ہم بھی کیا یاد کریں گے کہ کس عہد میں جیے تھے۔ غالبؔ نے کہا تھا:
ہم بھی کیا یاد کریں گے کہ خدا رکھتے تھے
کچھ ایسا ہی معاملہ ہمارا بھی ہے۔ ہم بھی یاد ہی کیا کریں گے کہ ایک عہدِ ستم پرور میں جیے تھے۔ ایک بنیادی‘ حیرت انگیز اور تلخ حقیقت یہ ہے کہ بہت سے بلکہ بیشتر معاملات میں یہ عہد قدم قدم پر عہدِ ستم ثابت ہو رہا ہے۔ معاملات کی نوعیت بدلنے میں اس عہد کو کمال حاصل ہے۔ کون سا معاملہ ہے جو کچھ کا کچھ نہیں ہوگیا؟ کل تک جو زندگی تھی‘ وہ اب ڈھونڈے سے نہیں ملتی۔ زندگی کا ایک پورا ڈھانچا ہی گم ہوکر رہ گیا ہے اور کسی میں یہ بتانے کی سکت بھی نہیں کہ وہ ہے کہاں۔ تمام ہی اقدار بدل گئی ہیں۔ جھوٹ نے سچ کو دیس نکالا دے دیا ہے‘ مسابقت اور ہوس نے شائستگی اور انسان دوستی کو تڑی پار کردیا ہے۔ ہم سب بدل گئے ہیں مگر معاملہ یہ ہے کہ ہمیں خود بھی احساس نہیں ہو پاتا کہ ہم کتنے بدل گئے ہیں۔ زندگی بسر کرنے کی ہر طرز قیامت ڈھانے پر تُلی ہوئی ہے۔ کوئی سوچنے بیٹھے تو ذہن کام کرنے سے انکار کر دیتا ہے۔ بہت سوں کا یہ حال ہے کہ ہر وقت دنیا کو بدلنے کے بارے میں سوچتے رہتے ہیں! معاملہ یہ ہے کہ دنیا کو محض سمجھ پانا بھی ممکن نہیں۔ ایسے میں بدلنے کے بارے میں سوچنے والوں کو تو احمق ہی گردانا جائے گا۔
آج کا ہر انسان ستم گر بھی ہے اور ستم رسیدہ بھی۔ ستم گر یوں ہے کہ وہ جو کچھ بھی غلط کر رہا ہے اُس کی زد میں بہت سے لوگ آرہے ہیں۔ بہت سے معاملات میں تو انسان کو اندازہ بھی نہیں ہو پاتا کہ وہ کس کے ساتھ کیا غلط کر گیا ہے۔ یہ سب کچھ غیر محسوس طور پر ہوتا ہے۔ اسی طور دوسروں کا کیا ہوا بہت کچھ انسان کو بھگتنا پڑتا ہے۔ اس معاملے میں بھی وہ محض ہدف بنا رہتا ہے‘ کچھ کر نہیں پاتا۔ کبھی معاملات اچانک نافع ہو جاتے ہیں اور کبھی بیٹھے بٹھائے اچھا خاصا نقصان واقع ہو رہتا ہے۔ یہ سب کچھ اس طرح ہوتا ہے کہ بس دیکھتے ہی بنتی ہے۔
اب ایک اہم سوال یہ ہے کہ فی زمانہ سب سے زیادہ ستم کس پر ہو رہا ہے۔ کون ہے جس کے معاملات مکمل طور پر ناموافق صورتحال کی نذر ہو کر رہ گئے ہیں؟ بہت غور کرنے کی ضرورت نہیں۔ معاملات ہماری آنکھوں کے سامنے اور واضح ہیں۔ ویسے تو آج ہر عمر اور ہر طبقے کا انسان کسی نہ کسی حوالے سے ستم رسیدہ ہے تاہم سب سے زیادہ نقصان کا سامنا بچوں کو ہے۔ عمر کے ہر درجے اور مرحلے سے تعلق رکھنے والے انسان کو شدید ذہنی الجھنوں کا سامنا ہے تاہم بچوں کا معاملہ انتہائی پیچیدہ ہے۔ اوروں کے ساتھ جو ہوا ہے سو ہوا ہے‘ بچوں کی تو معصومیت ہی کا قتل ہو گیا ہے! اور ستم ظریفی یہ ہے کہ یہ ستم اُنہی کے ہاتھوں ہوا ہے جو بچوں سے محبت کا دعوٰی کرتے نہیں تھکتے۔
معصومیت کا قتل؟ جی ہاں‘ معصومیت کا قتل جس کے نتیجے میں بچے اپنی عمر کی حقیقی لذت سے یکسر محروم ہو چکے ہیں۔ اللہ نے ہر انسان کے لیے عمر کے مختلف مراحل سے متعلق معاملات رکھے ہیں۔ جب جب جو کچھ ہونا چاہیے تب تب اگر وہ سب نہ ہو تو سمجھ لیجیے معاملات رُل گئے ہیں۔ ویسے تو ہر انسان ہی کے لیے اس اعتبار سے ذہنی اُلجھن پائی جاتی ہے کہ اُسے بہت کچھ مانگے بغیر مل رہا ہے اور ذہن کو اُلجھا رہا ہے مگر بچوں کے معاملے میں یہ سب کچھ انتہائی خطرناک انداز سے رونما ہو رہا ہے۔ اُن سے بچپن چھین لیا گیا ہے۔ ہم محض دنیا کو بُرا بھلا کہہ کر یا مورد الزام ٹھہرا کر اپنی ذمہ داری سے سبکدوش نہیں ہو سکتے۔ معصومیت کا قتل ہم سب کے ہاتھوں واقع ہوا ہے۔
بچے ہر معاملے میں ہم سے خصوصی توجہ چاہتے ہیں۔ وہ بیشتر معاملات میں اپنے طور پر کچھ نہیں کر سکتے۔ اُنہیں ہم سے مدد بھی درکار ہوتی ہے اور شفقت بھری توجہ بھی۔ ہم اُن کی مدد کرنے کے نام پر ایسا بہت کچھ کر رہے ہیں جو اُن پر ستم ڈھانے جیسا ہے۔ بچوں کو جو کچھ بھی چاہیے وہ اُن کی عمر کی مناسبت سے ہونا چاہیے۔ ہم جو کچھ کر رہے ہیں وہ اُنہیں وقت سے پہلے بڑا کر رہا ہے۔ ایسے میں معصومیت کو تو داؤ پر لگنا ہی ہے۔
آج کی دنیا بہت تیز ہے۔ ہر معاملے میں تیزی نمایاں ہے۔ کم و بیش تمام ہی شعبوں میں پیش رفت کی رفتار اتنی زیادہ ہے کہ انسان سمجھ نہیں پاتا کہ اُس سے اپنے آپ کو ہم آہنگ کرے تو کیسے کرے۔ دنیا کو سمجھنے کی کوشش ذہن کو مزید الجھارہی ہے۔ ہم بیشتر معاملات میں اپنے لیے بھی بے بسی محسوس کرتے ہیں۔ ایسے میں بچوں کے معاملات کا بگڑنا تو فطری ہے۔ بچے ہر معاملے میں ہم سے معقول توجہ چاہتے ہیں۔ اُنہیں کچھ بھی وقت سے پہلے یا بعد میں نہیں ملنا چاہیے۔ آج معاملہ یہ ہے کہ محض ایک سے ڈیڑھ سال کا بچہ سمارٹ فون چلانے کے قابل ہو جاتا ہے۔ اس کے نتیجے میں اُس کا ذہن الجھنے لگتا ہے۔ زمانے کی تیزی سے ہم آہنگ رہنے والے بچے ہمیں بہت ذہین معلوم ہوتے ہیں۔ یہ ذہانت نہیں صرف بیدار مغزی ہے یعنی بچوں میں بیداری زیادہ ہے۔ وہ ماحول کو زیادہ تیزی سے دیکھنے لگے ہیں۔ یہ تیزی اُن کے ذہن پر شدید منفی اثرات مرتب کر رہی ہے۔ اس تیزی کے نتیجے میں وہ دنیا کو تیزی سے سمجھنے کے قابل نہیں ہو پا رہے بلکہ اُن کے ذہن الجھ کر رہ گئے ہیں۔ کوئی اس تیزی کو ذہانت سے تعبیر نہ کرے۔ یہ تیزی ہے‘ ذہانت نہیں۔
بچوں کو بہتر زندگی کے لیے تیار کرنا ہمارا کام ہے۔ ہم یہ کام ڈھنگ سے نہیں کر پا رہے۔ بچوں کی ضرورتوں کو سمجھنے کے لیے محض توجہ نہیں بلکہ تربیت بھی درکار ہوتی ہے۔ بچوں کے حوالے سے پڑھنا بھی پڑتا ہے تاکہ اُن کے ذہن سمجھنے میں کامیابی حاصل ہو۔ ہمارا معاملہ یہ ہے کہ بالکل سرسری نوعیت کے کام کرکے یہ سمجھ بیٹھتے ہیں کہ ہم نے اپنا کردار ادا کردیا۔ اب اسی بات کو لیجیے کہ بچوں پر متوجہ ہونے سے بچنے کے لیے ہم اُنہیں مختلف چیزوں سے بہلانا شروع کردیتے ہیں۔ چند برس پہلے تک یہ کام ٹی وی سکرین کیا کرتی تھی۔ کارٹون کے چینل لگاکر مائیں بے فکر ہو جایا کرتی تھیں کہ اب بچے کچھ دیر چپ رہیں گے۔ اب یہ کام سمارٹ فون سے لیا جارہا ہے۔ بچے سمارٹ فون اور ٹیبلیٹ کی سکرین کے عادی ہوتے جا رہے ہیں۔ جو چیز انہیں تین سے پانچ سال کی عمر میں ملنی چاہئیں وہ ہم محض ایک سال کی عمر میں اُن کے حوالے کردیتے ہیں۔ اور سچ تو یہ ہے کہ ہم بچوں کو اُن چیزوں کے حوالے کرکے اُن کی ذہنی نشو و نما کی راہ میں دیواریں کھڑی کرتے ہیں۔
شہروں کا ماحول یہ ہوگیا ہے کہ بچے تاریک کمروں میں سمارٹ فون اور ٹیبلیٹ کی سکرین سے چمٹے رہتے ہیں۔ کارٹون اور دیگر مواد اُن کا دل بہلاتا ہے اور ذہن کو الجھاتا ہے۔ والدین یہ سمجھتے ہیں کہ سمارٹ فون کی سکرین بچوں میں ذہانت کی سطح بلند کر رہی ہے۔ معاملہ اس کے برعکس ہے۔ وہ اندر ہی اندر الجھتے جاتے ہیں۔ اُن کی طبعیت جھگڑالو ہو جاتی ہے۔ وہ چونکہ وقت سے پہلے بہت کچھ جان لیتے ہیں اس لیے اُن میں اپنی عمر کی مناسبت سے ذہنی نشو و نما کی گنجائش نہیں رہتی۔ بچوں کے ذہن کا وقت سے پہلے پھیل جانا‘ مزاج میں پختگی کا آجانا انتہائی خطرناک ہوتا ہے۔
شہری زندگی نے والدین کو بہت سے معاملات میں خوفزدہ کر دیا ہے۔ بچوں کو فطرت سے دور رکھا جا رہا ہے۔ مٹی میں کھیلنے کو معیوب سمجھا جانے لگا ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ بچے جب مٹی میں کھیلتے ہیں تو اُن میں بیماریوں سے لڑنے کی صلاحیت بڑھتی ہے۔ بچوں کو باقاعدگی سے باغ میں لے جانا لازم ہے تاکہ وہ پھولوں اور تتلیوں سے محظوظ ہو سکیں اور تازہ ہوا بھی میسر ہو۔ باغ کی سیر بچوں کے ذہن میں حقیقی وسعت اور فطری ماحول سے محبت پیدا کرتی ہے۔ اُنہیں بند اور تاریک کمروں میں سمارٹ فون یا ٹی وی کی سکرین کے حوالے کرنے کے بجائے ماحول کا حصہ بنانا چاہیے تاکہ عملی زندگی کے حوالے سے اُن کی فطری راہ نمائی ہو۔ معصومیت کا قتل روکنے کی یہی معقول ترین صورت ہے۔