"MIK" (space) message & send to 7575

زبان و بیان

بولنا ہر انسان کا بنیادی وصف ہے اور یومیہ بنیاد پر کیا جانے والا کام بھی۔ ہم میں سے کون ہے جو دن بھر خاموش رہتا ہے اور اپنی بات بیان کرنے کے لیے زبان کے استعمال سے ہٹ کر دیگر طریقے اپنانے پر زور دیتا ہے؟ کوئی بھی نہیں! گونگے انسان بھی کوئی بات کسی کو سمجھاتے وقت تھوڑی بہت آواز نکالتے ہی ہیں۔ بولنا اور اپنی بات کو دوسروں تک پہنچانے کے لیے زبان سے بخوبی کام لینا کم و بیش ہر انسان کی نمایاں ترین ترجیحات میں شامل ہے۔ یہ اظہار کی صلاحیت ہی تو ہے جو انسان کو دیگر تمام مخلوق سے ممتاز کرتی ہے۔ اظہار کے وصف ہی نے دنیا میں نیرنگی پیدا کی ہے۔ ہم کتنی ہی کوشش کرلیں، اِس حقیقت سے انکار کرسکتے ہیں نہ اسے نظر انداز کرسکتے ہیں کہ اظہار ہی انسان کی سب سے بڑی صفت اور شناخت ہے۔ آج تک جو کچھ بھی ہوسکا ہے اُس میں بنیادی یا کلیدی کردار زبان و بیان نے ادا کیا ہے۔ جو کچھ دل و دماغ میں پنپ رہا ہو اُسے ظاہر کرنے کا موثر ترین وسیلہ یا ہتھیار زبان ہے۔ اگر اس مرحلے میں کوئی سنگین غلطی ہو جائے تو سمجھ لیجیے بنی ہوئی بات بگڑنے میں بھی زیادہ دیر نہیں لگاتی۔
اظہار کے لیے زبان کا مؤثر استعمال بنیادی چیز ہے۔ زبان یعنی منہ میں موجود گوشت کا لوتھڑابھی اور الفاظ کا مجموعہ بھی۔ یہ زبان ہی تو ہے جس کے استعمال کی نوعیت دیکھ کر ہمارے بارے میں کوئی رائے قائم کی جاتی ہے۔ ہم جس طرح کے الفاظ منتخب کرکے زبان تک لاتے ہیں اُنہی کی بنیاد پر ہمارے بارے میں سوچا جاتا ہے، ہماری قدرکا تعین کیا جاتا ہے۔ زندگی کا کوئی بھی معاملہ اظہارِ بیان کی حد سے باہر نہیں۔ کسی بھی معاملے میں معقول طریقے سے اپنی بات کہے بغیر بات بنتی نہیں۔ ایسے میں یہ بات کتنی عجیب ہے کہ جس وصف کی بنیاد پر ہمارے بارے میں کچھ سوچا جاتا ہے، کوئی ٹھوس اور حتمی رائے قائم کی جاتی ہے اُسی کو ہم نے یوں نظر انداز کر رکھا ہے کہ پلٹ کر دیکھتے ہی نہیں۔
فقیدالمثال کامیابی ہی نہیں‘ عمومی نوعیت کی کامیابی بھی زبان کے مؤثر استعمال کے بغیر ممکن نہیں ہو پاتی۔ لوگ محض یہ نہیں دیکھتے کہ آپ کا ذخیرۂ الفاظ کیا ہے مگر اس بات پر بھی غور کیا جاتا ہے کہ آپ بولتے وقت کون سے الفاظ زبان تک لاتے ہیں، کس بات کو کس پیرائے میں بیان کرتے ہیں اور یہ بھی کہ بولتے وقت اس بات کا خیال بھی رکھتے ہیں یا نہیں کہ فریقِ ثانی کی حیثیت کے مطابق کیا کہا جائے اور کیا نہ کہا جائے۔
