اس بار میرا ارادہ کسی اور موضوع پر کالم لکھنے کا تھا۔ جیسے لاہور لٹریری فیسٹیول، یا پھر اسی طرح کے ادبی اور ثقافتی جشن۔ لیکن وزیر اعظم عمران خاں نے ہندوستانی پائلٹ کو واپس ہندوستان بھیجنے کا فیصلہ کیا‘ اور میرا ارادہ بدل گیا۔ ایسے معقول اور مستحسن اقدام کے بعد کسی اور موضوع پر کچھ لکھنے کا کوئی جواز ہی نہیں تھا۔ ثابت ہوا کہ پاکستان کشیدگی بڑھانا نہیں چاہتا۔ وہ اس خطے میں امن و امان برقرار رکھنا چاہتا ہے۔ ادھر پاکستان کے اس اقدام کا ہندوستان کے سمجھ دار اور دانش مند حلقوں کی طرف سے جو خیر مقدم کیا گیا ہے‘ اس نے یہ بھی ثابت کر دیا ہے کہ ہندوستان میں بھی صرف تنگ نظر اور جنگجو عناصر ہی نہیں بستے بلکہ امن پسند لوگ بھی بستے ہیں۔ اور یہ لوگ بات چیت کے ذریعے مسائل کا حل چاہتے ہیں۔ پلوامہ کے واقعے کے بعد ہندوستان کے ٹی وی چینلز پر جو زبانی مار دھاڑ شروع ہوئی تھی‘ اس سے ہم یہ سمجھ بیٹھے تھے کہ پورا ہندوستان ہی پاکستان کے خلاف اٹھ کھڑا ہوا ہے۔ لیکن اب ہمارے ٹی وی چینلز پر ہندوستان کے جن صحافیوں اور مصنفوں کے تبصرے اور تجزیے نشر کیے جا رہے ہیں‘ انہوں نے شکوک و شبہات میں مبتلا ہمارے تجزیہ اور تبصرہ کرنے والے دانش مندوں کو بھی یقین دلا دیا ہے کہ ہندوستان میں بھی متحمل مزاج اور معتدل رائے رکھنے والے عناصر موجود ہیں۔ اب رہی پاکستان کی بات، تو پلوامہ کے بعد ہندوستانی حکومت کی جنگجویانہ پالیسی کے باوجود، یہاں سے جو بھی آواز اٹھی وہ بھائی چارے اور امن و آشتی کی آواز ہی تھی۔ ابتدا میں اگر کسی فرد کی طرف سے کوئی غیر دانش مندانہ بات کہہ بھی دی گئی ہو تو فوراً ہی اس کا ازالہ کر دیا گیا۔ عام طور پر امن و امان اور صلح صفائی کی باتیں ہی کی جاتی رہیں۔ ہم سب ببانگ دہل کہہ رہے ہیں کہ ہم جنگ نہیں چاہتے۔ جمعرات کے دن اسلام آباد اور لاہور میں سول سوسائٹی کی جانب سے جنگ کے خلاف جلوس نکالے گئے۔ ان کا نعرہ تھا: SAY NO TO WAR۔ یہ اسی قسم کا نعرہ ہے جو ویت نام کی جنگ کے زمانے میں امریکہ کے تمام شہروں میں لگایا جاتا تھا۔ بلکہ وہاں ٹرکوں پر جو نعرہ لکھا ہوتا تھا وہ تو یہاں نقل بھی نہیں کیا جا سکتا۔ ہمارے شاعر اور دوسرے لکھنے پڑھنے والے بھی اس معاملے میں پیچھے نہیں رہے۔ نورالہدیٰ شاہ کو تو آپ جانتے ہی ہوں گے۔ آپ نے ٹیلی وژن پر ان کے ڈرامے دیکھے ہوں گے۔ انہوں نے اس موقع پر کئی نظمیں لکھی ہیں۔ ان کی ایک نظم آپ بھی پڑھ لیجئے:
دعا ہے
دونوں دشمن ملک آباد رہیں
دونوں دشمنوں کے سینوں میں
انسانوں کے گھر بسے رہیں
بارود مٹی بن جائے
بم بجھ جائیں
چولہے جلتے رہیں
روٹی پکتی رہے
روٹی پکاتی مائوں کی گود بھری رہے
دعا ہے کہ
دونوں دشمن ملکوں کی گلیوں کے بچے
کرکٹ کھیلتے رہیں
پتنگ اڑاتے رہیں
صبح کے گئے
شام ڈھلے
گھروں کو لوٹ آئیں
جنگ کے خلاف یہ نعرے اور یہ نظمیں ہمیں احساس دلاتی ہیں کہ جنگ تو دور کی بات ہے، اگر دو ملکوں کے درمیان چھوٹی موٹی جھڑپیں بھی ہوتی ہیں تو مارے جاتے ہیں وہ معصوم اور بے گناہ مرد، عورتیں اور بچے، جن کا اس جنگ یا جھڑپوں سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ اور یہاں تو دو ایٹمی طاقتیں ہیں۔ جاپان کے شہر ہیروشیما اور ناگا ساکی پر جو ایٹم بم گرائے گئے تھے وہ آج کے ایٹمی ہتھیاروں کے مقابلے میں کھلونا تھے۔ ستر پچھتر سال بعد بھی وہاں جو بچے پیدا ہو رہے ہیں وہ جسمانی طور پر معذور ہیں۔ ہم جب جنگ کے خلاف اور امن کے حق میں بات کرتے ہیں تو ہمارا مقصد یہی احساس دلانا ہوتا ہے۔ بہر حال، اب سوال یہ ہے کہ ہندوستانی پائلٹ کی واپسی کے بعد دونوں ملک بات چیت کی میز پر کب آ تے ہیں؟ دنیا بھر سے جو بیان آ رہے ہیں‘ ان سے یہ یقین پختہ ہوتا جا رہا ہے کہ آخر کار دونوں ملکوں کو اس راستے پر آنا ہی پڑے گا۔ البتہ پلوامہ کے واقعے کے بعد ہمیں اس حقیقت پر بھی غور کرنا ہو گا کہ ہندوستان کی جانب سے جارحانہ کارروائی کے باوجود دنیا بھر میں ہندوستان کی مذمت کیوں نہیں کی گئی؟ یہی حال مقبوضہ کشمیر کا بھی ہے۔ ساری دنیا دیکھ رہی ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں ہندوستانی فوج نے وہاں کے عوام پر ظلم و ستم کی انتہا کر دی ہے۔ وہ پورا علاقہ محاصرے کی حالت میں ہے۔ عام آدمی کی زندگی اجیرن ہو گئی ہے۔ اس بربریت کے خلاف ہی وہاں کے عوام مقابلے پر اتر آئے ہیں۔ لیکن دنیا کے کسی ملک کی طرف سے اس کے خلاف آواز نہیں اٹھائی جا رہی ہے۔ اس مجرمانہ خاموشی کی وجہ ڈھونڈنے کے لیے ہمیں کہیں اور نہیں جانا پڑے گا۔ ہمیں یہ دیکھنا ہو گا کہ شدت پسند عناصر اور دہشت گرد تنظیمیں کہاں پرورش پا رہی تھیں؟ اور یہ شدت پسند عناصر، جنہیں غیر ریاستی عناصر کہا جاتا ہے کہاںکہاں اور کن کن مقامات پر اپنی کارروائیاں کر رہے تھے۔ یہی عناصر تو ہماری بد نامی کا باعث بنے ہوئے ہیں۔ شکر ہے اب ہمارے مقتدر حلقوں کو اس کا احساس ہو گیا ہے۔ اور ایسی تنظیموں پر پابندی لگانے کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔ ادھر پلوامہ کے واقعے کے بعد ہم نے جو موقف اختیار کیا ہے اور دنیا بھر کو یقین دلانے کی جو کوشش کی ہے کہ ہم اس خطے میں امن و آشتی کی فضا پیدا کرنا چا ہتے ہیں، وہ ہمارے لیے ہی سود مند ثابت نہیں ہو گی بلکہ مقبوضہ کشمیر کے عوام کی جدوجہد کے لیے بھی ممد و معاون ثابت ہو گی۔ ہندوستان مقبوضہ کشمیر میں پھنس چکا ہے۔ ہمارے دوست سابق اعلیٰ سر کاری افسر اور ناول نگار طارق محمود کا خیال بالکل درست ہے کہ دنیا کی ہر بڑی طاقت کا ایک ویت نام ہے۔ امریکہ بڑی ذلت کے ساتھ ویت نام سے نکلا۔ اور اب افغانستان میں اسی قسم کی صورت حال سے دوچار ہے۔ ہندوستان بھی مقبوضہ کشمیر کی دلدل میں اسی طرح پھنس گیا ہے۔ وہ کشمیری عوام پر کتنے ہی ظلم و ستم کرتا رہے وہاں اسے کامیابی نصیب نہیں ہو سکتی۔ مقبوضہ کشمیر اس کا ویت نام ثابت ہو گا۔ لیکن پاکستان کو بھی سوچنا ہو گا کہ اس بارے میں اسے کیا رویہ اختیار کرنا چاہیے۔ ایسا رویہ جس سے کشمیری عوام کی مدد بھی ہو جائے اور عالمی سطح پر پاکستان ایک ذمہ دار اور پُر امن ملک کے طور پر سامنے آئے۔
ایک خبر یہ بھی ہے کہ ہندوستان میں زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے چھ سو افراد نے ایک بیان جاری کیا ہے‘ جس میں ہندوستان اور پاکستان دونوں سے اپیل کی گئی ہے کہ موجودہ کشیدگی میں اضافہ روکا جائے اور دونوں ملکوں کے درمیان عدم برداشت کی بڑھتی ہوئی فضا پر قابو پایا جائے۔ اس بیان پر دستخط کرنے والوں میں طلبہ، اساتذہ، ماہرینِ معاشیات، صحافی، وکلا، صنعت کار، لکھاری، اداکار، رقاص، ماہرِ تعمیرات، سابق سرکاری افسر، سفارت کار اور سابق فوجی افسر شامل ہیں۔ ''روزنامہ ہندو‘‘ نے ان افراد کے نام بھی شائع کئے ہیں۔ چھ سو ہندوستانیوں کا یہ بیان میرے اس موقف کی تائید کرتا ہے کہ پاکستان کی طرح ہندوستان میں بھی ایسے صاحب بصیرت افراد کی کمی نہیں ہے جو دونوں ملکوں کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی سے پریشان ہیں‘ اور چاہتے ہیں کہ جتنا جلدی ہو سکے یہ خطرناک کشیدگی ختم کی جائے۔ یہ بیان ہندوستانی پائلٹ ابھی نندن کی ہندوستان واپسی سے پہلے کا ہے‘ اس لئے امید ہے کہ اس کی واپسی کے بعد ہندوستان کی حکومت پر امن پسند حلقوں کا دبائو اور بھی بڑھ جائے گا‘ اور ہمیں سکون کا سانس لینے کا موقع ملے گا۔