رحمن صاحب ہمارے لئے ایک زندہ و پائندہ مثال چھوڑ گئے ہیں کہ آپ کو کتنے ہی مصائب کا سامنا کرنا پڑے‘ کتنی ہی مشکلات کا مقابلہ کرنا پڑے آپ پاکستانی معاشرے کو پُر امن‘ روشن خیال اور ترقی پسند مستقبل کی ضمانت دینے کے لئے جدوجہد کرتے رہیں۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ ہمارا معاشرہ روز بروز رجعتی عناصر کے گھیرے میں پھنستا چلا جا رہا ہے اور روشن خیال طبقے پیچھے ہٹتے جا رہے ہیں۔ پچھلے چند ہفتوں میں ہم نے یہ بھی دیکھا کہ ان طبقوں کی اتنی ہمت ہو گئی ہے کہ وہ جب چاہیں حکومت کو مجبور کر دیں کہ وہ ان کے بتائے ہوئے راستے پر چلنا شروع کر دے۔ قائد اعظم نے پاکستان کے مستقبل کے لیے جو راستہ متعین کیا تھا اس کا خیال تک اب کسی کو نہیں آتا۔ قائد اعظم نے ایک کثیرالعقائد پاکستان قائم کرنے کا راستہ دکھایا‘ اور کہا تھا کہ اب آپ ایک آزاد ملک کے شہری ہیں‘ اب آپ جس مسلک اور جس عقیدے کی پیروی کرنا چاہیں کر سکتے ہیں‘ لیکن ہماری کسی حکومت نے اس کا خیال نہیں رکھا۔ قائد اعظمؒ کی آنکھ بند ہوتے ہی‘ قرارداد مقاصد منظور کرائی گئی جس کے بعد قائد اعظم کی ہدایت کو پس پشت ڈال دیا گیا۔ اس کے بعد ہر ایک کو اپنی حکمرانی کی جڑیں مضبوط کرنے کے لیے کوئی اور ہی راستہ اختیار کرنا پڑا۔ وہ راستہ جس پر چلنے سے رجعتی عناصر خوش ہوتے ہوں۔ اس کا نتیجہ ہمارے سامنے ہے۔ فیض آباد میں جو دھرنا دیا گیا‘ سیاسی طور پر اس کا مقابلہ نہیں کیا گیا بلکہ ان کی خوشامد کر کے وہ دھرنا ختم کرایا گیا۔ ہم نے دیکھا کہ سب کی آنکھوں کے سامنے ان کی خوشامد کی جا رہی ہے‘ انہیں یقین دلایا جا رہا ہے کہ ہم بھی آپ میں سے ہی ہیں۔ اس واقعے کی تحقیقات کے لیے جو عدالتی کمیشن قائم کیا گیا اس کی رپورٹ نے ساری صورت حال واضح کر دی کہ کیا ہو رہا ہے۔ فیض آباد کے اس تجربے نے ان رجعتی عناصر کی جو ہمت بڑھائی اس کے مناظر گزشتہ کئی ہفتے سے ہمیں نظر آ رہے ہیں۔ قاضی فائز عیسیٰ ٹھیک ہی تو کہتے ہیں کہ اگر ان کی رپورٹ پر عمل کیا جاتا تو جو حالات ہمیں آج نظر آ رہے ہیں وہ نہ دیکھنا پڑتے۔
جس مسئلے پر ہنگامے کئے جا رہے ہیں وہ صرف ہمارا مسئلہ ہی نہیں ہے‘ دنیا کے ہر مسلم ملک کا یہ مسئلہ ہے۔ سوچئے کہ دنیا میں کتنے مسلم ملک ہیں‘ وہ اس پر ایجی ٹیشن نہیں کر رہے ہیں۔ وہ اسے خاموش رہ کر اور یہ سوچ کر حل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ وقت کے ساتھ یہ معاملہ خود ہی طے ہو جائے گا یا مل کر سوچ بچار کر کے اس کا کوئی حل تلاش کر لیا جائے گا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمارے ہاں ہونے والی ہنگامہ آرائی کسی اور ہی مقصد کے لیے تھی۔ اس کا مقصد اپنی طاقت کا مظاہرہ کرنا اور حکومت کو اپنے راستے پر چلانا تھا۔ حکومت خود بھی اس مسئلے پر کوئی واضح پالیسی نہیں رکھتی۔ چونکہ یہ حکومت چوں چوں کا مربہ ہے اس لئے اس مسئلے کے بارے میں وزیر اعظم کچھ کہتے ہیں اور ان کے وزیر کچھ اور کہتے ہیں۔ پچھلے دنوں کے ہنگاموں کے بعد متعلقہ جماعت پر پابندی لگا دی گئی ہے۔ اب وزیر اعظم کہہ رہے ہیں کہ اس جماعت پر سے پابندی نہیں ہٹائی جائے گی اور ان ہنگاموں میں جائیدادوں کا جو نقصان ہوا ہے اور جو پولیس والے اس کی نذر ہو گئے ہیں‘ قانون کے مطابق ان سے نمٹا جائے گا‘ لیکن ایک وزیر صاحب بڑے وثوق کے ساتھ کہہ رہے ہیں کہ کچھ ہی دنوں میں اس جماعت پر سے پابندی ہٹا لی جائے گی۔ اب کس کی مانی جائے؟ اس کا مطلب ہے کہ وفاقی کابینہ میں ایسے وزیر موجود ہیں جو وزیر اعظم کی پالیسی سے اتفاق نہیں کرتے۔ ابھی یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ ان کی اپنی پالیسی کے خلاف ان کے اپنے ایک وزیر کے اس بیان پر ان کا رد عمل کیا ہے؟ ان کی خاموشی سے تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ اپنے وزیر کو ناراض کرنا نہیں چاہتے‘ اور ان کا وزیر جو کہہ رہا ہے وہ اس پر عمل درآمد کے لیے تیار ہیں۔ وزیر اعظم کی یہی خاموشی تنگ نظر جماعتوں کو تقویت پہنچا رہی ہے جنہوں نے ہنگاموں سے پورے پاکستان کو یرغمال بنا رکھا تھا۔ اس سے تو یہی اندازہ ہوتا ہے کہ خان صاحب کی اپنی پالیسی بھی وہی ہے یا پھر وہ ان عناصر کو ناراض نہیں کرنا چاہتے جنہوں نے پاکستانی معاشرے کو تنگ نظر اور انتہا پسندی کے راستے پر گامزن کر رکھا ہے۔ اس کی وجہ سے بھی ان رجعتی عناصر کو اپنی طاقت بڑھانے کا موقع مل رہا ہے اور پورے معاشرے میں ان کے گروہ پھیلتے جا رہے ہیں۔
پچھلے دنوں پہلے ایک صاحب نے سوال کیا کہ دینی معاملات میں عمران خاں کی حکومت میں اور ضیاء الحق کی حکومت میں کیا فرق ہے؟ اس کا جواب یہ دیا گیا کہ اکثر معاملات میں دونوں حکومتوں میں صرف اتنا فرق ہے کہ ضیاء الحق کی حکومت آمرانہ حکومت تھی اور ایک آمر مطلق حکمراں تھا اور آج عمران خاں کی حکومت ایک منتخب حکومت ہے اور عام انتخابات میں عوام کے ووٹوں سے برسر اقتدار آئی ہے۔ مذہبی معاملات میں عام پالیسی دونوں حکومتوں کی ایک جیسی ہی لگتی ہے۔ ضیاء الحق کی حکومت بھی اپنی حکمرانی کی جڑیں مضبوط کرنے کے لیے مذہب کا سہارا لیتی تھی اور آج عمران خاں کی حکومت بھی اسی کا سہارا لیتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں رجعتی عناصر طاقت ور ہوتے جا رہے ہیں۔ آپ اس کا اندازہ اس حقیقت سے لگا لیجئے کہ ہمارے نام نہاد دانشور حلقوں میں کس قسم کی بحث کی جا رہی ہے‘ دنیا مریخ پر پہنچ گئی ہے اور ایک ملک کے سائنس داں اس بات پر خوشی منا رہے ہیں کہ ان کا منی ایچر ہیلی کاپٹر مریخ کی سطح پر پرواز کر رہا ہے۔ اور ہم ان مسائل پر باتیں کر رہے ہیں دنیا جن کا صدیوں پہلے فیصلہ کر چکی ہے۔ اس وقت ہمیں آئی اے رحمن اس وجہ سے یاد آئے ہیں کہ ان کے بعد ہمارے درمیان ایسا کوئی شخص بھی نظر نہیں آتا جس سے رہنمائی کے لیے ہم اُس کی طرف دیکھ سکیں۔ ہماری بائیں بازو کی جماعتوں کی خرابی یہ ہے کہ وہ متحد ہو کر کام نہیں کر سکتیں۔ ہر گروپ اپنی الگ ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بنانے کی کوشش کرتا ہے۔ کئی مرتبہ کوشش کی گئی کہ انہیں متحد کیا جائے لیکن کامیابی نہیں ہوئی ۔ لیکن اس کا مطلب یہ بھی نہیں ہے کہ ان حالات میں ہمیں مایوس ہو جانا چاہیے؟ رحمن صاحب کی ساری زندگی اس مایوسی کے خلاف جدوجہد کرتے ہی گزری ہے۔ انہوں نے ہمیں راستہ دکھایا ہے کہ مشکل حالات میں ہمیں مایوس نہیں ہونا چاہیے۔ اب ہماری امیدیں ان نوجوانوں سے بندھی ہیں جو اپنے طور پر یا ایچ آر سی پی کے پلیٹ فارم سے اسی مقصد کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں جس مقصد کے لیے رحمن صاحب نے اپنی ساری زندگی وقف کر رکھی تھی۔ کئی چھو ٹے چھوٹے گروپ رحمن صاحب کا مشن آگے بڑھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ بہرحال اگر ہم نے بڑھتی ہوئی رجعت پسندی کا کوئی حل تلاش نہ کیا تو ہمارا پورا معاشرہ تنگ نظر ہو جائے گااور انتہا پسند عناصر کی مٹھی میں آ جائے گا۔ یوں ہمیں ہر روز وہ تماشا دیکھنے کو ملے گا جو ہم پچھلے دنوں دیکھ چکے ہیں۔