"MAC" (space) message & send to 7575

کل اور آج‘ اور ایک ہنرمند کی حوصلہ شکنی

انگریزی زبان کا ایک اخبار اپنے پڑھنے والوں کی یاددہانی کے لیے ہر روز آج سے پچاس سال پہلے کے پاکستان کی اور پچھتر سال پہلے کے ہندوستان کی کوئی خاص خبر شائع کرتا ہے۔ پرسوں اس اخبار نے یکم اپریل 1969 کی جو خاص خبر شائع کی‘ وہ آپ بھی پڑھ لیں۔ اس خبر کی سرخی تھی ''اقربا پروری پر چودہ سال قید بامشقت‘‘۔ یہ خبر راولپنڈی سے ہے۔ ''چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر نے آج چار نئے مارشل لا ضابطے جا ری کئے ہیں۔ ان میں سے ایک ضابطے کے تحت اقربا پروری پر چودہ سال قید بامشقت کی سزا دی جائے گی۔ دوسرے تین ضابطے سرکاری اہلکاروں کو دانستہ طور پر غلط اطلاع دینے، کسی کی نقالی کرنے اور کرپشن کی بعض وارداتوں پر سزا دینے سے متعلق ہیں۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ ان واقعات کی اطلاع دینے والے کو انعام دیا جائے گا۔ دریں اثنا لاہور سے یہ خبر دی گئی ہے کہ لاہور کے اسمبلی چیمبرز کے مارشل لا ہیڈ کوارٹرز ''زون اے‘‘ میں شکایات کا مرکز قائم کر دیا گیا ہے، جہاں کرپشن، انتظامی بدعنوانی، مقدمات کے فیصلوں میں بلا وجہ تاخیر، خوف و ہراس پھیلانے اور اس قسم کے دوسرے معاملات کے بارے میں شکایت درج کرائی جا سکے گی۔ یہ انتظام صوبائی سطح پر کئے گئے ہیں۔ عوام کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ ایسی شکایات درج کرائیں جو واقعتاً سچی ہوں اور جن کے لیے مارشل لا حکام کی توجہ ضروری ہو۔ ایسے مقدمات جو پہلے ہی عدالتوں میں زیر سماعت ہوں یا عدالتوں نے جن کا فیصلہ کر دیا ہو‘ وہ اس مرکز میں نہ بھیجے جائیں۔ خاندانی جھگڑوں، گروہی رقابت اور دیوانی قوانین کے تحت آنے والے مقدمے مرکز کو نہ بھیجے جائیں۔ ان افراد کو سخت سزا دی جائے گی جو سرکاری اہلکاروں کے خلاف غلط، بغض و عناد پر مبنی، جعلی اور جھوٹے الزام لگائیں گے‘‘۔ یہ یحییٰ خان کا مارشل لا تھا۔ ایوب خاںکے مارشل لا کی طرح اس حکومت میں بھی کرپشن کے خلاف سخت اقدام کئے گئے تھے۔ حتیٰ کہ تین سو تین سرکاری افسروں کو بھی ملازمت سے نکال دیا گیا تھا۔ اب آپ اس خبر سے جو بھی نتیجہ نکالنا چاہیں نکال لیں۔ ہمارا کام تو آپ تک آج سے پچاس سال پہلے کی ایک خبر پہنچانا ہے۔ جس کرپشن کا چکر ایبڈو اور پروڈا سے ہوتا ہوا جنرل مشرف کے قائم کئے ہوئے احتسابی ادارے تک جاتا ہے‘ اس چکر سے ہمیں ابھی تک نجات نہیں ملی۔ کرپشن ہے کہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی۔ 
اچھا اب اخباری خبروں کا ذکر آ ہی گیا ہے تو منگل کے دن شائع ہونے والی ایک اور خبر بھی پڑھ لیجئے اور اندازہ لگائیے کہ ہم ہنرمند اور ہونہار پاکستانیوں سے کیا سلوک کرتے ہیں۔ خبر یہ ہے ''پیر کے دن پاک پتن میں عارف والا کے ایک شخص کو اپنا بنایا ہوا ہوائی جہاز اڑانے پر تین ہزار روپے جرمانے کی سزا دی گئی۔ اتوار کے دن سب انسپکٹر شوکت علی کی شکایت پر پولیس نے ایک گائوں کے رہنے والے محمد فیاض کے خلاف ایف آئی آر درج کی۔ سب انسپکٹر شو کت علی کا بیان ہے کہ اسے اطلاع ملی کہ فلاں جگہ کم سے کم پانچ سو آدمی اکٹھے ہیں۔ وہاں ایک آدمی اپنا بنایا ہوا چھوٹا جہاز اڑا رہا ہے اور وہ تارکول کی پکی سڑک کو ''رن وے‘‘ کے طور پر استعمال کر رہا ہے۔ وہاں وہ کئی بار اپنا جہاز اڑا چکا ہے۔ سب انسپکٹر کا خیال تھا کہ اس سے حادثہ بھی ہو سکتا ہے اس لئے پولیس نے فیاض کو گرفتار کر لیا۔ اس کا جہاز، جنریٹر‘ بارہ واٹ کی بیٹری اور پلاسٹک کے ڈبے قبضے میں لے لیے۔ پھر فیاض کو تین ہزار روپے جرمانہ کر کے چھوڑ دیا گیا۔ یہ خبر پڑھ کر آپ کیا سوچیں گے؟ یہی ناں کہ وہ شخص قانون کی خلاف ورزی کر رہا تھا‘ اور وہی کچھ کیا جانا چاہئے تھا‘ جو قانون کے تحت کیا گیا۔ لیکن اس خبر کا ایک اور پہلو بھی تو ہے۔ اور وہ ہے انسانی پہلو۔ فیاض نے اخبار والوں کو بتایا کہ وہ ایک غریب خاندان سے تعلق رکھتا ہے۔ اس نے میٹرک کیا ہے۔ اس سے آگے وہ پڑھ نہیں سکا۔ اپنے بیمار والد کے علاج کے لیے اسے اپنی موروثی زمین فروخت کرنا پڑ گئی تھی۔ پھر بھی والد زندہ نہ رہ سکے۔ اس کا خواب تھا کہ وہ ائیر فورس میں جائے مگر نہ جا سکا۔ وہ رات کو چوکیدار کی نوکری کرتا تھا اور دن میں ایک دکان چلاتا تھا۔ اسے مشینیں بنانے کا شوق تھا۔ شروع میں اس نے ہیلی کاپٹر بنانے کی کوشش کی مگر کمزور انجن کی وجہ سے وہ کامیاب نہ ہو سکا؛ تاہم وہ مایوس نہیں ہوا۔ اس نے ایک پرائیویٹ بینک سے پچاس ہزار روپیہ قرض لیا‘ فیصل آباد سے ہائی پاور انجن خریدا، اور یہ جہاز بنایا۔ اب اس کا جہاز ضبط کر لیا گیا ہے۔ اس کا دعویٰ ہے کہ اگر حکومت اس کی مدد کرے تو وہ جہاز بنا سکتا ہے۔ تو کیا حکومت یا کوئی اور ادارہ اس کے دعوے کی تصدیق کر سکتا ہے؟ اس نے اپنا بنایا ہوا جہاز اڑا کر تو دکھا دیا۔ اس کا مطلب ہے کہ اس میں یہ صلاحیت ہے۔ وہ تکنیکی مہارت رکھتا ہے۔ اب کیا اس کی حوصلہ شکنی کی جانی چاہیے یا حوصلہ افزائی؟ ہمارا سوال یہ ہے۔ 
