"MAC" (space) message & send to 7575

کل کا جھر لو آج کے کتنے ارب؟

چیئرمین سینیٹ کے الیکشن کے بعد ایک صاحب نے نہایت ہی معصومانہ انداز میں سوال کیا ''اب کیا ہوگا؟‘‘ ہم نے کہا: وہی ہو گا جو عمران خاں کو منظور ہو گا۔ آپ دیکھتے نہیں پچھلے دو ڈھائی سال میں وہی ہو تا آ رہا ہے جو عمران خاں چاہتے ہیں۔ عمران خاں نے کہا اوپن بیلٹ ہونا چاہیے۔ اوپن بیلٹ تو نہیں ہوا لیکن یوسف رضا گیلانی کے پورے سات ووٹ مسترد کر دیے گئے۔ کیوں؟ اس لئے کہ پریزائیڈنگ افسر کے بقول غلط جگہ مہر لگی تھی۔ اب پریزائیڈنگ افسر صاحب کہتے ہیں کہ یہ یوسف رضا گیلانی کے ساتھ شرارت کی گئی ہے۔ حیرت کی بات ہے کہ یہ شرارت کسی اور کے ساتھ نہیں کی گئی۔ صرف یوسف رضا گیلانی کے ساتھ کی گئی ہے۔ اب یہاں ہمارے وزیر اطلاعات اور احمد فراز کے صاحب زادے شبلی فراز کا وہ بیان بھی یاد کر لیجے جو ایک دن پہلے ہی انہوں نے دیا تھا۔ انہوں نے برملا اعلان کیا تھا کہ اب ہم بھی جہاں تک جا سکتے ہیں‘ وہاں تک جائیں گے یعنی جو بھی حرکت ہم کر سکتے ہیں‘ وہ کریں گے۔ اور وہ حرکت ہو گئی۔ عمران خاں کئی دن سے بار بار یاد دلا رہے تھے کہ اس الیکشن میں کروڑوں اور اربوں کا کھیل چل رہا ہے۔ اگر وہ واقعی بالکل سچ کہہ رے تھے تو پھر یہاں کیا ہوا ہو گا؟ یقینا اس میں بھی اتنا ہی سرمایہ لگا ہو گا۔ یا اگر سر مایہ نہیں لگا ہو گا تو کوئی اور ''جھرلو‘‘ چلا ہو گا۔ اس جھرلو پر ہمیں یاد آیا کہ یہ لفظ پاکستان کے سب سے پہلے الیکشن میں استعمال کیا گیا تھا۔ یہ الیکشن تھا مسلم لیگ کے کر مانی صاحب اور مزدور لیڈر مرزا محمد ابراہیم کے درمیان۔ صاف ظاہر تھا کہ مرزا ابرہیم کا پلڑا بھاری تھا لیکن وہ ہار گئے اور کرمانی صاحب جیت گئے۔ اس موقع پر ہی اخباروں نے لکھا تھا کہ اس الیکشن میں ''جھرلو‘‘ چل گیا ہے۔ اس کے بعد اس موقع پر دوسرے لفظ تو بہت سننے میں آئے لیکن جھرلو کا لفظ سننے میں نہیں آیا۔ دراصل اس عرصے میں ''جھرلو‘‘ کی جگہ اور ایسے ہی چٹ پٹے لفظ ایجاد ہو گئے ہیں کہ اب جھرلوکی ضرورت ہی نہیں رہی۔ نیا نیا پا کستان بنا تھا‘ لٹے پٹے مہاجرین پاکستان آئے تھے۔ ان کے پاس خرچ کرنے کوکیا تھا؟ یا اگر مقامی سیاست داں بھی تھے تو ایک دو کے پاس ہی خاندانی سر مایہ تھا۔ الیکشن لڑنے والے امیدوار بھی کسی نہ کسی گروہ میں شامل تھے لیکن ان کی پیٹھ پر بھی کسی خاندانی یا گروہی سرمایہ کا بوجھ نہیں تھا۔ اس لئے کسی بڑے کھاتے پیتے خاندان کے ساتھ ان کی وابستگی کافی ہو تی تھی۔ جیسے ممتاز دولتانہ یا ممدوٹ۔ اس زمانے میں ہم تو یہ دونوں نام ہی سنتے تھے۔ البتہ ایک آواز اور بھی تھی اور وہ تھی میاں افتخار الدین کی۔ وہ تنہا حقیقت پسندانہ آواز تھی۔ جب متروکہ جا ئیدادوں کی لوٹ مار ہو رہی تھی تو واحد شخص تھا جس نے ان جا ئیدادوں کے بارے نہایت ہی معقول تجویز پیش کی تھی لیکن اس افراتفری میں اس معقول شخص کی آواز کون سنتا۔ سب لوٹ مار میں پھنسے ہو ئے تھے۔ میاں افتخار الدین نے اسی لیے وزارت چھوڑ دی تھی۔ اس کے بعد جو ''لوٹ سیل‘‘ شروع ہو ئی ہے اس نے بے شمار لو گوں کو لکھ پتی بنا دیا۔ (اس زمانے میں لکھ پتی ہونا ہی بہت بڑی بات تھی۔ ارب اور کھرب کا تو کوئی سوچ ہی نہیں سکتا تھا)۔ آج اگر عمران خاں اربوں اور کھربو ں کی بات کرتے ہیں توغلط نہیں کرتے۔ وہ آج کے زما نے کی بات کرتے ہیں‘ یہاں ہمیں اپنے مربیّ اور شاعر احمد ندیم قاسمی یاد آ گئے۔ وہ روزنامہ امروز میں ''عنقا‘‘ کے نام سے کالم لکھا کرتے تھے۔ جیسا کہ ہم نے عرض کیا اُس زمانے میں پچاس ہزار بہت بڑی رقم ہوتی تھی۔ اسی زمانے میں کہیں پچاس ساٹھ ہزار یا لاکھ روپے کا ذکر آ گیا تھا‘ قاسمی صاحب نے لکھا: یہ لوگ ہزاروں لاکھوں کی بات کرتے ہیں‘ ہمارا حال تو یہ ہے کہ آج تک ہم نے اکٹھے پچاس ہزار روپے نہیں دیکھے۔ اور آج آپ ایک وڈیو میں کروڑوں اور اربوں روپے کی گڈیاں دیکھ رہے ہیں جیسے کوئی کباڑی اپنی پرانی چیزوں کا ڈھیر لگا رہا ہو۔ ایک صاحب یہ کروڑوں روپے کی گڈیاں ایک دوسرے کو دے رہے ہیں اور دوسرے صاحب انہیں اپنے بیگ میں رکھتے جا رہے ہیں۔ تماشا تو یہ ہے کہ وہاں ایک خاتون بھی تشریف فرما ہیں۔ وہ بڑی احتیاط کے ساتھ کروڑوں روپے کی گڈیاں گن رہی ہیں۔ ہمیں تو حیرت یہ ہو رہی ہے کہ ان روپوں کی گڈیاں دینے والے اور بیگ میں رکھنے والوں کا کہیں نام تک نہیں حتیٰ کہ ان خاتون کا بھی کہیں ذکر نہیں آیا۔ ذرا سو چ لیجے‘ کوئی اور ''مہذب‘‘ ملک ہوتا تو اب تک اس کا سراغ لگا لیا گیا ہوتا اور یہ لوگ اپنے گھروں کے بجائے کہیں اور ہوتے‘ مگر ہمارے ہاں تو ایک اصطلاح چلتی ہے کہ اس کی تحقیقات کیلئے کمیشن یا کمیٹی بنا دی جا ئے گی۔ اور یہ سمجھ لیجے کہ جو جرم کمیشن یا کمیٹی میں گیا وہ پھر اندھیرے کنویں میں چلا گیا۔ ظاہر ہے یہ سارا کام کر نے والے کسی کے بھئیے بھتیجے ہی ہوں گے۔ بھلا وہ اپنے پیاروں کو اس مصیبت میں کیوں ڈالیں گے۔ یہ ساری باتیں ہم نے اس لئے عرض کی ہیں کہ اگر عمران خاں واقعی ان لوگوں پر ہاتھ ڈالنا چاہتے ہیں تو لگے ہاتھوں پہل یہیں سے کیجے۔ معلوم ہو جائے گا کہ یہ کون لوگ تھے۔ اس کے ساتھ ہی یہ بھی پتا چل جائے گا کہ یہی لوگ تھے اور یہی لوگ ہیں جنہوں نے یہ روایت ڈالی ہے۔
