اس بار اس منحوس کورونا نے ہم سے ہمارا سب سے پیارا مو سم ''بہار‘‘ چھین لیا ہے۔ اس موسم میں پیڑوں اور پودوں کے ساتھ ہم انسانوں میں بھی نئی زندگی کا احساس جاگتا تھا‘ لیکن ہوا یوں کہ ادھر بہار کا موسم شروع ہوا، ادھر بارش اور تیز ہوائیں شروع ہو گئیں۔ آم اور کنو‘ مالٹے کے پیڑوں پر جو کلیاں آئی تھیں ہوائیں انہیں لے اڑیں۔ اب یہ تو باغوں والے ہی بتا سکتے ہیں کہ اس تیز بارش اور ان طوفانی ہوائوں نے ان کے باغوں کو کتنا نقصان پہنچایا‘ ہم تو یہ جانتے ہیں کہ ہمارے پیڑوں پر لگی ہوئی کلیاں ان ہوائوں میں اڑ گئیں۔ پھر یہ بھی ہوا کہ جاڑوں کا موسم آنے سے پہلے ہی اس موذی وبا ''کورونا‘‘ نے ہمارے اوپر حملہ کر دیا۔ اب کہاں کی رباعی‘ کہاں کی غزل۔ ہر طرف کورونا ہی کورونا کا چکر ہے۔ جاڑے گزرے اور نیا موسم شروع ہوا تو ہم نے سوچا‘ اب پیڑوں اور پودوں کی طرح ہمارے اندر بھی تبدیلیاں شروع ہوں گی‘ اور ہم بھی ہرے بھرے کھیتوں اور پیڑوں پر نئی نئی پھوٹتی کلیوں کی طرح اپنے اندر نیا خون بنتا دیکھیں گے لیکن برا ہو اس کورونا کا کہ وہ کچھ اس طرح ہمارے سروں پر سوار ہوا ہے کہ ہمیں اس کے سوا اور کچھ بھی نظر نہیں آتا۔ ہر وقت ہمارے سر پر یہ خوف سوار رہتا ہے کہ کہیں یہ منحوس وبا ہمیں بھی اپنے نرغے میں نہ لے لے۔ ہم خود تو اس نحوست سے بچ گئے لیکن ہمارے کئی قریبی عزیز اس کی زد میں آ گئے۔ چونکہ اب تک ہم خود اس بیماری سے بچے ہوئے تھے اس لئے اس کی شدت کا اندازہ ہمیں نہیں ہو رہا تھا‘ لیکن جب یہ نحوست ہمارے اپنے گھر میں بھی داخل ہو گئی تو معلوم ہوا کہ یہ کتنی تکلیف دہ بیماری ہے۔ شکر ہے اب یہ نحوست ہمارے گھر سے بھی نکل چکی ہے اس لئے ہم اس قابل ہو ئے ہیں کہ اس کے بارے میں کچھ کہہ سکیں۔ یہ آپ بھی جانتے ہوں گے کہ ہمارے معاشرے میں ایسے لوگ بھی موجود ہیں جو ابھی تک اس وبا کی موجودگی سے ہی انکار کرتے ہیں اور وہ اس وبا کو دنیا کے چند بڑے لوگوں کی سازش قرار دیتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ دنیا، بالخصوص غریب ملکوں کی آبادی کم کرنے کے لئے انہوں نے یہ شوشہ چھوڑا ہے۔ یہی بات انہوں نے پولیو کے بارے میں بھی کہی تھی۔ انہوں نے یہ افواہ پھیلائی تھی کہ بل گیٹس جیسے امیر کبیر لوگوں نے ہم غریب ملکوں کو دھوکہ دیا ہے اور ایسی دوائیں ہمیں بھیجی ہیں جن سے مرد بچے پیدا کرنے کے قابل نہیں رہیں گے؛ چنانچہ آپ دیکھ لیجئے کہ غریب اور بے پڑھے لکھے لوگوں کے ساتھ ہمارے اپنے شہروں تک میں بچوں کو پولیو کے قطرے پلانے والوں کو کتنی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ کورونا کے بارے میں بھی شروع میں کچھ ایسی ہی باتیں پھیلائی گئی تھیں لیکن اس منحوس وبا نے قریب قریب ہر گھر میں داخل ہو کر اپنی موجودگی ظاہر کر دی ہے۔
معاف کیجئے، ہم چلے تھے اپنے موسم بہار کے چھن جانے سے، اور وہیں پہنچ گئے جہاں ہر محفل میں موجود لوگوں کے درمیان بات چیت کا موضوع بننے والی یہ وبا ہمیں لئے جا رہی ہے۔ ہماری تکلیف صرف یہ نہیں ہے کہ یہ موذی وبا ہمارے ارد گرد منڈلاتی رہتی ہے بلکہ ہماری بڑی تکلیف یہ ہے کہ اس وبا نے ہمیں گھر کے اندر بند کر دیا ہے۔ ذرا سو چیے‘ ایک سال سے زیادہ ہو گیا ہم اپنے کسی دوست سے مل نہیں سکے ہیں۔ جی چاہتا ہے کہ ہم یہ پابندیاں توڑ کر کسی کے گھر چلے جائیں لیکن پھر خیال آتا ہے کہ اس طرح ہم اپنے اس عزیز یا دوست کو بھی خطرے میں ڈالیں گے بلکہ ہو سکتا ہے کہ ہمارا وہ عزیز یا دوست ہمیں اپنے گھر کے اندر ہی داخل نہ ہونے دے۔ ظاہر ہے دوستی اور رشتے داری اپنی جگہ، مگر بیماری کا خطرہ تو کوئی بھی مول نہیں لے سکتا۔ اس لئے ملنے جلنے کا گزارہ ٹیلی فون پر ہی ہو جاتا ہے لیکن پھر وہی بات کہ فون بھی کتنے کئے جا سکتے ہیں۔ اس لئے ہم واپس اپنے گھر کے اندر ہی چلتے ہیں۔ اپنے گھر میں ہماری ساتھی کتابیں ہیں۔ جب سے اس منحوس وبا نے ساری دنیا کے ساتھ ہمیں بھی گھر میں بند کر دیا ہے، اس وقت سے کتابیں ہی ہمارا ساتھ دے رہی ہیں اس کے لئے ہماری لائبریری ہماری مدد کر رہی ہے۔ اب ہم آپ کو کیا بتائیں کہ اس عرصے میں ہم نے کتنی پرانی کتابیں پڑھ ڈالی ہیں اور جب ان کتابوں سے دل بھر جاتا ہے تو موسیقی ہماری مدد کو آ جاتی ہے۔ اس کالم کے شروع میں ہم نے جس موسم کے چھن جانے کا ذکر کیا تھا، وہ اصل موسم اتنا نہیں تھا جتنا ٹینا ثانی کی آواز کا جادو۔ فیض کی نظم اور ٹینا ثانی کی آواز وہ جادو جگاتی ہے کہ اس کے بعد کچھ اور سننے کو جی ہی نہیں چاہتا۔ جب ٹینا ثانی اپنی جادو بھری آواز میں فیض کی نظم کا پہلا مصرع اٹھاتی ہے اور کہتی ہے ''بہار آئی‘‘ تو جیسے سننے والے کے جسم سے اس کی روح کھینچ کر لے جاتی ہیں۔ جوں جوں یہ نظم ٹینا ثانی کی آواز میں آگے بڑھتی جاتی ہے، توں توں ہم بھی اپنے آپ کو آسمانوں میں پرواز کرتا محسوس کرتے ہیں۔ ہمیں تو ارشد محمود سے بھی شکایت یہی ہے کہ انہوں نے ٹینا ثانی کا ساتھ چھوڑ دیا؟ اگر وہ دونوں ساتھ رہتے تو ہمیں اور بھی ایسی نظمیں اور غزلیں سننے کو ملتیں۔ اب ذرا یاد کیجئے۔ اس کے بعد ٹینا ثانی نے اور کیا کچھ گایا ہے؟ ہمیں تو یاد نہیں؛ البتہ انہوں نے اقبال کی نظم ''شکوہ‘‘ اور ''جواب شکوہ‘‘ جو گائی ہے۔ وہ اس مقام کو نہیں پہنچ سکی جہاں ٹینا نے فیض کی نظم کو پہنچایا ہے۔ آج کل ٹینا ثانی کہاں ہیں؟ یہ ہمیں نہیں معلوم؛ البتہ ارشد محمود ٹیلی وژن کے اشتہاروں میں نظر آتے ہیں۔ ابھی ابھی ہمیں یاد آیا فیصل آباد کا ادبی جشن۔ ارشد محمود بھی وہاں موجود تھے۔ انہوں نے فیض صاحب کے بارے میں اپنی یادیں سنائیں، کہنے لگے ''ہم نے فیض صاحب سے کہا، فیض صاحب آپ بھی جاٹ ہیں اور ہم بھی جاٹ ہیں۔ آپ نے بھی ایم اے کیا ہے۔ ہم نے بھی ایم اے کیا ہے۔ اب بتائیے آپ میں اور ہم میں کیا فرق ہے؟ لیکن یہاں ہم ارشد محمود کا نہیں بلکہ فیض کی نظم ''بہار آئی‘‘ اور ٹینا ثانی کی جادوئی آواز کا ذکر کر رہے تھے۔ آپ کو بھی ہمارا مشورہ ہے کہ گھر میں خالی نہ بیٹھے رہیے بلکہ کتابیں پڑھیے اور جب آپ کی آنکھیں تھک جائیں تو ٹینا ثانی جیسے گانے والوں کی جادو بھری آواز میں اپنے آپ کو غائب کر دیجئے۔ ادھر ٹی وی فلمیں بھی موجود ہیں، جو آپ کا ساتھ دے سکتی ہیں۔ اب ممبئی کے فلمستان میں کیا ہو رہا ہے؟ یہ تو ہمیں معلوم نہیں؛ البتہ اب ٹیلی وژن کے دوسرے ذرائع نے فلمیں بنانا شروع کی ہیں۔ یہ فلمیں اتنی طویل نہیں ہیں جتنی بالی وڈ کی فلمیں ہوتی ہیں اس لئے انہیں آسانی کے ساتھ برداشت کیا جا سکتا ہے۔ ان فلموں میں ہندوستانی فن کاروں کے ساتھ پاکستانی فن کار بھی نظر آتے ہیں۔ ان فلموں کے بارے میں آ پ کہہ سکتے ہیں کہ یہ فلموں کی یہ ایک نئی صنف پیدا ہو رہی ہے۔
ہم آج کل جن استاد موسیقاروں کو سن رہے ہیں ان میں پنڈت جسراج سب سے اوپر ہیں۔ انہوں نے کتنی راگ راگنیوں میں گایا ہے۔ اب ہمیں تو ان کی تعداد بھی یاد نہیں؛ البتہ انہوں نے راگ بھیرویں کی ایک بندش میں جو گایا ہے وہ ہر وقت ہمارے کا نوں میں گونجتا رہتا ہے۔ وہ بندش ہے ''مورے اللہ مہربان‘‘ اگر آپ نے ویڈیو میں یہ بندش نہ سنی اور دیکھی ہو تو سمجھ لیجئے کہ آپ ایک عظیم گائیک کی اس بندش سے محروم رہے ہیں۔