"MAC" (space) message & send to 7575

میر جی رات گھر گئے شاید

ایک ذہنی انتشار۔ ایک دماغی خلفشار۔ چیزیں جو نظر آتی ہیں۔ اور چیزیں جو نظر نہیں آتیں۔ ڈر ان چیزوں سے لگتا ہے جو نظر نہیں آتیں۔ نظر نہیں آتیں کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ وہ موجود نہیں ہیں۔ وہ موجود ہیں اور ایسے موجود ہیں کہ ہم اپنے دونوں کاندھوں پر ان کی آتشیں سانسیں محسوس کر رہے ہیں۔ وہ ہیں بھی اور نہیں بھی ہیں۔ کچھ سمجھ میں آتا ہے، اور کچھ سمجھ میں نہیں آتا۔ اس کیفیت کو منطق اور فلسفے میں کیا کہتے ہیں؟ یہ ہمیں معلوم نہیں۔ ہم ڈاکٹر ساجد علی سے پوچھ کر بتا سکتے ہیں۔ اس وقت تو ہمیں یاسمین حمید کی ایک نظم یاد آ رہی ہے۔ اس نظم کے چند شعر آپ بھی پڑھ لیجئے:
پوری بات اور پورا قصہ کون لکھے گا
کتنا مشکل تھا یہ رستہ کون لکھے گا
شہر جلا تو کس نے اس کی راکھ سمیٹی
کتنا تھا کس کا سرمایہ کون لکھے گا
گرتی دیواروں میں سانس کہاں تھی باقی
اور کہاں تک بکھرا ملبہ کون لکھے گا
اس حقیقت کو جاننے کے لیے کسی ماہر نفسیات کے پاس جانے کی ضرورت نہیں کہ ہم اپنی انا کے اسیر ہیں۔ ان دنوں ہماری یہ انا کچھ زیادہ ہی موٹی ہو گئی ہے۔ ہم ہیں اور ہمارا آئینہ۔ ''ہم چناں دیگرے نیست‘‘ ایک مذاق کے طور پر استعمال کیا جاتا تھا۔ بعد میں چند دل جلے اصحاب نے اسے ''ہم چناں ڈنگرے نیست‘‘ بھی کر دیا تھا۔ اور پھر گانے بن گئے کہ ہم سا ہو تو سامنے آئے۔ ہمارے بزرگ انسانی نفس کو دو حصوں میں تقسیم کرتے تھے۔ ایک نفس لوامہ اور دوسرا نفس امارہ۔ نفس لوامہ انسان کو برے کام سے رو کتا ہے۔ اور نیک کام کی ترغیب دیتا ہے۔ نفس امارہ برائی کا راستہ دکھاتا ہے اور ظلم و ستم کی ترغیب دیتا ہے۔ خود پرستی اور انانیت کی مثال شیطان کے حوالے سے دی جاتی تھی اور یہ کہہ کر خبردار کیا جاتا تھا:
گیا شیطان مارا ایک سجدے کے نہ کرنے سے
اگر لاکھوں برس سجدے میں سر مارا تو کیا مارا
اور سکھایا جاتا تھا:
بڑا شیطان مارا نفس امارہ کو گر مارا
لیکن آج ہم اسی نفس امارہ کے چنگل میں پھنسے ہوئے ہیں۔ ہماری گردن ہر وقت اکڑی رہتی ہے۔ ہم سینہ پھلا کر چلتے ہیں۔ ہمارے سامنے سب کیڑے مکوڑے ہیں۔ ہم ان کی طرف نظر اٹھا کر دیکھنا بھی اپنی شان کے خلاف سمجھتے ہیں۔ ان سے بات کرنے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ ہوا کرے اپوزیشن لیڈر۔ اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔ جمہوریت گئی بھاڑ میں، چولہے میں۔ جمہوریت؟ کیسی جمہوریت؟ جمہوریت تو وہ ہے جو ہمارے پیچھے پیچھے چل رہی ہے۔ عوام، بالخصوص، وہ عوام جن کی رگوں میں گرم گرم نوجوان خون دوڑتا ہے، وہ ہمارے ساتھ ہیں۔ اس کے بعد ہمیں کسی اور کی ضرورت ہی کیا ہے۔ اگر اردو یونیورسٹی حیدر آباد میں بن رہی ہے، لیکن اس کا سنگ بنیاد اسلام آباد میں رکھا جا رہا ہے تو آپ پریشان کیوں ہوتے ہیں۔ یہ سنگ بنیاد والی بات ہم اپنی طرف سے نہیں کر رہے ہیں۔ جب اردو یونیورسٹی حیدر آباد کی افتتاحی تقریب اسلام آباد میں ہو رہی تھی تو تمام ٹی وی چینل یہی خبر دے رہے تھے ''اردو یو نیورسٹی حیدر آباد کا سنگ بنیاد رکھ دیا گیا‘‘ اب کسی نے ان ٹی وی چینلز کو اسی طرح خبر دی ہو گی تبھی تو انہوں نے یہ پٹی چلائی۔ اس تقریب میں یہ خوش خبری بھی سنائی گئی کہ آئندہ ہم ایم کیو ایم کے ساتھ مل کر الیکشن لڑیں گے۔ ایم کیو ایم کو مبارک ہو۔ انہیں نیا ہم سفر مل گیا۔ وہ تو ابھی تک اسی مخمصے میں تھے۔
چلتا ہوں تھوڑی دور ہر اک تیز رو کے ساتھ
پہچانتا نہیں ہوں، ابھی راہبر کو میں
اب انہیں ایک اور راہبر مل گیا ہے۔ اور انہیں یہ راہبر ملا بھی ہے تو ان کے اپنے ''ٹھیے‘‘ سے سینکڑوں میل دور۔ ان کا راہبر ہمیشہ ان کے ٹھیے سے سینکڑوں اور ہزاروں میل دور ہی ہوتا ہے۔ مگر کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ وہ کب تک اس نئے راہبر کے پیچھے چلتے ہیں۔ اپنے پرانے راہبر کے بعد سے تو وہ کٹی پتنگ کی طرح ادھر ادھر ڈولتے پھر رہے تھے۔ پھر ان کے ٹکڑے ٹکڑے ہو گئے۔ ان میں سے ایک ٹکڑی اسلام آباد تک پہنچ گئی ہے۔ اور وہاں انہیں ''نفیس انسان‘‘ ہونے کا تمغہ بھی عطا کر دیا گیا ہے۔ اب یہ ان کی نفاست کب نزاکت میں بدلتی ہے؟ کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ اس لئے کہ نفاست کے آبگینے کو ٹھیس بھی تو جلدی ہی لگ جاتی ہے۔ اعلان کیا گیا ہے کہ حیدر آباد کی اردو یونیورسٹی میں سائنسی مضامین کے ساتھ صوفیا اور تصوف پر بھی ریسرچ کرائی جائے گی۔ ڈاکٹر مبارک علی، ڈاکٹر طاہر کامران اور ڈاکٹر علی عثمان قاسمی کو تیار رہنا چاہیے۔ یہ مضمون پڑھانے کے لیے انہی کی خدمات حاصل کی جائیں گی۔ ڈاکٹر مبارک علی تو خیر اس موضوع پر پہلے ہی بہت کچھ لکھ چکے ہیں۔ اب طاہر کامران اور علی عثمان کی باری ہے۔ 