لیکن ہمارے شبلی فراز صاحب نے ایک ہی محاورہ سیکھا ہے‘ اور وہ ہے ''عطائے تو‘ بلقائے تو‘‘ یعنی تم نے جو تحفہ دیا ہے وہ واپس تمہارے ہی منہ پر۔ جب کہا گیا کہ اسمبلی کے ہال میں کیمرے کس نے لگائے تھے؟ تو ارشاد ہوا کہ آپ نے ہی لگائے ہوں گے۔ اب بھلا بتائیے اس ہال کا انتظام کس کے پاس ہے؟ دوسرا کوئی وہاں پر تک نہیں مار سکتا۔ ادھر ہمارے دوسرے وزیر فواد چودھری مطالبہ فر ما رہے ہیں کہ کیمروں کا معاملہ تو طے ہوتا رہے گا پہلے تو ان لوگو ںکو اس کا خرچہ پورا کرنا چاہیے جنہوں نے وہاں سے وہ کیمرے اکھاڑ ے ہیں یعنی یہاں لینے کے دینے پڑ گئے۔ اصل جرم یہ نہیں ٹھہرا کہ وہاں کیمرے کیسے پہنچے اور کس نے لگائے بلکہ اصلی جرم یہ ہے وہ کیمر ے کس نے اتار ے۔ اسے کہتے ہیں ماروں گھٹنا پھوٹے آنکھ۔ اس سے تو یہ ثابت ہوا کہ ان کیمروں کا معاملہ تو غتربود ہو گیا۔ نہ کوئی تحقیقات ہوں گی اور نہ کوئی اس کا ذمہ دار ٹھہرایا جائے گا۔
اچھا چلئے کیمروں کا معالہ تو اندھے کنویں میں چلا گیا۔ اب ان ووٹوں کی بات کیجے جو خراب ہوئے یا خراب کئے گئے۔ پریزائیڈنگ افسر تو پورے ہال کو بار بار یہ ووٹ دکھا کر ثابت کر رہے تھے کہ یہ ووٹ جان بو جھ کر خراب کئے گئے ہیں۔ اب یہ تو الیکشن کمیشن ہی طے کرے گا کہ واقعی یہ ووٹ خراب تھے یا مہر ذرا سی غلطی سے ادھر ادھر ہو گئی تھی۔ آپ یہاں یہ بھی یاد رکھئے کہ پریزائیڈنگ افسر حکومت کی جماعت سے تعلق رکھتے ہیں۔ انہوں نے یہ فیصلہ بھی سنا دیا ہے کہ پارلیمنٹ کے فیصلے کے خلاف کسی عدالت میں بھی نہیں جایا جا سکتا۔ یہ پریزائیڈنگ افسر صدر پاکستان نے مقرر کئے تھے۔ بہرحال یوسف رضا گیلانی کے جو ووٹ پریزائیڈنگ افسر کی رائے میں جان بوجھ کر خراب کئے گئے ہیں ان کا فیصلہ ضرور ہونا چاہیے۔
تو صاحب ہم چلے تھے اپنے زمانے کے جھرلو سے اور پہنچ گئے یوسف رضا کے خراب ووٹوں تک۔ اگر عمران خاں کہتے ہیں کہ اس الیکشن میں کروڑوں کا لین دین ہوتا ہے تو انہیں یہ بھی معلوم کرنا چاہیے کہ یوسف رضا گیلانی کے جو ووٹ ضائع کئے گئے ہیں ان میں کتنے کروڑ کتنے اربوں کا لین دین ہوا؟ یا پھر پرانے زمانے کے انتخابات کی اصطلاح میں‘ کیسے دھونس اور دھاندلی چلی؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں