ہمارے ہاں تو منتخب حکومتیں بھی بے دست و پا دکھائی دیتی رہی ہیں‘ ایسے میں کوئی کیسے تصور کرلے کہ نگراں یعنی عبوری حکومت کچھ کر پائے گی؟ نگران حکومت کا بنیادی مینڈیٹ صرف اِتنا ہوتا ہے کہ انتخابات وقت پر کروادے اور باقی تمام معاملات آنے والی یعنی منتخب حکومت پر چھوڑ دے۔ عوام نے کسی بھی نگران حکومت سے کبھی کوئی توقع وابستہ نہیں کی۔ سبھی جانتے ہیں کہ نگران حکومتوں کے بس میں کچھ بھی نہیں ہوتا۔
بجلی کی بلنگ کے حوالے سے احتجاج نے ملک گیر تحریک کی شکل اختیار کرلی ہے۔ بعض حلقے اس احتجاج کو شک کی نظر سے دیکھ رہے ہیں۔ یہ گمان کیا جارہا ہے کہ شاید وہ لوگ اس احتجاجی تحریک کی پشت پر ہیں جو حالات کی ایسی خرابی چاہتے ہیں جس سے انتخابات کا انعقاد ممکن نہ رہے۔ یہ گمان کچھ ایسا بے بنیاد بھی نہیں۔ ہمارے ہاں ہر طرح کے حالات سے فائدہ اٹھانے کی ذہنیت کارفرما رہی ہے۔ بہرکیف‘ عمومی مہنگائی کے ساتھ ساتھ بجلی اور پٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں متواتر اضافے کے خلاف لوگ شدید مشتعل ہیں۔ ایسے ماحول سے فائدہ اٹھانے والوں کی کمی نہیں۔ مہنگائی کے خلاف تحریک چلانے والوں کو اس حوالے سے محتاط رہنا چاہیے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ کوئی اُن سے کھیلے اور اُنہیں اندازہ بھی نہ ہو پائے۔
اِس وقت عوام کسی بھی چیز سے کہیں بڑھ کر بجلی کے بلوں میں ریلیف چاہتے ہیں۔ بڑی رقم کے بل کے کو تین چار اقساط میں ادا کرنا رعایت ہے یا نہ ریلیف۔ ریلیف کا مطلب ہے نرخ کم کرنا تاکہ بل زیادہ نہ آئے۔ اِس کی کوئی گنجائش دکھائی نہیں دے رہی۔ اور سچ تو یہ ہے کہ بجلی کے بل اقساط میں ادا کرنے جیسا معمولی ریلیف (اگر ہم اِسے ریلیف کہہ سکیں تو!) دینا بھی نگران حکومت کے بس کی بات نہیں۔ عوام کو خوب اندازہ ہوچکا ہے کہ نگران تو نگران‘ منتخب حکومت بھی اس حوالے سے کچھ زیادہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں کیونکہ بہت اوپر کی سطح پر معاملات جتنے بگڑے ہوئے ہیں اُتنے بگڑے ہوئے ہمیں دکھائی نہیں دے رہے۔ بجلی کی بلنگ پر آئی ایم ایف کی طرف سے آنے والے ردِعمل نے ثابت کردیا ہے کہ نگران ہوں یا باضابطہ منتخب‘ ہمارے حکمران یکسر بے دست و پا ہیں۔ آئی ایم ایف کی کڑی شرائط کی بیڑیاں پاؤں میں ایسی پڑی ہیں کہ دو قدم ڈھنگ سے چلنا بھی ممکن نہیں۔ یہ کوئی انوکھی بات نہیں۔ اگر منتخب حکومت ہوتی تب بھی ایسا ہی ہونا تھا۔ عالمی مالیاتی ادارے چونکہ استعماری قوتوں کے آلۂ کار کے طور پر کام کرتے ہیں اِس لیے اُن سے یہ توقع وابستہ کی ہی نہیں جاسکتی کہ کبھی کسی پس ماندہ ملک کے عوام کو حقیقی ریلیف دینے میں سنجیدگی کا مظاہرہ کریں گے۔ ایسے عالمی مالیاتی اداروں کا بنیادی مینڈیٹ ہی یہ ہوتا ہے کہ حالات کی چکی میں پِستے ہوئے ممالک کو مزید پیسیں، اُنہیں ڈھنگ سے سانس لینے کے قابل بھی نہ چھوڑیں۔
نگران حکومت کا اصل مینڈیٹ تو انتخابات کا بروقت، شفاف اور غیر جانبدارانہ انعقاد ہے مگر محسوس ہوتا ہے کہ وہ اس کوشش میں ہے کہ ساتھ ہی ساتھ چند ایک ایسے کام بھی کر جائے کہ لوگ اسے یاد رکھیں۔ لوگ مہنگائی کی چکی میں پِس رہے ہیں۔ نگران وزیر اعظم اور اُن کی کابینہ کے ارکان کی خواہش ہے کہ عوام کو مہنگائی کے حوالے سے تھوڑا بہت ریلیف دیا جائے تاکہ اُن کی اشک شُوئی ہو، کچھ ڈھارس بندھے۔ اگر یہ کام ہوسکا تو لوگ نگران حکومت سے وابستہ شخصیات کو دیر تک یاد رکھیں گے مگر یہ کام ہو تو کیسے ہو؟ آئی ایم ایف نے واضح کردیا ہے کہ وہ عوام کے لیے بجلی کے بلوں میں ریلیف دینے کو تیار نہیں۔ نگران حکومت نے بجلی کے بلوں میں ریلیف کا پلان تیار کرکے آئی ایم ایف حکام کے سامنے رکھا اور بتایا کہ اِس سے کم و بیش 6 ارب روپے کا فرق پڑے گا۔ وزارتِ خزانہ کے حکام نے بتایا کہ آئی ایم ایف نے کہا ہے کہ فرق کم و بیش 15 ارب روپے کا واقع ہو رہا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ عالمی مالیاتی ادارے نے حکومت سے ایک اور پلان بھی طلب کیا ہے جس سے یہ واضح ہوتا ہو کہ اِتنی مالیاتی گنجائش کیونکر پیدا کی جاسکے گی۔ وزارتِ خزانہ کے حکام کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف سے دوبارہ بات کی جائے گی اور نیا پلان اُس کے سامنے رکھا جائے گا۔ حکام یہ بھی کہتے ہیں کہ آئی ایم ایف سے بجلی کے بل چار اقساط میں وصول کرنے کے حوالے سے بھی ہوگی۔ گویا یہ بھی ''ریلیف‘‘ ہے! اور ستم ظریفی یہ ہے کہ آئی ایم ایف اِس کے لیے بھی تیار نہیں۔ بے دست و پا ہونے کا یہ عالم دیکھا نہ جائے!
آئی ایم ایف کی شرائط کے نتیجے میں ملنے والا نام نہاد بیل آؤٹ پیکیج تو ایسا ہے جیسے کسی باکسر کو ہاتھ پاؤں باندھ کر رِنگ میں پھینکا جائے کہ اب لڑ کر دکھائو! عوام کو ریلیف دینے کے حوالے سے نگران حکومت کے پاس کرنے کو بہت کچھ ہے مگر مصیبت یہ ہے کہ اُس کے پاس سیاسی عزم ہے نہ مینڈیٹ۔ تان گھوم پھر کر بجلی کی چوری روکنے پر ٹوٹی ہے۔ نگران وزیر اعظم انوارالحق کاکڑ نے ہدایت کی ہے کہ ملک بھر میں بجلی کی چوری روکنے کے لیے سخت تر اقدامات کیے جائیں۔ بجلی کی چوری ملک گیر وبا ہے۔ اِس روش پر گامزن رہنے والوں نے اپنے لیے گنجائش نکالنے کا بھرپور اہتمام کر رکھا ہے۔ بجلی ایسے ایسے طریقوں سے چُرائی جارہی ہے کہ متعلقہ ادارے کچھ زیادہ کر نہیں پاتے۔ پھر ایک بڑا مسئلہ عوام کے مشتعل ہو جانے کا بھی ہے۔ غیر قانونی کنکشن کاٹنے اور قانونی کنکشن کے ذریعے بجلی کی چوری روکنے کے لیے متعلقہ اداروں کا عملہ جب کارروائی کرنے لگتا ہے تو لوگ تشدد پر اُتر آتے ہیں۔ کراچی میں بجلی کے عملے کو تشدد کا نشانہ بنانے کے متعدد واقعات رونما ہوئے ہیں۔
بجلی کی چوری روکنے کے اقدامات کی پشت پر نیک نیتی کارفرما ہوسکتی ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ سب کچھ سطحی معلوم ہوتا ہے کیونکہ بجلی کی چوری روکنا تو بہت دور کا معاملہ رہا، نادہندگان سے وصولی بھی نہیں ہو پارہی۔ گھروں، کارخانوں اور دکانوں پر لاکھوں روپے کے بل بھی چڑھے ہوئے ہیں مگر وصولی کی صورت دکھائی نہیں دیتی۔ ماضی میں اربابِ اختیار کراچی آکر کاروباری برادری کو تسلیاں دیا کرتے تھے۔ اب بھی ایسا ہی ہو رہا ہے۔ کاروباری طبقہ اہلِ سیاست کی بات سُننے اور ماننے کو تیار دکھائی نہیں دیتا۔ اُن کی یقین دہانیوں پر دِل ٹُھکتا نہیں۔ گزشتہ دنوں آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر نے کاروباری برادری کی سرکردہ شخصیات سے بات چیت کی‘ اُنہیں تسلی دی۔ اِس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ حکومتی سیٹ اَپ منتخب ہو یا غیر منتخب (یعنی عارضی)‘ لوگ اہلِ سیاست کی بات پر بھروسا کرنے سے کترا رہے ہیں۔ ایسے میں نگران حکومت کے پاس کرنے کو کچھ زیادہ نہیں۔ کاروباری برادری بجلی جیسی بنیادی چیز کے بغیر کام نہیں کرسکتی۔ پانی بھی اُسے خریدنا پڑتا ہے مگر وہ معاملہ تو جیسے تیسے چل جاتا ہے۔ بجلی خود بنانا بہت مہنگا پڑتا ہے۔ کاروباری شخصیات تحفظات دور کرنے کے لیے عسکری قیادت سے بات کرنے پر مجبور ہیں۔ بجلی چوری کی روک تھام ہو یا نادہندگان سے وصولی‘ یہ سارے کام سِول انتظامیہ کو کرنے ہیں۔ یہی اُس کا مینڈیٹ ہے۔ حکومت نے اپنا کام کاج چلتا رکھنے کے لیے بجلی کے بلوں اور پٹرولیم مصنوعات کے نرخوں کے ذریعے ٹیکسوں کی وصولی کی جو روش اپنائی ہے وہ کسی بھی اعتبار سے مثالی نہیں، قابلِ رشک نہیں۔ یہ تو عوام کا خون نچوڑنے کا معاملہ ہوا۔
کراچی سمیت ملک بھر میں بجلی کے بلوں کے ذریعے ٹیکسوں اور سرکاری فیسوں کی وصولی روکی جانی چاہیے۔ عوام کو ایک خاص حد تک ہی نچوڑا جاسکتا ہے۔ اُنہیں ڈھنگ سے سانس لینے کے قابل تو رہنے دیا جائے۔ وہ زندہ رہیں گے تو مزید کچھ دینے اور نچوڑے جانے کے قابل بھی ہو پائیں گے۔ سونے کے انڈے دینے والی مرغی کا پیٹ چاک کر کے سارے انڈے ایک ساتھ نکالنے کی کوشش کو حماقت ہی کہا جائے گا۔ مرغی جان سے جائے گی تو ہاتھ کچھ نہ آئے گا۔ آئی ایم ایف جیسے اداروں سے کوئی توقع رکھنے کے بجائے اب متبادل کی طرف جانا چاہیے۔ ہمارے حکمران طبقے کے لیے غلامی کا طوق اتار پھینکنے کا وقت آچکا ہے۔ ناگزیر ہے کہ عوام کو مزید نچوڑنے کے بجائے سمارٹ بجٹنگ کی جائے اور بیرونی مالیات کے معاملے میں تنوع پیدا کیا جائے۔