آج دنیا میں جتنے بھی کامیاب معاشرے دکھائی دے رہے ہیں اُن کی بھرپور کامیابی کے بارے میں جاننے کی کوشش کیجیے گا تو اندازہ ہوگا کہ وہ اظہار کا فن سیکھنے کے بعد ہی اپنے لیے فقیدالمثال کامیابی ممکن بنا پائے۔ بہت سے شعبے تو خیر ہوتے ہی اس لیے ہیں کہ انسان اپنے آپ کو ڈھنگ سے اظہار کے قابل بنائے۔ ان شعبوں میں وہی کامیاب ہو پاتے ہیں جو اچھا سوچنے اور اچھا بولنے میں مہارت رکھتے ہیں۔ اداکاری ہی کی مثال لیجیے۔ اداکاری اظہار سے ہٹ کر کیا ہے؟ جو جتنا سوچنا اور بولنا جانتا ہے وہ اُتنا بڑا اداکار بن پاتا ہے۔ اداکاری محض کیمرے یا حاضرین کے سامنے کھڑے ہوکر چند جملے ادا کرنے کا نام نہیں۔ نہ ہی یہ صرف حرکات و سکنات سے عبارت ہے۔ یہ سب کچھ تو ہم سبھی یومیہ بنیاد پر کرتے ہی ہیں۔ اداکاری میں ڈھنگ سے بولنے کی اہمیت ہے نہ کہ محض بولنے کی۔ کبھی کبھی کوئی صرف ایک لفظ کو ڈھنگ سے ادا کرنے کی بنیاد پر دوسروں کو پچھاڑ دیتا ہے۔ پرتھوی راج کپور، دلیپ کمار، راج کپور، موتی لعل، بلراج ساہنی، امیتابھ بچن، سنجیو کمار، نصیرالدین شاہ، امریش پوری اور عامر خان جیسے بالی وُڈ سٹارز اور پاکستان میں محمد علی، طلعت حسین، طالش، سنتوش کمار، سہیل اصغر، فردوس جمال اور دوسرے بہت سے اداکاروں کی ساری کی ساری کامیابی صرف بولنے کی مہارت کی مرہونِ منت ہے۔ چھوٹے اور سادہ جملوں کے ذریعے کسی بھی معاملے کو بھرپور انداز سے بیان کرنے اور چبھتی ہوئی پنچ لائن کے ساتھ بات ختم کرنے کا فن سرِدست محترم انور مقصود پر ختم ہے۔
اداکاری میں کم و بیش 80 فیصد حصہ صداکاری کا ہے۔ تاثرات الفاظ کی درست ادائیگی سے ہم آہنگ ہوں تو ہی اچھا تاثر قائم کرنے میں کامیاب ہو پاتے ہیں۔ اداکاری کی تربیت دینے والے ادارے سب سے زیادہ زور زبان کے اسرار و رموز سیکھنے پر دیتے ہیں۔ اداکاری کا فن صرف اُنہیں راس آتا ہے جو بھرپور مطالعے اور مشاہدے کے ذریعے اپنے آپ کو الفاظ کی بہتر ادائیگی کے لیے تیار کرتے ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ یہ بھی دیکھا جاتا ہے کہ بات رموز ِاوقاف کے ساتھ ادا کی جارہی ہے یا نہیں۔ جو لوگ کسی بھی زبان کو بولنے اور لکھنے کے اسرار و رموز یعنی قواعدِ انشا سے اچھی طرح واقف ہوتے ہیں وہ اظہار کے معاملے میں بہت نمایاں رہتے ہیں۔
زبان و بیان کے معاملات پر متوجہ ہونا صرف اہلِ دانش اور اہلِ قلم کا معاملہ نہیں۔ یہ تو ہر انسان کے لیے کم و بیش لازم ہے۔ ہم روزانہ جو کچھ بولتے ہیں وہ اگر ڈھنگ سے بولیں تو زندگی کا معیار بلند ہوتا جاتا ہے۔ اچھا بولنے سے شخصیت نکھرتی ہے اور معاملات بھی درست ہوتے ہیں۔ ہم میں سے بیشتر اچھی طرح جانتے ہیں کہ گفتگو کا فن خود بخود نہیں آتا بلکہ سیکھنا پڑتا ہے اور یہ فن وہی سیکھ پاتے ہیں جو اپنے آپ کو کسی بلند مقام پر دیکھنے کے حوالے سے سنجیدہ ہوتے ہیں۔ ایسے میں یہ بات کتنی عجیب ہے کہ اچھا بولنے کی مہارت پیدا کرنے پر ہم میں سے کم ہی توجہ دے پاتے ہیں۔ جس طور جسم کی صحت کے لیے کھانے پینے کا خیال رکھنا پڑتا ہے بالکل اُسی طور ذہن و دل کی صحت کا معیار بلند رکھنا اُسی وقت ممکن ہو پاتا ہے کہ جب ہم زبان و بیان کے حوالے سے سنجیدہ ہوتے ہیں۔
ہم اپنے ماحول میں ایسے بہت سے گھرانوں کو دیکھتے ہیں جو محض اس لیے بھی نمایاں اور بلند معیارِ زندگی کے حامل ہوتے ہیں کہ اچھا بولنے پر توجہ دیتے ہیں۔ اچھا بولنے سے مراد محض نرمی اور ٹھہر ٹھہر کر بولنا نہیں بلکہ الفاظ کا موزوں انتخاب بھی ہے۔ علم و فن کے اعتبار سے نمایاں گھرانے وہی ہیں جو اچھا بولنے کے فن کو اہمیت دیتے ہیں۔ بولنے میں شائستگی اپنانے سے مزاج میں بھی نرمی پیدا ہوتی جاتی ہے۔ پھر انسان ایسی راہوں پر چلنے لگتا ہے جو افکار و اعمال‘ دونوں کو پختگی کی طرف لے جاتی ہیں۔
آج ہمارے ماحول میں زبان و بیان کو اہمیت نہ دینے کا چلن عام ہے۔ لوگ روزمرہ کی گفتگو کا معیار بلند کرنے پر بھی ذرا بھی متوجہ نہیں۔ بیشتر کا یہ حال ہے کہ اپنی بات کسی نہ کسی طور کہہ دینے پر یقین رکھتے ہیں۔ یہ نہیں سوچا جاتا کہ ڈھنگ سے نہ بولنے کی صورت میں بات صرف خرابی پیدا کرتی ہے۔ یہ زبان و بیان کا گرتا ہوا معیار ہی تو ہے جو آج ہماری زندگی میں ہر طرف سے صرف خرابیوں کو دعوت دے رہا ہے۔ لوگ اپنی کام کی بات بھی ڈھنگ سے کہنے پر متوجہ نہیں ہوتے۔ زبان و بیان کی اہمیت کبھی کم نہیں ہوئی۔ دنیا چاہے جتنی بھی ترقی کرلے، یہ حقیقت اٹل ہے کہ جو اپنا مافی الضمیر ڈھنگ سے بیان کرے گا اُس کی طرف لوگ زیادہ اور تیزی سے متوجہ ہوں گے۔ اس حقیقت پر بھی لوگ غور نہیں کرتے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ زبان و بیان کی اہمیت بڑھتی جارہی ہے کیونکہ ابلاغِ عامہ کے ذرائع کی کثرت اور تنوع نے آج کے انسان کا ذہن ایسا الجھادیا ہے کہ اُلجھی ہوئی باتوں پر متوجہ ہونا انتہائی دشوار ہوگیا ہے۔ ایسے میں اُن کی بات فوری طور پر سنی اور سمجھی جاتی ہے جو اپنی ہر بات ڈھنگ سے کہنے پر متوجہ ہوتے ہیں۔
آج بھی مختلف شعبوں میں اس بات کی بہت اہمیت ہے کہ انسان اپنی بات ڈھنگ سے کہے۔ ابلاغ جامع ہونا چاہیے اور اس کے لیے زبان و بیان کے معاملے پر متوجہ ہونا لازم ہے۔ یہ فن کسی بھی انسان میں خود بخود نہیں پنپتا بلکہ پروان چڑھانا پڑتا ہے۔ نئی نسل کو یہ بات خاص طور پر سمجھائی جانی چاہیے کہ طرزِ گفتگو ہی انسان کو ممتاز کرتی ہے، بلند تر زندگی کے لیے تیار ہونے میں مدد دیتی ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں