تحقیق کا میدان وسیع سے وسیع تر ہوتا جارہا ہے۔ فی زمانہ ہر معاملے میں تحقیق کا بازار گرم ہے۔ جن موضوعات کے بارے میں کبھی کوئی سنجیدگی سے سوچنا بھی گوارا نہ کرتا تھا اُن کے حوالے سے یوں دادِ تحقیق دی جارہی ہے کہ دیکھتے ہی بنتی ہے۔ اب کوئی ایک بھی شعبہ تحقیق کی ''دست بُرد‘‘ سے محفوظ نہیں رہا۔ اب تو اس امر پر بھی تحقیق ہو رہی ہے کہ اور کن کن باتوں پر دادِ تحقیق دی جاسکتی ہے یعنی تحقیق کے لیے موضوع تلاش کرنا بجائے خود تحقیق ہے! اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ حکومتیں اور غیر سرکاری تنظیمیں تحقیق کی خاطر بڑے پیمانے پر فنڈنگ بھی کرتی ہیں۔ اس فنڈنگ کا حصول یقینی بنانے کے لیے انٹ شنٹ موضوعات پر بھی تحقیق کرنا پڑ رہی ہے۔
جو حال تحقیق کا ہے کچھ ویسا ہی حال معاشی سرگرمیوں کا بھی ہے۔ جہاں تحقیق کی گنجائش نہ ہو وہاں تحقیق کی گنجائش پیدا کرنا متعلقہ ماہرین کی صلاحیتوں کا امتحان ہے۔ بالکل اِسی طور بے روزگاری سے اَٹے ہوئے معاشروں میں کام ڈھونڈنا بھی ایک کام ہے! پاکستان جیسے معاشروں میں بہت سے لوگ بظاہر بے کار ہیں مگر وہ ایسے بے کار بھی نہیں کیونکہ کام تو وہ ڈھونڈتے ہی رہتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جو بے کار ہیں وہ محض پریشان ہیں مگر جو کام پر لگے ہوئے ہیں وہ زیادہ پریشان ہیں۔ سبب اس کا یہ ہے کہ کام اب عفریت کی شکل اختیار کرتا جارہا ہے۔ معاشی معاملات کی نوعیت ایسی پیچیدہ ہے کہ کل تو محض گزارے کی سطح پر بھی جیا جاسکتا تھا مگر اب ایسا ممکن ہی نہیں۔ یہ گھر گھر کی کہانی ہے کہ زیادہ سے زیادہ مال و زر چاہیے۔ زیادہ سے زیادہ حصولِ زر کی خواہش کو عملی جامہ پہنانے کے عمل میں ذہن اِس قدر الجھے ہوئے ہیں کہ اُنہیں سلجھانے کی کوشش کرنے والے بھی راستے میں گم ہو جاتے ہیں۔ معاشی سرگرمیاں انسان کی ذہنی ساخت میں گوندھ دی گئی ہیں۔ ہر انسان کو ڈھنگ سے جینے کے لیے کچھ نہ کچھ کرنا ہی پڑتا ہے۔ عام آدمی کے ذہن میں یہ بے بنیاد تصور بھی پایا جاتا ہے کہ اُسے تو محض گزارے کی سطح پر بھی زندہ رہنے کے لیے بہت کچھ کرنا پڑتا ہے مگر انتہائی مال دار طبقہ ہاتھ پیر ہلائے بغیر بہت کچھ حاصل کرنے میں کامیاب رہتا ہے اور یہ کہ اُس کی زندگی میں بظاہر کوئی الجھن ہے ہی نہیں۔ ایسا نہیں ہے! پریشانیاں سب کے لیے ہیں۔ مسائل سب کے حصے میں آئے ہیں۔ اور حق تو یہ ہے کہ جس کی جیسی مالی حیثیت ہوتی ہے اُس کے لیے ویسے ہی دکھ ہوتے ہیں۔ کوئی بھی غریب اس گمان میں مبتلا نہ رہے کہ امیروں کے لیے کوئی مصیبت نہیں ہوتی۔ اُن کی مصیبتیں الگ نوعیت کی ہوتی ہیں اور اُتنی ہی پریشان کن ہوتی ہیں جتنی غریبوں کی مصیبتیں ہوتی ہیں۔ یہ حقیقت بھی ذہن نشین رہنی چاہیے کہ کمتر مالی حیثیت کے لوگ بعض معاملات میں زیادہ پُرسکون ہوتے ہیں کیونکہ اُنہیں پہنچنے والا مالی نقصان محدود نوعیت کا ہوتا ہے۔ بڑوں کو جب نقصان پہنچتا ہے تو وہ بھی اِتنا بڑا ہوتا ہے کہ دل و دماغ میں ہلچل مچادیتا ہے۔
بہر کیف‘ ایک بڑا سوال یہ ہے کہ انسان کام کے معاملے میں کیسی طرزِ فکر و عمل اختیار کرے کہ زندگی میں زیادہ سے زیادہ توازن اور آسودگی پیدا ہو۔ فی زمانہ مالی مشکلات سے گھرے ہوئے عام آدمی کے لیے ڈھنگ سے جینا جُوئے شیر لانے کے مترادف ہوگیا ہے۔ ترقی یافتہ معاشروں میں بھی عام آدمی کے لیے زندگی کچھ زیادہ آسان نہیں۔ بنیادی سہولتیں میسر ہیں۔ کام کے سلسلے میں یومیہ سفر بھی کچھ دشوار نہیں مگر زندگی صرف اِن بنیادی معاملات کی آسانی سے تو آسان نہیں بنائی جاسکتی۔ انسان کو زندگی کا معیار بلند کرنے کے لیے بہت کچھ درکار ہوتا ہے۔ ترقی یافتہ معاشرے کے عوام بھی اعلیٰ معیار کی زندگی بسر کرنے کے لیے بہت کچھ کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ اُنہیں بھی سب کچھ پلیٹ رکھ کر پیش نہیں کردیا جاتا۔ وہاں لوگ ہفتے میں پانچ دن کام کرتے ہیں مگر ان پانچ دنوں میں اُنہیں سات دنوں کے حساب سے نچوڑا جاتا ہے۔ دل کو اگر کچھ سکون ملتا ہے تو بس اس بات سے کہ بنیادی ضروری اشیا و خدمات کا حصول دشوار نہیں اور کام کے لیے یومیہ سفر بھی تھکا دینے والا اور جیب خالی کردینے والا نہیں۔ پاکستان جیسے معاشروں کا المیہ یہ ہے کہ انتہائی باصلاحیت اور ہنرمند افراد کی عمر کا بڑا حصہ بنیادی سہولتوں کا حصول یقینی بنانے پر صرف ہو جاتا ہے۔ انسان پانی، بجلی اور گیس جیسی انتہائی بنیادی چیزوں کا اہتمام کرنے کی تگ و دَو سے نجات پائے تو کچھ کرنے کے قابل ہو سکے۔ کام کرنا انسان کے لیے لوازم میں سے ہے۔ دل چاہے یا نہ چاہے، کوئی نہ کوئی کام تو کرنا ہی پڑتا ہے کیونکہ فارغ بیٹھے رہنے سے دل و دماغ کی حالت بگڑتی جاتی ہے۔ اگر کسی کو باپ دادا کی طرف سے ترکے میں اچھی خاصی دولت ملی ہو تب بھی کچھ نہ کچھ تو کرنا ہی پڑتا ہے تاکہ مصروفیت رہے اور ذہن فضول باتوں کا گودام بن کر نہ رہ جائے۔ جو کچھ ہماری زندگی میں لکھ دیا گیا ہے وہ اگر معیاری، دلکش اور راحت بخش ہو تو؟ ایسی حالت میں تو ہمیں دنیا ہی میں جنت کا تھوڑا بہت جلوہ دیکھنے کو مل سکتا ہے۔
ترقی یافتہ معاشروں میں شعوری کوشش کے ذریعے کام کو زیادہ سے زیادہ پُرلطف بنانے پر توجہ دی گئی ہے تاکہ لوگ معاشی سرگرمیوں کو بوجھ سمجھنے کے بجائے اپنی صلاحیت و سکت کے مؤثر اظہار کا ذریعہ سمجھیں اور معاشرے کے لیے جو کچھ بھی کرسکتے ہیں ضرور کریں۔ مغرب کے ترقی یافتہ معاشروں میں کام کا ماحول اس قدر پُرلطف اور آرام دہ ہوتا ہے کہ بہت سے لوگ چھٹی کا دن گزرنے پر دفتر یا فیکٹری پہنچنے کی غیر معمولی لگن اور تڑپ محسوس کرتے ہیں۔ اِس میں کوئی شک نہیں کہ مغربی دنیا میں کام کا معیار بہت بلند ہے یعنی انسان کو بہت محنت کرنا پڑتی ہے اور وقت کی پابندی بھی قیامت خیز ہے؛ تاہم جب انسان کو اپنے کام میں اور کام کے مجموعی ماحول میں لُطف محسوس ہونے لگے تو کام کرنے میں جی بھی لگتا ہے اور نتائج سے دل و دماغ کی تشفّی بھی ہوتی ہے۔ کسی بھی انسان کے لیے اِس سے اچھی بات کیا ہوسکتی ہے کہ وہ گھر کا چولھا جلتا رکھنے کے لیے جو کام کرنے پر مجبور ہو اُس سے لُطف بھی کشید کرنے کا موقع پائے۔ دنیا بھر میں حکومتیں اِس امر کے لیے کوشاں رہتی ہیں کہ لوگوں کو کام کے ماحول میں زیادہ سے زیادہ لطف محسوس ہو تاکہ وہ اپنا کام مستقل مزاجی، مہارت اور لگن کے ساتھ اِس طور کریں کہ آجر بھی مطمئن ہو اور خود اجیروں کو بھی یہ محسوس ہو کہ اُنہوں نے کچھ کیا ہے۔
پس ماندہ معاشروں کا ایک بنیادی المیہ یہ ہے کہ کام بوجھ بن کر رہ گیا ہے۔ لوگ زندگی بھر کام کرتے ہیں مگر اُس سے خوش نہیں ہوتے۔ جس کام کو بے دِلی سے کیا جائے اُس سے اچھے نتائج کیونکر برآمد کیے جاسکتے ہیں؟ آجروں کو بھی اس بات کی پروا نہیں کہ کام کے ماحول کو بہتر بنانے سے اجیروں کی کارکردگی کا گراف بلند ہوتا ہے اور وہ زیادہ دلجمعی سے زیادہ اور زیادہ بارآور کام کرتے ہیں۔ آج ہمارے ہاں کام کے ماحول میں بوجھل پن ہے۔ آجر معقول سہولتیں فراہم کرنے سے مجتنب ہیں اور اجیر بھی جیسے تیسے اپنے اپنے حصے کے کام کو محض دھکا مارتے ہیں۔ ایسی حالت میں کسی بھی ادارے کے پنپنے کے امکانات خاصے محدود ہوتے ہیں۔ جب انفرادی نوعیت کے اداروں کی کارکردگی بہتر نہیں ہوگی تو معیشت کیونکر پروان چڑھے گی؟ آج کے پاکستان میں لوگ اپنا اپنا معاشی کردار مجموعی طور پر خاصی بے دِلی سے ادا کر رہے ہیں۔ کام سے محبت تقریباً ناپید ہے۔ لوگ جیسے تیسے گاڑی کو آگے دھکیل رہے ہیں اور بس۔
کام کے حوالے سے سوچ کا بدلا جانا لازم ہوچکا ہے۔ نفسی علوم کے ماہرین کہتے ہیں کہ انسان اچھی معاشی کارکردگی کا مظاہرہ اُسی وقت کرسکتا ہے جب وہ اپنے کام سے محبت کرتا ہو، اُسے بوجھ یا عفریت نہ سمجھتا ہو۔ ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ شدید بے دِلی کے ساتھ کام کرتے رہنے کے باعث کام اب عفریت کی شکل اختیار کرتا جارہا ہے۔ اِس حوالے سے آجر اور اجیر‘ دونوں ہی دنیا بھر کے معاملات کا جائزہ لے کر اپنی سوچ بدلیں تو شاید کچھ ہو پائے۔