آج کل ٹیلی وژن پر کچھ اس طرح کا ایک اشتہار نظر آتا ہے، ایک صاحب بڑے سے چمچے سے تیل کی دھار اوپر سے نیچے گرا رہے ہیں‘ اور حیرت سے آنکھیں اور منہ پھاڑے کہہ رہے ہیں ''اتنا... زیادہ؟‘‘ یہ اشتہار ہمیں جوہر ٹائون کے ایکسپو سنٹر جا کر یاد آیا جہاں کورونا کی ویکسین لگائی جا رہی ہے۔ ہم تو سمجھے تھے کہ یہ بھی ایسا ہی کوئی مرکز ہو گا جیسے عام طور ہمارے صحت کے مرکز ہوتے ہیں۔ وہی ضرورت مندوں کا ہجوم۔ وہی افرا تفری کا عالم۔ کسی کو یہ علم نہیں کہ کہاں جا نا ہے؟ اور وہاں کیا کرنا ہے؟ لیکن ایکسپو سنٹر پہنچ کر تو ہماری آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں اور منہ سے بے ساختہ نکلا ''اتنا زیادہ؟... اتنا اچھا؟ اتنا سلیقے کا؟ اتنا صاف ستھرا؟ کوئی افراتفری نہیں۔ کوئی کسی کو آگے پیچھے نہیں دھکیل رہا ہے۔ ہر شخص اپنی باری کا انتظار کر رہا ہے۔ یہاں بھی زیادہ دیر انتظار کرنا نہیں پڑتا اور باری جلدی ہی آ جاتی ہے۔ آپ کہہ سکتے کہ اس کی وجہ یہ ہو گی کہ وہاں گنجائش بہت زیادہ ہے، مگر پھر وہی بات کہ ایسی گنجائشیں تو کئی اور جگہ بھی نظر آ جاتی ہیں۔
اب ہم آپ کو یہ بھی بتا دیں کہ اس سنٹر کے چار گیٹ رکھے گئے ہیں۔ پہلا گیٹ ہم جیسے بزرگوں کے لئے اور ان لو گوں کے لئے ہے جو ویل چیئر پر آتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ اس گیٹ پر لو گ بھی بہت کم ہوتے ہیں اس لئے ویکسین لگوانے والوں کی باری جلدی آ جاتی ہے؛ البتہ باقی دروازوں پر کاروں کی بھیڑ دکھائی دیتی ہے۔ گاڑیاں ہی گاڑیاں، ہر قسم اور ہر رنگ کی گاڑیاں، اگرچہ یہ گاڑیاں کسی ترتیب سے تو نہیں کھڑی نہیں ہوتیں‘ لیکن ایسا لگتا ہے جیسے وہاںکسی کو جلدی نہیں ہے کہ اپنی گاڑی آگے پیچھے کرتا رہے۔ سب جانتے ہیں کہ سب کی باری جلد ہی آ جائے گی۔ وہاں کا عملہ بھی نہایت با اخلاق اور ہر وقت مدد کے لئے تیار رہتا ہے۔ ہم وہاں صبح ہی صبح ہی پہنچ گئے تھے۔ پہلے غلطی سے ہم کسی دوسرے گیٹ پر چلے گئے۔ کسی نے بتایا تو آخر پھر گیٹ نمبر ایک پر پہنچے۔ وہاں قطار میں ہم سے پہلے دو خواتین کھڑی تھیں۔ وہ فارغ ہوئیں تو ہماری باری آ گئی۔ سامنے میز کے پیچھے ایک خاتون بیٹھی تھیں۔ ہم ان خاتون کی میز پر پہنچے۔ انہوں نے صرف ہمارا شناختی کارڈ دیکھا، اور خاموشی سے ہمارے بائیں بازو میں ویکسین لگا دی‘ اور ہدایت دی کہ اکیس دن بعد دوسری ویکسین لگوا لینا۔ اس طرح ہم ہم پانچ منٹ میں فارغ ہو گئے۔ اللہ اللہ خیر سلا۔ ہم ایک عرصے سے ٹال رہے تھے کہ کون جائے ایکسپو سنٹر، آخر دوستوں کے اصرار پر یہ فرض بھی ادا ہو گیا۔
چلئے یہ تو بزرگوں کی بات تھی۔ ہم نے تو یہ دیکھا کہ جوانوں اور نوجوانوں کو بھی زیادہ دیر نہیں لگ رہی تھی۔ ہمیں وہاں کسی کے منہ سے کسی قسم کی شکایت سننے کو نہیں ملی۔ ہم یہ دیکھ رہے تھے اور سوچ رہے تھے کہ کیا ایسا ہی انتظام ہمارے صحت کے دوسرے اداروں میں بھی نہیں ہو سکتا؟ صرف تھوڑی سی محنت اور کچھ سرمایے کی ضرورت ہو گی۔
ا ور ہاں، وہاں گاڑیوں کی قطاریں دیکھ کر ایک اور خیال آیا۔ سوچا کہ جن لوگوں کے پاس کاریں ہیں وہ تو یہاں تک آ سکتے ہیں مگر جن کے پاس کاریں نہیں ہیں وہ کہاں جا ئیں؟ ہمیں نہیں معلوم لاہور میں اس قسم کے اور کتنے سنٹر ہیں؟ اور کہاں ہیں؟ یہ منحوس بیماری صرف بڑے لو گوں کے لئے ہی تو نہیں ہے۔ غریب بھی تو اس کا شکار ہوتے ہیں‘ اور وہ غریب ان علاقوں میں نہیں رہتے۔ ہو سکتا ہے حکومت نے شہر کے دوسرے علاقوں میں بھی ایسے سنٹر قائم کئے ہوں‘ مگر وہ سنٹر کہاں ہیں؟ ہمیں تو معلوم نہیں۔ اخباروں میں ان کی فہرست شائع نہیں کی گئی۔ حکومت کو چاہیے کہ ان سب کے پتے بھی اخباروں میں شائع کرے‘ اور ہر محلے اور ہر علاقے میں ایک دوسرے تک یہ معلومات بھی پہنچائے۔ یہ ہم اس لئے کہہ رہے ہیں کہ اب تک ہم نے ایسے مرکزوں کی فہرست کہیں نہیں دیکھی۔ اصل میں تو ان مرکزوں کی زیادہ سے زیادہ پبلسٹی ہونا چاہیے۔
ہمارے عام آدمی کو تو اس کی پروا ہی نہیں ہے۔ بازاروں میں عام لوگ ایسے چلتے پھرتے ہیں جیسے دنیا میں کوئی وبا ہی نہیں پھیلی ہوئی ہے۔ عورتیں اپنے بچوں کو بازاروں میں کھلے عام لئے پھرتی ہیں، اور خود بھی ماسک نہیں لگاتیں۔ ہم اپنے گھروں میں بھی اس کا خیال نہیں رکھتے، ان سب کو اس کے لئے آمادہ کرنا پڑے گا۔
معاف کیجئے، آپ سوچ رہے ہوں گے کہ آج اسے کیا ہو گیا ہے؟ چلئے، ایکسپو سنٹر جا کر آپ نے ویکسین لگوا لی اور آپ کو یہ بھی احساس ہو گیا کہ سمجھ دار لوگ یہ ویکسین لگوا رہے ہیں لیکن آپ اس لئے ساری دنیا کو نصیحت کرنے کیوں چلے ہیں؟ تو بھائی صاحب، اس کی وجہ یہ ہے ہمیں اپنے آس پاس یہ وبا حملہ کرتی نظر آ رہی ہے لیکن اس کے ساتھ ہی عام لوگو ں کی بے پروائی بھی دکھائی دے رہی ہے، اسی لئے ہم نے یہ کالم لکھ مارا ہے۔ ہمیں عام لوگوں سے تو یہ توقع نہیں کہ ہماری بات پر زیادہ توجہ دیں گے؛ البتہ حکومت سے توقع ہے کہ وہ اس طرف پوری سنجیدگی سے توجہ دے گی‘ بلکہ ہم تو کہیں گے کہ ہماری سیاسی جماعتوں کو بھی ادھر پوری توجہ دینا چاہیے۔ سیاست اپنی جگہ اور قوم کی صحت اپنی جگہ۔ دیکھ لیجئے، اس وقت ہمارے اپنے شہر میں اس وبا سے وفات پانے والوں کی شرح چودہ فیصد سے زائد ہو چکی ہے۔ کیا ہم چاہتے ہیں کہ یہ شرح یونہی بڑھتی رہے۔ اس میں ہم سب کا ہی نقصان ہے۔
حکومت کا بھی فرض ہے کہ ویکسین لگانے والے مرکزوں کی تعداد بڑھائے‘ انہیں اندرون شہر تک بھی لے جائے‘ اور جہاں ضروری سمجھے وہاں کسی تکلف کے بغیر لاک ڈائون کر دے۔ ہمیں اپنے کاروباری حضرات سے بھی توقع ہے کہ وہ اس سلسلے میں حکومت سے پورا تعاون کریں گے۔ کاروبار تو ہوتا رہے گا۔ ضرورت مند ہوں گے تو آپ کی چیزیں خریدیں گے۔
جو لوگ ابھی تک ڈانواڈول ہیں‘ اب انہیں کون یاد دلائے کہ جب اسی دنیا میں فلو اور طاعون کی وبا پھیلی تھی تو اس نے دنیا بھر میں وہ تباہی مچائی تھی کہ تاریخ اسے آج تک یاد کرتی ہے۔ ایک بات اور بھی یاد رکھنے کی ہے کہ ایسی وبائیں دنیا سے جاتی نہیں ہیں۔ وہ کسی نہ کسی شکل میں ہمیشہ بر قرار رہتی ہیں۔ سپینش فلو اب بھی نمودار ہوتا رہتا ہے۔
لیجئے ہم ایکسپو سنٹر میں اپنے ویکسین لگوانے اور اس سنٹر کی بہترین مستعدی اور کارکردگی سے چلے تھے اور کہاں پہنچ گئے‘ لیکن یہ ہمارے دل سے نکلنے والی آواز ہے۔ اسے دور دور تک پہنچنا چاہیے۔ اب آخر میں ہم ایکسپو سنٹر کی پھر تعریف کر دیں اور اپنے عام آدمی اور اپنی حکومت کو یاد دلائیں کہ صحت کے مرکز ہوں یا کوئی اور مرکز اور ادارے ہوں تو انہیں اس سنٹر اور اس کی کارکردگی سے سیکھنا چاہیے۔ اب ایک تصحیح۔ پچھلے کالم میں ہم نے مثنوی زہر عشق کے دو شعر نقل کئے تھے۔ پہلا شعر تو بالکل صحیح چھپ گیا؛ البتہ میں نے دوسرے شعر میں ''تم‘‘ کی جگہ ''وہ‘‘ اور ''وہ‘‘ کی جگہ ''تم‘‘ لکھ دیا تھا۔ دراصل یہاں مخاطب کیا گیا ہے ہر دنیا چھوڑ کر جانے والی شخصیت کو۔ اس لئے اس مصرعہ میں اسے مخاطب کر کے کہا گیا ہے کہ 'آج تم کل ہماری باری ہے‘۔ اب آپ یہ شعر اس طرح پڑھیں گے:؎
موت سے کس کو رست گاری ہے
آج تم کل ہماری باری ہے