آج کل ہمیں یونیورسٹیاں بنانے کی دھن لگی ہوئی ہے۔ ایک یونیورسٹی پہاڑوں میں بھی بنائی جا رہی ہے۔ وہ تو خیر ہو سعودی مہمانوں کی، ورنہ وزیر اعظم ہائوس بھی اب تک یونیورسٹی بن گیا ہوتا۔ یونیورسٹیوں پر یونیورسٹیاں بنانے کا اعلان کیا جا رہا ہے۔ مگر کسی کو یہ یاد نہیں آ رہا کہ ہمارے ہاں تعلیم کا معیار کیوں گرتا چلا جا رہا ہے۔ یونیورسٹیاں بن رہی ہیں مگر ابتدائی تعلیم پر توجہ دینے کی کسی کو فکر نہیں ہے۔ یہ کسی کو خیال نہیں آتا کہ اگر ابتدائی تعلیم ہی کمزور ہو گی تو بچے کالجوں اور یونیورسٹیوں میں جا کر کیا کر لیں گے۔ کالجوں اور یونیورسٹیوں کے اساتذہ کی تنخواہوں کا حساب رکھنے کے لیے ہائر ایجوکمیشن موجود ہے۔ لیکن سکولوں کے اساتذہ کا پرسان حال کوئی نہیں ہے۔ ان کے لیے حکومت کے مالی وسائل بیچ میں آ جا تے ہیں۔ مالی وسائل پر یاد آیا کہ ہمارے وزیر خزانہ نے پاکستانی عوام سے درد مندانہ اپیل کی ہے کہ وہ ڈالر خریدنے کی دوڑ میں زیادہ آگے نہ نکل جائیں۔ اس دوڑ کی وجہ سے ایک تو ڈالر مہنگا ہوتا جا رہا ہے‘ دوسرے اگر اچانک ڈالر سستا ہو گیا تو انہیں بہت نقصان ہو گا۔ اب یہ تو کوئی نہیں جانتا کہ موجودہ حالات میں ڈالر کبھی سستا بھی ہو گا یا نہیں‘ لیکن ہم اتنا جانتے ہیں کہ سرکاری پالیسیوں کی وجہ سے ہی ڈالر آسمان کو چھونے لگا ہے۔ اب ڈالر خریدنے کی بات بھی نہ کیجئے۔ ہمارے جاننے والے کاروباری اصحاب کہتے ہیں کہ آج کل ڈالر بازار سے غائب ہی ہو گیا ہے‘ کیونکہ ڈالر چھپا لیا گیا ہے۔ اور یہ ڈالر چھپانے والے اتنے معصوم اور اتنے سادہ نہیں ہیں کہ ڈالر سستا ہونے کے ڈر سے اسے چھپا لیں۔ وہ جانتے ہیں کہ ڈالر ابھی اور مہنگا ہو گا۔اب وزیر خزانہ کیا کریں گے؟ ہم بار بار مہنگائی کا رونا رو رو کر تنگ آ گئے ہیں۔ اور ہمارا رونا سن سن کر ہمارے پڑھنے والے بھی بیزار ہو گئے ہیں۔ ایک صاحب نے تنگ آ کر ہم سے سوال کیا ہے ''اگر تمہارے بقول عوام کی کمر توڑنے والی مہنگائی ہے تو عوام شور کیوں نہیں مچاتے؟‘‘ اس پر پھر ہمیں میر تقی میر کا ایک شعر یاد آ گیا۔ 
شور بازار سے نہیں اٹھتا
میر جی رات گھر گئے شاید
تو صاحب میر جی گھر چلے گئے ہیں۔ اب شور کون مچائے؟ یہ جتنے بھی میر جی ہیں انہیں اپنی جان اور اپنے مال کی پڑی ہے۔ انہیں ایسے بھنور میں پھنسا دیا گیا ہے کہ وہ اپنی طرف دیکھیں یا عوام کی طرف۔ لیجئے، ذہنی انتشار اور دماغی خلفشار نے ہمارے اس کالم کو بھی پراگندگی کا شکار کر دیا ہے۔ مگر آپ یہ نہ سمجھ لیجئے گا کہ اب تک جو بھی لکھا گیا ہے وہ اسی فکری ژولیدگی کا نتیجہ ہے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں