"MIK" (space) message & send to 7575

ہمت ہاری تو کام تمام

زندگی ہار جیت کا نام ہے۔ انسان سو بار جیتتا ہے‘ سو بار ہارتا ہے۔ بار بار ہارکر بھی جیتتا ہے۔ کئی بار ایسا بھی ہوتا ہے کہ مسلسل جیتتے رہنے کے بعد اچانک ہار جاتا ہے۔ یہ سب کچھ زندگی سے جُڑا ہوا ہے۔ کوئی کتنی ہی کوشش کر دیکھے‘ ہر کوشش کامیاب نہیں ہوتی۔ کوئی کتنا ہی چاہے‘ ہر بار جیت نہیں سکتا۔ اور اس میں کیا شک ہے کہ ہار کا مزا چکھنے کے بعد ہی جیتنے کا لطف محسوس ہوتا ہے۔ آپ کو ایسے بہت سے لوگ دکھائی دیں گے جو منہ میں سونے کا چمچ لے کر پیدا ہوتے ہیں۔ ان کی زندگی الگ طرح کی ہوتی ہے۔ جنہیں زندگی نے مسائل سے دوچار کر رکھا ہے وہ تگ و دَو کرتے ہیں اور صِلہ پاتے ہیں۔ ہارنے کے بعد جیتنے اور محروم ہونے کے بعد پانے کا لطف کچھ اور ہے۔ جنہیں سب کچھ بنا بنایا مل گیا ہو وہ جدوجہد کے لطف کو کبھی محسوس کر ہی نہیں سکتے۔ انتہائی صاحبِ حیثیت طبقے کے افراد میں زندگی کی بہت سی بنیادی اقدار کی کمی واضح طور پر محسوس ہوتی ہے۔ وہ بعض معاملات میں ذہن کو ڈھنگ سے اس لیے بروئے کار نہیں لا پاتے کہ انہیں کچھ اندازہ ہی نہیں ہوتا کہ جب کوئی مشکل صورتحال درپیش ہو تو کرنا کیا ہے۔ جنہیں زندگی نے بار بار آزمایا ہو وہی جانتے ہیں کہ گرنے کے بعد سنبھلنا کیسے ہے اور یوں سنبھلنے میں کیا مزا چھپا ہوا ہے۔
کبھی آپ نے سوچا ہے کہ کسی بھی چیز کو پانے کا اصل لطف کب محسوس ہوتا ہے؟ جب وہ چیز محنت سے حاصل کی گئی ہو۔ انسان جب اپنی لیاقت‘ عزم اور محنت کو بروئے کار لاکر کچھ حاصل کرتا ہے تب زندگی زیادہ رنگین دکھائی دیتی ہے‘ اپنے آپ پر فخر محسوس ہوتا ہے‘ ہر بات کچھ زیادہ لطف دینے لگتی ہے۔ اپنی لیاقت اور محنت کے نتیجے میں حاصل ہونے والی کامیابی بے مثال نوعیت کا اعتماد پیدا کرتی ہے۔ اس اعتماد کے نتیجے میں شخصیت تیزی سے پروان چڑھتی ہے۔ زندگی ہمیں مختلف مراحل میں آزماتی رہتی ہے۔ ہر نئی صورتحال کسی نہ کسی درجے میں چیلنج ہی ہوتی ہے۔ ہم اگر کسی مشکل کو درخورِ اعتنا نہ سمجھیں تو وہ اپنی اصل سے کئی گنا ہوکر ہمارے حواس پر سوار ہونے لگتی ہے۔ زندگی ہم سے بہت کچھ چاہتی ہے۔ ویسے تو خیر انسان کے لیے لازم ہے کہ ہر وقت امتحان یا آزمائش کے لیے تیار رہے مگر بعض معاملات میں یہ تقاضا شدید تر ہوتا ہے۔ ایسے میں زمینی حقیقت سے نظر چرانا کسی بھی درجے میں قابلِ قبول اور قابلِ ستائش رویہ نہیں ہوتا۔ جینے کا مزا اس بات میں ہے کہ انسان مایوس ہو نہ ہمت ہارے بلکہ ہر طرح کے حالات کا پامردی سے سامنا کرتے ہوئے خوشی خوشی زندگی بسر کرے۔ جو ہونا ہے وہ تو ہر حال میں ہونا ہے۔ تذبذب میں مبتلا رہنے کی صورت میں ہم بہت کچھ کھو بیٹھتے ہیں۔
ایڈیسن کا شمار عظیم ترین موجدوں میں ہوتا ہے۔ ایڈیسن نے بیسیوں چیزیں ایجاد کیں جن میں بلب اور گراموفون نمایاں ہیں۔ ایڈیسن نے زندگی بھر تگ و دو کی۔ وہ ہر وقت صرف کام کے بارے میں سوچتا رہتا تھا۔ اسے کام سے ہٹ کر کچھ بھی پسند نہ تھا۔ وہ صرف اس بات کو ترجیح دیتا تھا کہ کسی نہ کسی طور دنیا کو زیادہ سے زیادہ چیزیں اور سہولتیں دے کر رخصت ہو اور ایسا کرنے میں وہ نمایاں اور قابلِ رشک حد تک کامیاب بھی رہا۔ ایڈیسن نے زندگی بھر جو کچھ کیا اس کے بارے میں بتانے میں بھی کبھی بخل سے کام نہیں لیا۔ وہ جانتا تھا کہ عام آدمی زندگی بھر الجھا ہوا رہتا ہے اور اپنی صلاحیت و سکت کو ڈھنگ سے بروئے کار لانے میں کامیاب نہیں ہو پاتا۔ اس نے اس نکتے پر بہت زور دیا کہ انسان کو ہر وقت کام کرتے رہنا چاہیے۔ مایوسی انسان کو عمل سے دور کرتی ہے۔ بہت زیادہ سوچنے والے بھی کبھی کبھی الجھ کر رہ جاتے ہیں۔ ایسے میں دانش مندی اس میں ہے کہ انسان اپنے آپ کو سنبھالے اور عمل سے متصف رہے۔ یہ دنیا ان کے لیے ہے جو کچھ کرنے کے لیے تیار رہتے ہیں۔ ہر انسان کی زندگی عمل سے متصف ہوکر ہی کام کی ہو پاتی ہے۔ عمل پر وہ لوگ یقین رکھتے ہیں جو زندگی کا حق ادا کرنے پر یقین رکھتے ہیں یعنی مایوس نہیں ہوتے۔ مایوسی کا شکار ہوکر عمل ترک کرنے والوں کے لیے صرف ناکامی رہ جاتی ہے۔
کامیابی کی خاطر کچھ کرنے کا عزم رکھنے والوں کی سوچ کا مثبت رہنا بھی لازم ہے۔ اگر سوچ مثبت نہ ہو تو انسان الجھ کر رہ جاتا ہے۔ ایسے میں ذہن ڈھنگ سے کام نہیں کرتا۔ ڈھنگ سے کام کرنے کے لیے سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیت کا برقرار رہنا ناگزیر ہے۔ جب انسان مایوسی کا شکار ہو تو سوچنے اور سمجھنے کی صفت سے دور ہو جاتا ہے۔ یوں آپ مایوس ہو رہنے والوں کو ہمیشہ ناکام ہی پائیں گے۔ ہم ایک ایسی دنیا کا حصہ ہیں جس میں کامیابی صرف ان کے لیے ہے جو مایوس ہوئے بغیر اپنے حصے کا کام کیے جاتے ہیں۔ عمل کی دنیا میں وہی لوگ آگے بڑھنے کے اہل ثابت ہوتے ہیں جو اپنے آپ کو مایوسی کے گڑھے میں گرنے سے روک پاتے ہیں۔ عام آدمی کے لیے حالات مایوس کن ہوتے ہیں۔ ہر انسان کے لیے زندگی کے پاس بہت سی مشکلات ہیں۔ سبھی کو مشکلات سے حصہ ملتا ہے اور کمتر مالی حیثیت کے حامل افراد کو زیادہ مشکلات ملتی ہیں۔ ایسے میں اگر ہمت ہاری جائے اور مایوسی کو گلے لگا کر عمل کے وصف کو ترک کردیا جائے تو؟ بس‘ جی چکے۔
ماحول پر ایک اُچٹتی سی نظر ڈالیے تو اندازہ ہوگا کہ بیشتر نے مایوسی کو کسی نہ کسی شکل میں اپنا رکھا ہے۔ عام آدمی بات بات پر ہمت ہار بیٹھتا ہے‘ پھر تھوڑی سی ہمت جٹاکر کھڑا ہوتا ہے اور دوبارہ عمل پسندی کی طرف آتا ہے۔ ایسے لوگ خال خال ہیں جو ہر حال میں سوچ کو مثبت رکھتے ہوئے جیے جاتے ہیں اور بھرپور امید پسندی کے ساتھ عمل کی راہ پر گامزن رہتے ہیں۔ زندگی ہم سے جن بنیادی اوصاف کے پروان چڑھانے کا تقاضا کرتی ہے ان میں امید پسندی بھی نمایاں ہے۔ زندگی چاہتی ہے کہ ہم مایوسی سے دور رہیں۔ مجموعی طور پر ماحول کچھ ایسا ہے کہ ہم چند قدم چل کر ہمت ہارنے کی طرف متوجہ ہونے لگتے ہیں‘ مایوسی ہم پر غالب آنے لگتی ہے۔ پھر ہم کچھ ہمت کا مظاہرہ کرتے ہیں تاکہ عمل پسندی کا وصف ترک نہ ہو اور ہم اپنے حصے کا کام کرتے چلے جائیں۔ عام آدمی کو زندگی بھر حالات کے شدید دباؤ سے لڑنا پڑتا ہے۔ اگر غور کیجیے تو حالات کا شدید دباؤ ہمارے لیے زحمت ہی نہیں رحمت بھی ہے۔ ہم مشکل حالات میں ہی تو اپنے آپ کو بہترین عمل کے لیے تیار کر پاتے ہیں اور اپنے حصے کا کام زیادہ لگن اور ذوقِ عمل کے ساتھ کرتے ہیں۔
کسی بھی انسان کے لیے مایوسی کسی درجے میں کوئی قابلِ اعتبار و قابلِ فخر آپشن نہیں۔ اور یہ بہترین بہانہ بھی نہیں۔ کوئی عمل کو ترک کرکے محض یہ بہانہ پیش نہیں کر سکتا کہ مجھ پر مایوسی نے غلبہ پا لیا تھا۔ مایوسی کا تو کام ہی یہ ہے۔ وہ تو ہر حال میں انسان کو زیرِ دام لانے کے لیے بے تاب رہتی ہے۔ سوال مایوسی کے موجود ہونے کا نہیں بلکہ امید پسندی اور مثبت سوچ کے آپشن کو بروئے کار لانے کا ہے۔ یہ دنیا ان کے لیے ہے جو مایوسی سے لڑتے ہوئے جیتے ہیں۔ حالات کی خرابی ہر انسان پر اثر انداز ہونے کے لیے بے قرار رہتی ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہمت ہار دی جائے‘ تمام آپشنز لپیٹ کر رکھ دیے جائیں۔ زمانہ کسی کے لیے سازگار نہیں ہوتا۔ ہر زمانہ اپنے ساتھ بہت سے چیلنج لاتا ہے۔ ہر انسان کو اپنے حصے کے چیلنجوں کا سامنا کرنا ہی پڑتا ہے۔ کسی کو سب کچھ بنا بنایا‘ پکا پکایا نہیں ملتا۔ حد یہ ہے کہ جنہیں اپنے والدین اور دیگر بزرگوں سے ترکے میں بہت کچھ ملا ہو ان کے لیے بھی زندگی آسان نہیں ہوتی۔ مایوسی ان کے لیے بہترین آپشن نہیں ہوتی۔ ہمت ہارنے کی صورت میں وہ لوگ بھی تہی دست رہ جاتے ہیں جنہیں ترکے میں اتنا ملا ہو کہ سات نسلوں کے لیے کافی ہو۔ جب تک ہمت ہے تب تک کامیابی ہے‘ خوش حالی ہے۔ ہمت ہار گئے تو سمجھ لیجیے گئے کام سے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں