سمجھ میں نہیں آرہا‘ انہیں کس حیثیت میں یاد کیا جائے؟ وہ ہمہ جہت شخصیت تھے۔ ہمہ جہت اور ہمہ گیر۔ وہ صحافی تھے۔ ساری عمر صحافت اور اظہار رائے کی آزادی کے لئے جدوجہد کرتے رہے۔ وہ انسانی حقوق کے تحفظ کے علمبردار تھے۔ آخری عمر تک وہ انسانی حقوق کمیشن کے ساتھ وابستہ رہے۔ وہ اس خطے میں امن و امان قائم کرنے کی تحریک کے رہنما تھے۔ وہ پاکستان اور بھارت کے مابین بھائی چارے کی فضا پیدا کرنے والوں کی صف اول میں شامل تھے۔ اور وہ فلمی نقاد بھی تھے۔ یہ فلمی نقاد والی بات ہم نے آخر میں اس لئے یاد دلائی ہے کہ ان کے ساتھ ہمارا تعلق اسی حوالے سے قائم ہوا۔ یہ 1950 کی دہائی کی بات ہے‘ وہ پاکستان ٹائمز سے وابستہ تھے اور ہم روزنامہ امروز میں تھے۔ ہم دونوں اپنے اپنے اخباروں کا فلمی صفحہ مرتب کرتے تھے‘ اور فلموں پر تبصرے کرتے تھے۔ ہمارے ساتھ علی سفیان آفاقی بھی شامل ہو گئے تھے۔ وہ روزنامہ آفاق میں یہی کام کرتے تھے۔ ہم ساتھ ساتھ فلم سٹوڈیو جاتے‘ وہاں سے خبریں جمع کرتے اور جن اردو اور انگریزی فلموں پر تبصرہ کرنا ہوتا وہ فلمیں بھی ہم ساتھ ساتھ ہی دیکھتے تھے‘ بلکہ ہم آپ کو یہ بھی یاد دلا دیں کہ بے نظیر کی حکومت نے نیفڈیک کے زیر اہتمام جب انگریزی میں ایک فلمی رسالہ نکالا تھا تو اس کے ایڈیٹر بھی وہی تھے۔ اب رہی ادب کی بات تو کہا جاتا ہے کہ سیاسی آزادیوں کے لئے کام کرنے والے عام طور پر ادب کی طرف زیادہ توجہ نہیں دیتے لیکن ان کا ادب سے بھی اتنا ہی گہرا تعلق تھا جتنا سیاسی میدان میں آزادیٔ اظہار کے لئے کام کرنے والے اداروں کے ساتھ تھا۔ اس کا ثبوت ہمیں اس وقت ملا جب انہوں نے ایک ادبی جشن میں کلیدی خطبہ پڑھا۔ یہ فیصل آباد کا جشن ادب تھا، اور وہ اس کا کلیدی خطبہ پڑھ رہے تھے۔ اس خطبے سے معلوم ہوا کہ وہ صرف سیاسی حقوق پر ہی توجہ نہیں رکھتے بلکہ قدیم اور جدید ادب بھی ان کے زیر مطالعہ رہتا ہے اور وہ باقاعدہ اردو ادب پر تنقیدی نظر رکھتے ہیں۔
یہ تو ہوئی ان کی فلمی، ثقافتی اور ادبی دنیا سے وابستگی‘ لیکن ان کا بنیادی رشتہ اظہار رائے کی آزادی کے تحفظ کے ساتھ تھا۔ اپنی ساری زندگی انہوں نے اظہار رائے کے تحفظ کے لئے وقف کر رکھی تھی۔ جب مشرقی پاکستان میں انسانی حقوق کے حوالے سے مسائل کا سلسلہ شروع ہوا تو انہوں نے پاکستان ٹائمزچھوڑ دیا‘ اور ''آزاد‘‘ کے نام سے علیحدہ اخبار نکالا۔ ان کے ساتھ تھے عبداللہ ملک اور حمید اختر۔ اس اخبار نے مشرقی پاکستان کے بارے میں اس زمانے کی حکومت کی پالیسی کو اپنا نشانہ بنایا۔ ایوب خاں کی حکومت ان سے سخت ناراض تھی کہ وہ مشرقی پاکستان کی سیاست کے بارے میں سچی بات کرتے ہیں۔ ظاہر ہے یہ اخبار کتنا چل سکتا تھا۔ مالی حالات نے اسے بند کرنے پر مجبور کر دیا۔ ادھر ایوب خاں نے مارشل لا لگایا تو سب سے پہلے جن اخباروں پر ان کی نظر گئی وہ پاکستان ٹائمز اور امروز تھے۔ مارشل لا حکومت نے ان اخباروں کے ادارے پروگریسیو پیپرز پر قبضہ کر لیا۔ اس وقت مظہر علی خاں پاکستان ٹائمز کے اٰیڈیٹر تھے۔ حکومت نے بہت کوشش کی کہ مظہر علی خاں پاکستان ٹائمز چھوڑ کر نہ جائیں، لیکن مظہر علی خاں نے پاکستان ٹائمز چھوڑ دیا۔ اس کے بعد مظہر علی خان نے ''ویو پوائنٹ‘‘ کے نام سے ایک انگریزی ہفت روزہ نکالا‘ اور وہ انہیں بھی اپنے ساتھ لے گئے۔ اور یہ تعلق اس وقت تک قائم رہا جب تک مالی حالات نے اجازت دی اور وہ انگریزی ہفت روزہ چلتا رہا۔ بے نظیر کی دوسری حکومت میں انہیں امروز اور پاکستان ٹائمز کے ادارے پروگریسیو لمیٹڈ کا ایگزیکٹو افسر بنا دیا گیا تھا‘ لیکن یہ تجربہ اس لئے کامیاب نہیں ہو سکا کہ ایک تو اس ادارے کے مالی حالات بہت مخدوش تھے۔ دوسری طرف وہاں کی ٹریڈ یونین بھی انہیں کام نہیں کرنے دیتی تھی۔ اس کے مطالبات ختم ہونے میں ہی نہیں آتے تھے۔
یوں تو ہیومن رائٹس کمیشن کے ساتھ ان کا تعلق شروع سے ہی تھا لیکن جب مظہر علی خاں کا وہ رسالہ بند ہوا تو ہیومن رائٹس کمیشن کی سکرٹری جنرل عاصمہ جہانگیر انہیں اس کمیشن میں لے گئیں۔ یہ ان کا اصل میدان تھا۔ اب وہ تھے اور انسانی حقوق کے تحفظ کی جدوجہد۔ جہاں بھی انسانی حقوق کی بات ہوتی وہاں لا محالہ ان کا نام آتا۔ اب انہوں نے اپنی زندگی انسانی حقوق کے تحفظ کی جدوجہد کے لئے وقف کر دی تھی۔ پاکستان میں جہاں بھی انسانی حقوق کے تحفظ کا حوالہ آتا وہاں سر فہرست ان کا نام ہوتا‘ اور جہاں بھی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہوتی وہاں اس کے آگے ڈٹ جانے والوں میں ان کا نام پہلے آتا۔ آخری عمر تک انہوں نے صحافت کے ساتھ اپنا رشتہ جوڑے رکھا۔ اب وہ انگریزی روزنامہ ڈان میں ہفتہ وار کالم لکھتے تھے۔ انہوں نے شروع سے ہی سیاسی معاملات میں جو غیر جانب داری قائم کی تھی وہ ان کے آخری کالم تک برقرار رہی۔ اب اگر کچھ لوگ برا نہ مانیں تو عرض کر دی جائے کہ پاکستان کے آئین اور قوانین پر ان کی جو نظر تھی وہ کسی اور کالم نگار کے ہاں نظر نہیں آتی۔ وہ کسی بھی میدان میں آئین اور قانون کی خلاف ورزی پر ایسے تبصرہ کرتے تھے کہ ان کے مخالف نظریہ رکھنے والے بھی اس کی داد دیئے بغیر نہیں رہ سکتے تھے۔ وہ اس طرح اپنی بات کرتے تھے کہ قانونی طور پر کوئی بھی ان پر انگلی نہیں اٹھا سکتا تھا۔ وہ روزنامہ ڈان میں ہر ہفتے پابندی کے ساتھ کالم لکھتے تھے۔ حالت یہ تھی ان کا آخری کالم ان کے انتقال سے ایک ہفتے پہلے چھپا۔ سیاسی اور ثقافتی حلقوں میں ان کی رائے کو بہت اہمیت دی جاتی تھی۔ نیّر علی دادا کی بیٹھک میں جب بھی سیاست پر کوئی بات ہوتی تو سب کی نظریں ان کی طرف ہی جاتی تھیں۔ ان کی بات اور ان کی رائے کو ہی ہمیت دی جاتی تھی۔ عام طور پر ایسے سیاسی مبصر مزاج کے بہت ہی خشک ہوتے ہیں‘ لیکن ان کی حس مزاح ایسی تیز تھی کہ باتوں باتوں میں ان کی طرف سے ایسا کاٹ دار جملہ سامنے آ جاتا کہ ساری محفل زعفران زار بن جاتی۔
اب ہم آپ کو ان کا نام بھی بتا دیں۔ وہ آئی اے رحمن کے نام سے جانے جاتے تھے اور اسی نام سے مضامین لکھتے تھے۔ اب اگر ہم یہ کہیں کہ سیاسی، ادبی اور ثقافتی حلقوں میں جب بھی کو ئی رحمن صاحب کہتا تو فوراً ان کی شخصیت ہی سامنے آ جاتی تو غلط نہ ہو گا۔ کسی کو بھی علم نہیں تھا کہ آئی اے سے ان کی کیا مراد ہے۔ آخر جب انٹرنیٹ پر ان کا نام آیا تو معلوم ہوا کہ آئی اے رحمن دراصل ابن عبدالرحمن کا مخفف ہے۔ عبدالرحمن صاحب ان کے والد تھے۔ وہ ملتان میں وکیل تھے۔ بلکہ یہ کہا جائے تو غلط نہ ہو گا کہ ان کا پورا خاندان وکیلوں کا خاندان ہے‘ اور سیاست سے ان سب کا تعلق ہے۔ راشد رحمن، جسے توہین کے ایک مقدمے میں اس کے دفتر میں گولی مار دی گئی تھی‘ ان کا بھتیجا تھا۔ اور اشفاق احمد خاں جنہیں ذوالفقار علی بھٹو نے ویت نام میں سفیر بنایا تھا وہ ان کا بیٹا تھا۔ اشفاق احمد خان رحمن صاحب کے چچا زاد بھائی تھے۔ ہم تو ان کے خاندان کی وضعداری کے قائل ہیں۔ ملتان میں ہمارے گھر سے تھوڑا آگے ان کا مکان تھا۔ ان کے والد کچہری جاتے ہوئے ہمارے گھر کے سامنے سے گزرتے تھے۔ ہفتے میں ایک آدھ بار وہ ہمارے گھر بھی آجاتے تھے۔ ہماری اور بچوں کی خیریت دریافت کرنے۔ یہ پرانی وضع دار شخصیتوں کی پہچان تھی۔ انسانی حقوق کے تحفظ کے ساتھ ان کا جو زندگی بھر کا تعلق تھا وہ پاکستان کی تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ اس وقت تو ہم یہی کہہ سکتے ہیں کہ انسانی حقوق کے تحفظ کا ایک اور ستون منہدم ہو گیا۔