دس برس میں ہمارا معاشرہ خاصا بدل گیا ہے۔ مشترکہ خاندانی نظام کمزور پڑ چکا ہے۔ تنہا یعنی نیوکلیئر فیملی سسٹم کو ترجیح دینے والوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ خرچ کرنے کا رجحان نمایاں بلکہ خطرناک حد تک بڑھ گیا ہے۔ دوسری طرف مطالعے کی عادت برائے نام رہ گئی ہے۔ سوشل میڈیا پر توجہ زیادہ ہے۔ مستقبل سے بے نیازی بھی ہماری قوم میں نمایاں وصف کی حیثیت سے ابھری ہے۔ یہ ساری باتیں عالمگیر پیمانے پر مارکیٹنگ ریسرچ کے ادارے اپسوس نے اپنی ایک تحقیقی رپورٹ میں بتائی ہیں۔ اس تحقیق میں 2010ء سے 2020ء تک پاکستانی صارفین کے رویوں اور رجحانات کا مطالعہ کیا گیا۔ ادارے کے مقامی سربراہ نے بتایا کہ یہ تحقیق پاکستان میں اپنی نوعیت کی پہلی کاوش ہے۔ یہ اعداد و شمار بہتر منصوبہ سازی میں خاصے معاون ثابت ہو سکتے ہیں۔
اس گلوبل مارکیٹ ریسرچ رپورٹ کے مطابق پاکستان کے 50 شہروں اور 500 دیہات میں رہنے والے بارہ سال سے زائد عمر کے 50 ہزار افراد کی آرا کا مربوط تجزیہ بتاتا ہے کہ پاکستان میں مشترکہ خاندانی نظام کا گراف گر رہا ہے۔ سبب اس کا یہ ہے کہ لوگ ایک دوسرے کو برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں۔ مشترکہ خاندان میں معاشی مشکلات کچھ کم ہو جاتی ہیں مگر بہت سے لوگ اس فائدے کو نظر انداز کرکے بیوی بچوں کے ساتھ الگ رہنے کی راہ پر گامزن ہیں۔ ایک بنیادی سبب یہ بھی ہے کہ اپنے معاملات میں دوسروں کی مداخلت برداشت کرنے کا وصف دم توڑتا جا رہا ہے۔ اس حوالے سے یہ پہلو نظر انداز نہیں کیا جانا چاہیے کہ بزرگوں نے اپنا تربیتی کردار ادا کرنا چھوڑ دیا ہے۔ بزرگ خود بھی زندگی کے ہر معاملے سے لذت کشید کرنے کی راہ پر گامزن ہیں!
معاشرہ مسلسل تبدیل ہو رہا ہے۔ دیہات سے شہروں کی طرف نقل مکانی کا رجحان زور پکڑتا جا رہا ہے۔ لوگ بڑے اور درمیانے درجے کے شہروں میں رہنے کو ترجیح دیتے ہیں تاکہ معاشی مشکلات سے آسانی سے نمٹ سکیں۔ دیہی آبادی گھٹتی جا رہی ہے۔ آبادی کا یہ عدم توازن معیشت کے زرعی پہلو کو شدید نقصان پہنچا رہا ہے۔ زیرِ کاشت رقبہ کم ہوتا جا رہا ہے۔ اِس کے نتیجے میں غذائی اجناس اور سبزیوں وغیرہ کی پیداوار متوازن نہیں رہی اور مختلف اشیائے خور و نوش کی قیمتیں بڑھتی جا رہی ہیں۔ کہا جا سکتا ہے کہ ملک میں بہت حد تک فوڈ سکیورٹی کا مسئلہ سر اٹھا چکا ہے۔ المیہ یہ ہے کہ عوام میں اس حوالے سے شعور بالکل نہیں پایا جاتا۔ علم کے حصول کی لگن بھی دم توڑ رہی ہے۔ باقاعدگی سے مطالعہ کرنے اور حالاتِ حاضرہ سے باخبر رہنے والوں کی تعداد میں تیزی سے کمی واقع ہوتی جا رہی ہے۔ یہ رجحان شخصیت کی تشکیل کے مراحل کو پیچیدہ بنا رہا ہے۔ نئی نسل کو اخبار پڑھنے ہی کا شوق نہیں تو ادبِ عالیہ کے مطالعے کی امید کیا وابستہ کی جائے؟ آج ایسے نوجوان خال خال ہیں جن کے ہاتھ میں کتاب دکھائی دے یا جو گھر کے کسی کونے میں چند کتابیں سلیقے سے رکھتے اور اُن سے کماحقہٗ مستفید ہوتے ہوں۔ یہ خامی اُن کی شخصیت کی تشکیل کے حوالے سے پیچیدگیاں پیدا کر رہی ہے۔ ملک بھر میں ایسے لوگوں کی تعداد بھی تیزی سے بڑھ رہی ہے جو گھر سے باہر کھانے کو ترجیح دیتے ہیں۔ تنہا یا اہلِ خانہ کے ساتھ باہر کھانے کا رجحان اس قدر پروان چڑھ چکا ہے کہ اِس سے گھر کے بجٹ کا توازن بھی بگڑنے لگا ہے۔ کھانے پینے کی عادات اس قدر بگڑ چکی ہیں کہ لوگ بظاہر بھوک نہ لگنے پر بھی کچھ نہ کچھ کھانے کے فراق میں رہتے ہیں۔ معدہ فرمائش نہ کر رہا ہو تو محض زبان کے چٹخارے کی خاطر گھر سے باہر ہوٹل میں یا ''ڈھابے‘‘ پر کچھ نہ کچھ کھا لیا جاتا ہے۔ آن لائن آرڈر کے ذریعے فاسٹ فوڈ آئٹمز گھر پر منگانے کا رجحان بھی قوی ہوتا جا رہا ہے۔ الجھن کی بات یہ ہے کہ جن کی جیب اجازت نہ دیتی ہو‘ وہ بھی اِس لَت کا شکار ہیں۔ یوں گھر کے ماہانہ بجٹ کا بڑا حصہ کھانے پر لگ جاتا ہے اور دیگر اہم امور کے لیے خاطر خواہ رقم نہیں ہوتی۔
ملک کے حالات نے ایسی شکل اختیار کی ہے کہ 51 فیصد پاکستانی صرف حال میں مست رہنا چاہتے ہیں۔ مستقبل کے حوالے سے سوچنے والوں کی تعداد خطرناک رفتار سے گھٹ رہی ہے۔ عمومی گفتگو میں بھی لوگ مستقبل کے حوالے سے منصوبہ سازی کی بات نہیں کرتے۔ اُن کے نزدیک جو کچھ بھی ہے وہ زمانۂ حال ہے۔ عمومی سوچ یہ ہے کہ اب مستقبل کے حوالے سے بے نیازی برتتے ہوئے جینا چاہیے کہ ایسا کرنے ہی میں زیادہ فائدہ اور لطف ہے! نفسی امور کے ماہرین کہتے ہیں کہ مستقبل کے لیے منصوبہ سازی عقلِ سلیم کی ایک واضح علامت ہے۔ ہر انسان کو محض حال میں مست رہنے کے بجائے مستقبل کے بارے میں بھی سوچنا چاہیے تاکہ بعد میں کسی بھی بڑی الجھن کا سامنا کرنے میں زیادہ دشواری پیش نہ آئے۔ اچھے کپڑوں میں نظر آنے کی خواہش رکھنے والوں کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ عام آدمی آمدنی کا 7فیصد تک ''شخصی ارتقا‘‘ پر خرچ کرنے کا عادی ہو چکا ہے۔ یہ رجحان بُرا نہیں مگر ساتھ ہی ساتھ آمدنی بڑھانے پر بھی متوجہ رہنا چاہیے۔ 21فیصد پاکستانی بیشتر وقت جوان دکھائی دینے کے خواہش مند ہیں کہ صحت کے حوالے سے شعور تھوڑا بڑھا ہے اور اس حوالے سے خریداری کا رجحان بھی دیکھا جا رہا ہے۔ یہ سب کچھ درست مگر کسی ضروری مد کو قربان کرکے ایسا نہیں کیا جانا چاہیے۔
دس برس کے دوران سیل فون استعمال کرنے والوں کی تعداد تیزی سے بڑھی ہے۔ سیل فونز کے 35 فیصد صارفین کے پاس سمارٹ فونز ہیں۔ 68 فیصد صارفین نیا فون استعمال کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ یوں گھر کا بجٹ کسی نہ کسی حد تک متاثر ہوتا ہے۔ دس برس میں موبائل ایپس استعمال کرنے کا رجحان بھی خوب پروان چڑھا ہے۔ لوگ وٹس ایپ، فیس بک، یو ٹیوب، ٹک ٹاک، انسٹا گرام اور دیگر موبائل ایپس اس طور استعمال کرتے ہیں کہ وہ اب باقاعدہ طور پر زندگی کا حصہ بن چکی ہیں۔ ایک بڑا منفی معاملہ یہ ہے کہ انٹرنیٹ کو اصلاً تفریح کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔ پاکستان بھر میں تعلیمی اور کاروباری مقاصد کے لیے انٹرنیٹ کا استعمال ثانوی حیثیت رکھتا ہے۔ آن لائن تعلیم و تعلّم کا رجحان بھی بڑھا ہے؛ تاہم اب تک پاکستان میں انٹرنیٹ کا استعمال بنیادی طور پر تفریحِ طبع کے لیے ہوتا ہے۔ ایک صارف اوسطاً روزانہ 110 منٹ انٹرنیٹ استعمال کرتا ہے۔ دوسری طرف 70 فیصد عوام کی رسائی ٹی وی تک ہے جبکہ 10 فیصد پاکستانی مین سٹریم میڈیا سے لاتعلق ہیں۔ انٹرنیٹ سے جانے والے پیغام کی رسائی 17 فیصد پاکستانی صارفین تک، پرنٹ میڈیا پیغام کی رسائی 5 فیصد افراد تک اور ریڈیو سے پیغام کی رسائی 4 فیصد پاکستانیوں تک ہے۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ کون سا ذریعۂ ابلاغ معاشرے پر کس نوعیت کے اثرات مرتب کر رہا ہے اور اُن اثرات کا دائرہ کتنا وسیع ہے۔
دس برس میں رونما ہونے والی ایک اور نمایاں تبدیلی یہ ہے کہ عام پاکستانی ماہانہ آمدنی کا 43 فیصد کھانے پینے پر خرچ کر رہا ہے۔ 7 فیصد ٹرانسپورٹیشن، 4 فیصد سے زائد ہاؤسنگ جبکہ 9 فیصد تعلیم پر خرچ ہو رہا ہے۔ اس حوالے سے ترجیحات کا تعین ناگزیر ہے تاکہ کوئی ایک شعبہ یا زندگی کا کوئی پہلو زیادہ متاثر نہ ہو۔ معاشرے میں جو کچھ ہو رہا ہے اُس کے تناظر میں اس تحقیقی رپورٹ کے مندرجات کو ویک اَپ کال یا پھر فردِ جرم کے درجے میں رکھیے۔ معاشرہ تلپٹ ہوا جا رہا ہے۔ اخلاقی اقدار دم توڑتی جا رہی ہیں۔ روایات قصۂ پارینہ بن چکی ہیں۔ معاشرتی معاملات سمیت تمام امور معاشی معاملات کی چکی میں پس رہے ہیں۔ مادّّہ پرستی انتہا کو پہنچی ہوئی ہے۔ لوگ صرف کھانے پینے اور سونے جاگنے ہی کو زندگی سمجھ کر مطمئن ہیں۔ دنیا بدل رہی ہے اور ہم بھی‘ مگر ہمارا بدلنا بگاڑ کی شکل میں زیادہ ہے۔ ہمیں مثبت تبدیلیوں کی ضرورت ہے۔ زندگی کے منفی پہلوؤں کے مضبوط ہو جانے کو تبدیلی قرار نہیں دیا جا سکتا۔ مذکورہ رپورٹ اور اس جیسے تجزیوں کو ویک اَپ کال سمجھ کر ہوش کے ناخن لیے جائیں۔