اب تھوڑی سی تفریح۔ آپ کو نوید ریاض یاد ہیں؟ جن دنوں ہمارے ہاں صرف ایک ہی ٹی وی چینل ہوتا تھا اور اس چینل پر یادگار ڈرامے پیش کیے جاتے تھے، نویدریاض ان ڈراموں میں نظر آتے تھے۔ ضیا محی الدین کے خاندان سے ان کا تعلق ہے۔ اس خاندان نے اردو زبان اور ادب کی جو خدمت کی ہے وہ ہمارے سامنے ہے۔ آج کل ہمارے ٹی وی چینلز پر جو تماشے ہو رہے ہیں، نوید ریاض نے اس پر ایک چھوٹی سی تحریر بھیجی ہے۔ آپ بھی پڑھ لیجئے۔
'' بریکنگ نیوز... ناظرین ابھی ابھی خبر موصول ہوئی ہے کہ گجرات کے ایک نواحی گائوں میں ایک مرغی نے انڈہ دیا ہے۔ اطلاع کے مطابق کچھ دیر پہلے گجرات کے نواحی گائوں میں ایک مرغی نے انڈہ دیا ہے۔ بونگا نیوز کے نمائندے موقع پر موجود ہیں۔ چلیے، ان سے پوچھتے ہیں۔ جی عارف آپ کو کیا نظر آ رہا ہے؟ مرغی نے انڈہ دیا ہے؟ جی محترمہ، ہم یہاں موجود ہیں۔ اب سے کچھ دیر پہلے مرغی نے انڈہ دیا ہے۔ ہم نے علاقے کے ایس ایچ او سے رابطہ کیا ہے۔ انہوں نے تصدیق کی ہے کہ مرغی نے انڈہ دیا ہے۔ جی ناظرین‘ ہم کوشش کر رہے ہیں کہ مرغی سے ہمارا رابطہ ہو جائے۔ عارف یہ بتائیے، آپ کا مرغی کے اہل خانہ سے کوئی رابطہ ہوا ہے؟ کیا کہتے ہیں وہ؟ مرغی نے انڈہ دیا ہے؟ جی، ہم اس وقت مرغی کے چچا کے پاس کھڑے ہیں۔ ان کا بھی یہی کہنا ہے کہ مرغی نے انڈہ دیا ہے۔ اچھا عارف، یہ بتائیے، اس وقت کیا صورت حال ہے؟ مرغی اور انڈہ دونوں کیسے ہیں؟ جی محترمہ‘ اس وقت تمام کاروبار معمول کے مطابق چل رہا ہے۔ مرغی سے ہمارا رابطہ نہیں ہو سکا۔ مگر اطلاعات یہ ہیں کہ دونوں ٹھیک ہیں۔ ہم اپنے ناظرین کو بتاتے چلیں کہ گجرات کے ایک نواحی گائوں میں ایک مرغی نے انڈہ دیا ہے۔ یہ خبر سب سے پہلے ہم نے آ پ تک پہنچائی ہے۔‘‘ اب آپ سیاست اور سیاسی ٹاکروں کو بھول جائیے۔ کیا دوسری خبروں کے سلسلے میں ہمارے اکثر ٹی وی چینلز پر یہی نہیں ہو رہا ہے؟ ایک ایک خبر کو اتنا پیٹا جاتا ہے کہ دیکھنے والوں کی آنکھوں اور دماغ کا بھرکس نکل جاتا ہے مگر ٹی وی چینلز بھی کیا کریں؟ انہیں بھی تو چوبیس گھنٹے کچھ نہ کچھ دکھانا ہوتا ہے۔ پہلے جب ایک ہی چینل تھا تو انتظار فرمائیے کا کتبہ لگا کر کچھ وقت بچا لیا جاتا تھا۔ اب تو یہ بھی نہیں ہو سکتا۔ اب ایک چینل نہیں ہے۔ سینکڑوں چینل آ گئے ہیں۔ مقابلہ سخت ہے۔ کوئی نہ کوئی نئی بات تو بنانا ہی پڑے گی۔ 
ایوب خاںکے مارشل لا کی طرح یحییٰ دور میں بھی کرپشن کے خلاف سخت اقدام کئے گئے تھے۔ جس کرپشن کا چکر ایبڈو اور پروڈا سے ہوتا ہوا جنرل مشرف کے قائم کئے ہوئے احتسابی ادارے تک جاتا ہے‘ اس چکر سے ہمیں ابھی تک نجات نہیں ملی۔ کرپشن ہے کہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں