نہیں سنتے۔ چند سیاسی جماعتوں نے دوعشروں سے بھی زائد مدت کے دوران عوامی مسائل کو اپنا بنیادی ایجنڈا بناکر سیاست کی ہے اور اپنے مسائل کے حل کے حوالے سے عوام کا شعور بیدار کرنے کی کوشش کی ہے مگر اب تک ایسی ہر کوشش بہت حد تک ناکام رہی ہے۔ اِس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ لوگ اپنے مسائل کے حل سے کہیں زیادہ اِدھر اُدھر کے معاملات میں مشغول اور گم رہتے ہیں۔ جماعتِ اسلامی اور چند دوسری جماعتوں نے عوام کو بنیادی مسائل کے حل کے لیے آواز اٹھانے کی تحریک بھی دی اور تربیت بھی۔ کراچی میں جماعتِ اسلامی کا کردار اس حوالے سے بہت نمایاں اور اہم رہا ہے۔ جماعتِ اسلامی کی دیکھا دیکھی پاک سرزمین پارٹی، ایم کیو ایم پاکستان اور دیگر جماعتوں نے بھی عوامی مسائل کے حل کی کوششوں کا ڈول ڈالنے کی کوشش کی۔
حکومتوں کو کمزور کرکے ڈی ریل کرنے کا عمل عشروں سے جاری ہے۔ بھرپور کوشش کی جاتی رہی ہے کہ جیسے تیسے کسی بھی حکومت کو کمزور کرکے گرایا جائے اور اقتدار پر متصرف ہوکر معاملات کو اپنی مرضی کی شکل دی جائے۔ دس سال قبل جب پیپلز پارٹی کی حکومت تھی تب ہم نے اسلام آباد میں علامہ طاہرالقادری صاحب کا دھرنا دیکھا تھا۔ پی پی پی کا دور ختم ہوا تو نواز لیگ کا دور آیا۔ اب دھرنے لیے لوگوں کو گھروں سے نکالنے کی باری عمران خان کی تھی۔ نواز لیگ کی حکومت کو ڈھنگ سے کام کرنے کا موقع نہ مل سکا۔ جیسے تیسے پارلیمنٹ کی مدت پوری ہوئی تو اقتدار پی ٹی آئی کو مل گیا۔ اس دور کے بارے میں یہ بات پورے یقین سے کہی جاسکتی ہے کہ پی ٹی آئی کا پورا دور محض نعروں، دعووں اور وعدوں کی نذر رہا۔ عمران خان صرف یہ کہتے رہے کہ چوروں کو نہیں چھوڑیں گے۔ لوگ اس بات سے تو اتفاق کرتے تھے کہ چوروں کو نہ چھوڑا جائے مگر اُنہیں اول و آخر اگر دلچسپی ہے تو صرف اس بات سے کہ اُن کے مسائل حل کیے جائیں، بنیادی سہولتوں کی فراہمی یقینی بنائی جائے، اشیائے خور و نوش سستی ملیں، ایندھن اور بجلی کے معاملات درست رہیں، ضرورت کے مطابق روزگار کے مواقع میسر رہیں۔ عوام عمومی سطح کی زندگی میں بھی خوش ہی رہتے ہیں۔ بس اتنا ہے کہ زندہ رہنے کے لیے جو کچھ درکار ہے وہ سہولت سے ملتا رہے۔ اور یہی کام نہیں ہو پارہا۔ سیاسی جماعتوں کی اکثریت راہ کو پہچانتی نہیں اور بھٹک رہی ہے۔ اُن کی ساری محنت صرف اور صرف اقتدار کے حصول کی خاطر ہے۔ سیاست کا مقصد صرف یہ رہ گیا ہے کہ کسی نہ کسی طور اپنی جیبیں اور اپنی تجوریاں بھرنے کا موقع ملے اور اُس موقع سے بھرپور فائدہ اٹھایا جائے۔ یہ کوئی نہیں سوچ رہا کہ دنیا کہاں جارہی ہے اور ملک کہاں جارہا ہے۔ ساری کی ساری پریشانی اِس بات کی ہے کہ کسی نہ کسی طور اپنے ذاتی یا گروہی مفادات کو زیادہ سے زیادہ تقویت بہم پہنچانے کی راہ ہموار ہو جائے۔ کئی عشروں کی بے حسی اور بے دِلی نے مسائل کو انتہائی خطرناک حد تک سنگین بنادیا ہے۔ بعض چھوٹے معاملات بھی بحران کی شکل اختیار کرچکے ہیں۔ عوام کو ایک بھی بنیادی سہولت ڈھنگ سے میسر نہیں۔ تعلیم و صحتِ عامہ کے شعبے ہی کو لیجیے۔ سرکاری سکولوں اور ہسپتالوں کا حال ڈھکا چھپا نہیں۔ کوئی کسی کو جواب دہ نہیں۔ سرکاری مشینری صرف تنخواہ اور الاؤنسز بٹورنے پر یقین رکھتی ہے۔ کام میں دلچسپی لینے والے خال خال ہیں۔ کسی کو سرکاری دفتر سے کوئی کام پڑ جائے تو دھکے کھاتے کھاتے تھک جاتا ہے مگر کام ہوکر نہیں دیتا۔ سٹینڈرڈ پروسیجر کے نام پر پریشان کرنے کی روایت سی پڑچکی ہے۔ سیاسی جماعتیں جو کھیل ڈھائی تین عشروں سے کھیل رہی ہیں وہ اب بند ہونا چاہیے۔ عوام کو اس بات سے کیا غرض ہے کہ اقتدار کس کے نصیب کا تھا اور کس نے چھین لیا۔ لوگوں کو اپنے مسائل کے حل سے غرض ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ زندگی سُکون سے بسر ہو، جتنا کام کریں اُتنی اجرت ملے اور معاشرے میں سُکون و اطمینان رہے۔ مگر صاحب! عوام بھی تو ستم ظریف ہیں۔ ہر جلسے میں شریک ہوتے ہیں، بھرپور جوش و خروش کا مظاہرہ کرتے ہیں اور ہر سیاست دان کو یقین دلاتے ہیں کہ ساری عوامی طاقت بس اُسی کے پاس ہے۔ بہت سے سیاست دانوں کو لوگوں نے بانس پر چڑھایا ہے‘ عوامی طاقت نے معاملات بگاڑے۔ جلسوں میں بھرپور حاضری بہت سوں کو منطقی حدود سے بہت آگے جاکر سوچنے پر اُکساتی ہے۔ سیاست دانوں کا معاملہ یہ ہوگیا ہے کہ جلسوں کی کامیابی کو پارٹی اور اُس کی پالیسی یا منشور کی کامیابی سمجھنے لگے ہیں۔ چند ہفتے قبل پی ٹی آئی کی حکومت ختم ہوئی۔ تب سے اب تک پی ٹی آئی اور مسلم لیگ (ن) ایک دوسرے پر جلسوں کے ذریعے حملے کر رہی ہیں۔ شہر شہر ہونے والے جلسے طاقت کے اظہار کی مد میں ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کسی نہ کسی طور عوام کو گھروں سے نکال کر جلسہ گاہ تک لانے میں کامیابی مل جانے پر یہ کس طور کہا جاسکتا ہے کہ ملک کے معاملات درست ہوگئے، عوام کے مسائل حل ہوگئے۔ پورا ملک مسائل کی آماجگاہ بنا ہوا ہے۔ ہر سطح کی حکومتی یا ریاستی مشینری اپنے حصے کے کام کرنے سے کترا رہی ہے۔ معاملات دیکھتے ہی دیکھتے خرابی کی طرف یوں رواں ہوتے ہیں کہ لوگ دیکھتے ہی رہ جاتے ہیں۔ اب نجی شعبہ بھی خرابیوں کی زد میں ہے۔ مجموعی طور پر پورا معاشرہ کرپشن کی زد میں ہے۔ سوال صرف سرکاری مشینری کا نہیں‘ اب نجی شعبے میں بھی کرپشن عام ہے۔ جو خرابیاں پورے معاشرے میں ہیں وہی خرابیاں کام کے ماحول میں بھی پائی جاتی ہیں۔ یہ وقت عوامی طاقت کے اظہار کا نہیں۔ سیاسی جماعتیں پاور شو میں مصروف ہیں۔ یہ کھیل پوری قوم کے لیے جان کا عذاب بنا ہوا ہے۔ لازم ہے کہ اب یہ تماشا ختم کرکے بنیادی مسائل کے حل کی بات کی جائے‘ اس حوالے سے کوشاں رہنے پر توجہ دی جائے۔
سیاسی جماعتوں سمیت تمام سٹیک ہولڈرز کو ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوکر سب سے پہلے ملک اور قوم کی فکر کرنی چاہیے۔ وسیع البنیاد مکالمے کے ذریعے معاملات نئے سِرے سے طے کیے جاسکتے ہیں۔ بہت سے ممالک میں سیاسی ابتری دور کرنے کے لیے مکالمے کا سہارا لیا گیا اور بات بن گئی۔ جنوبی افریقہ میں بھی یہی ہوا تھا۔ ہمارے ہاں بھی کوئی وسیع البنیاد اور خود مختار مصالحتی کمیشن بنایا جاسکتا ہے تاکہ محاذ آرائی کی کیفیت ختم کرکے ملک کو حقیقی ترقی و خوش حالی کی راہ پر ڈالنا ممکن ہوسکے۔ سیاسی جماعتیں پاور شو ضرور کریں مگر اپنے مفادات کے لیے نہیں بلکہ ملک کے لیے۔