ایک زمانے سے ہم ایک بہت ہی پرانی پاکستانی فلم کی تلاش میں ہیں۔ کیا ا س تلاش میں آپ ہماری مدد کر سکتے ہیں؟ یہ کالم اسی در خواست کے ساتھ لکھا جا رہا ہے ۔ یہ فلم 1950ء کی دہائی میں سید امتیاز علی تاج نے بنائی تھی اور اس میں اردو کے مشہور و معروف مزاح نگار شو کت تھانوی نے بھی کام کیا تھا۔ یہ فلم اردو زبان کی مشہور مثنوی ''زہرِ عشق‘‘ پر بنائی گئی تھی۔اس زمانے کے بہت ہی مشہو ر اور کامیاب میوزک ڈائریکٹر ماسٹر غلام حیدرنے اس میں موسیقی دی تھی۔ اس فلم کے ساتھ ہماری اتنی خوشگوار یادیں وابستہ ہیں کہ دیکھ لیجئے اتنے عرصہ اور اتنی عمر گزارنے کے بعد اب بھی وہ یاد آتی رہتی ہے۔ اب ہم یہ بھی بتادیں کہ یہ یاد اس فلم سے متعلق اتنی نہیں ہے جتنی اس فلم میں مثنوی گانے والوں‘بلکہ مثنوی پڑھنے والوں سے ہے۔ ہم پورے وثوق کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ اُس وقت تک ملکہ ترنم نور جہاں نے پہلی بار کسی فلم میں گانا گا یا ہو گا اور وہ بھی کسی دوسرے گانے والے کے ساتھ۔ ان کے ساتھ ہمارا یار خلیل احمد تھا۔ خلیل احمدنے اُس وقت تک فلموں میں گا نا نہیں شروع کیا تھا۔ وہ ایک معروف ٹوبیکو کمپنی میں کام کرتا تھا اور ریڈیو پاکستان سے گاتا تھا۔ فلم ''زہر عشق‘‘ کی انفرا دیت یہ بھی ہے کہ اس فلم میں خلیل احمد نے نو رجہاں کے ساتھ پہلا اور آخری گا نا گایا تھا۔ اُس زمانے میں ایک اور صاحب ہوتے تھے ۔ انہیں سب سائیں اختر کہتے تھے۔ بہت ہی بلند اور کراری آواز تھی ان کی۔ اب یہ تو یاد نہیں کہ وہ فلموں میں گا تے بھی تھے یا نہیں لیکن اس فلم میں انہوں نے مثنوی کی دھن کے ساتھ فلک شگاف آوازیں لگا ئی تھیں۔ ان بلند بانگ آوازوں نے اس فلم میں مثنوی کی گائیکی کا انگ دو بالا کر دیا تھا‘ لیکن اس فلم کے ساتھ ہماری وابستگی کی صرف یہی وجہ تونہیں تھی بلکہ اس کی ایک وجہ تو یہ تھی کہ اس میں ہمارے دوست خلیل احمد نے نور جہاں کے ساتھ (شاید پہلی اور آخری بار) گایا تھا۔ دوسری وجہ یہ تھی کہ اس فلم میں سید امتیاز علی تاج کا اسسٹنٹ ہمارا دوسرا دوست قمر زیدی تھا۔ یہ قمر زیدی بھی بعد میں مشہور فلم ڈائریکٹر بنا اور اس نے کئی کامیاب فلمیں بنا ئیں۔ بعد میں وہ لاہور سے کراچی چلا گیا تھا۔ اس کے علاوہ ہماری زندگی میں بھی یہ پہلا موقع تھا کہ ہم کسی فلم سٹوڈیو میں گئے تھے ‘اور وہاںفلم بنتے دیکھی تھی ۔
ظاہر ہے یہ ہماری نو جوانی کے دن تھے۔ اُن دنوں ہم میکلوڈ روڈ پر ایک دو منزلہ عمارت میں رہتے تھے ۔ اس میں ایک کمرہ سب سے اوپر تھا‘وہاں کمرہ اور دالان قسم کی جگہ تھی ‘اس میں شرف الدین صاحب اپنی بیگم کے ساتھ رہتے تھے۔ نیچے تین کمرے تھے ‘ایک کمرے میں ہم اور ہمارے ساتھ عطا اللہ خاں رہتے تھے۔ دوسرے کمرے میں شرف الدین خا ں کے عزیز تھے جو علی گڑھ یو نیورسٹی سے وکا لت کی ڈگری لے کر آئے تھے اورپنجاب میں وکالت کر نے کیلئے یہاں کے قوانین کا مطا لعہ کر رہے تھے ۔تیسرے کمرے میں خلیل احمد اور قمر زیدی کی جوڑی رہتی تھی ۔ لیکن اس وقت تک کو ئی بھی اپنے فن میں معروف نہیں ہوا تھا‘اس لئے ان سب کی دھما چوکڑی ہمارے کمرے میں ہی جمی رہتی تھی۔ ہمیں جو شاہ نور سٹو ڈیو جانے اور سید امتیاز علی تاج کو فلم ڈائریکٹ کرتے دیکھنے کا موقع ملا تھا وہ ان کی ہی مہربانی تھی۔
لیکن ہم تو اس فلم کے بارے میں بات کر رہے تھے کہ آخر وہ فلم گئی کہاں؟ وہ ایسی گئی گزری فلم بھی نہیں تھی کہ اس طرح اسے دماغ کے پردے سے صاف کر دیا جا تا۔ ایک تونو ر جہاں اور خلیل احمد کی مثنوی گائیکی کا انداز‘اوپر سے سائیں اختر کی بلندوبالا آواز (بلکہ آہ و زاری) پورے ما حول کو لرزا دیتی تھی۔ ہم نے بعد میں وہ فلم نہیں دیکھی لیکن فلم سازی کے وقت جس طرح شو کت تھانوی پالکی سے اترتے ہیں وہ منظر ہماری آ نکھوں میں نقش ہو گیا ہے ۔ تو یہ سب کہاں گیا؟اور ہاں‘ ہماری درخواست پر سید امتیاز علی تاج کے دا ماد اور مشہورو معروف ڈرامہ اور سٹیج آرٹسٹ نعیم طاہر بھی ( بقول ان کے) پاکستان اور ہندوستان کے تمام فلم سٹو ڈیوز اور ڈسٹری بیوٹروں کے کنویں کھنگال چکے ہیں۔ وہ ممبئی تک ہو آئے ہیں لیکن ابھی تک انہیں بھی کا میابی نصیب نہیں ہو ئی ہے۔ انہوں نے سید امتیاز علی تاج کی ایک ایک چیز جمع کر رکھی ہے۔ اگر ان کے پاس نہیں ہے تو صرف وہی فلم نہیں ہے جس کا نام گلنار تھا‘بلکہ گلنار ہے ۔ اب یہاں گلنارکا تماشا بھی پڑھ لیجئے۔اس فلم کے پرو ڈیوسرسید شوکت حسین رضوی تھے۔ وہ فلم سٹو ڈ یو کے مالک بھی تھے۔ کہتے ہیں جب وہ بمبئی میں تھے تو ان کی کئی فلمیں ایسی کامیاب ہو ئی تھیں جو اِن کے ذہن پر سوار ہو گئی تھیں اور انہیں یہ وہم ہو گیاتھا کہ جس فلم کے نام کا تیسرا حرف 'ن ‘ہو گا وہ ضرور کامیاب ہو گی ؛چنانچہ انہوں نے لاہور آکر جو فلم سٹو ڈیو بنایا اس کا نام بھی اسی لیے گلنار رکھا کہ اس کا تیسراحرف 'ن‘ تھا۔
آئیے ہم ایک بار پھر اپنی اصل گزارش کی طرف آ جا ئیں۔ہمیں یہ معلوم کر نا ہے کہ سید امتیاز علی تاج کی یہ فلم گئی تو کہاں گئی؟ وہ ہمارا تاریخی اور ثقافتی ورثہ ہے۔ کیا اسے تلاش کر نا ہمارا فرض نہیں ہے؟ کہنے کو تو مثنوی زہر عشق پر ہمارے ہاں کئی الٹی سیدھی فلمیں بنائی گئی ہیں لیکن وہ سید امتیاز علی تاج کی فلم تھی اور اس میں سب سے بڑی تاریخی حقیقت تو یہ ہے کہ ملکہ ترنم نور جہاں اور بعد میں پاکستانی فلموں کے نہایت ہی مقبول میوزک ڈائریکٹرخلیل احمد نے پہلی اور آخری بار مل کر گا نا گا یا تھا‘ اور ہاں ابھی ابھی یاد آیا کہ اگر وہ فلم نایاب ہو چکی ہے تو جو مثنوی اس میں گائی گئی تھی اس کی ریکارڈنگ تو کہیں نہ کہیں مو جود ہو گی۔ ہم شر مندہ ہیں کہ یہ درخواست ہم آپ سے ( یعنی پاگل پن کی حد تک فلم دیکھنے والوں سے) بار بار کر رہے ہیں۔ آپ جانتے ہی ہوں گے آپ کی زندگی میں کئی واقعات اور کئی باتیں ایسی ہو تی ہیں جو دماغ کے کسی گوشے میں اٹک جاتی ہیں اور پھر رہ رہ کر آپ کو تنگ کرتی رہتی ہیں۔ فلم گلنار‘ اس کی فلم سازی اور اس میں نورجہاں اور خلیل احمد کی آوازیں‘ہمیں تنگ کرتی رہتی ہیں ۔ہم جو یہ بار بار اپنی تلاش میں دوسروں کو شامل کر نے کی در خواستیں کرتے رہتے ہیں اسے بھی ہمارا پاگل پن ہی سمجھ لیجئے ۔لیکن ہماری مدد ضرور کیجئے ۔ ابھی ہمارے ہاں ایسے لوگ تو موجود ہوں گے جنہوں نے یہ فلم دیکھی ہو گی۔یہ بات ہم اتنے وثوق کے ساتھ اس لئے کہہ رہے ہیں کہ ہمارے ہاں ایسی پرانی ہڈیاں ابھی ضرور موجود ہوں گی۔ اب آپ اس مثنوی کے وہ دوتین شعر بھی آخر میں پڑھ لیجئے جو ہماے سر اور سینے پر سوار رہتے ہیں۔ یہ ہمارا ذاتی المیہ بھی بن گئے ہیں ۔ تو جناب وہ مثنوی اس طرح شروع ہوتی ہے:
جس محلے میں تھا ہمارا گھر
اس میں رہتا تھا ایک سوداگر
اور خاتمہ اس کا یوں ہوتا ہے۔
جو بھی دیکھے گا خوب روئے گا
آگے پیچھے جنازہ ہوئے گا
اور؎
موت سے کس کو رَست گاری ہے
آج وہ کل ہماری باری ہے
نعیم طاہر نے تو بہت محنت اور تگ ودو کر لی۔ وہ کہتے ہیں کہ شاید اس کا پرنٹ کہیں جلا یا گیا ہو گا‘ لیکن کیا کوئی اور صاحب بھی اس طرف تو جہ فرمائیں گے؟ ایک بار پھر یاد کر لیجئے کہ یہ ہمارا کھویا ہوا خزانہ ہے ۔یہ ہماری تاریخ ہے ‘یہ ہمارا قومی ورثہ ہے ۔