ذرا گنتی کیجئے۔ ہماری کتنی عیدیں ہوئیں؟ ایک دن میں دو عیدیں تو پختونخوا میں ہوئیں۔ ایک مفتی پوپلزئی کی اور ایک دوسری۔ اور پھر ایک مفتی منیب الرحمن کی عید ہوئی۔ ہمارے ایک دوست نے کہا: ہماری تو عیدیں ہی عیدیں ہیں۔ ہر روز روزِ عید ہے اور ہر شب شبِ برات۔ ہندوستان سے جاوید نقوی صاحب نے عید کے بارے میں نظیر اکبر آبادی کی نظم بھیج دی ہے۔ انہوں نے یہ نظم ناگری رسم الخط میں بھیجی ہے۔ شاید وہ نہیں چاہتے تھے کہ اردو والے بھی اسے پڑھیں۔ یا پھر ان کا خیال ہو گا کہ اردو والے تو پہلے ہی یہ نظم پڑھ چکے ہوں گے۔ لیکن وہ نہیں جانتے کہ اب اردو والوں کو بھی یہ نظمیں نہیں پڑھائی جاتیں۔ مگر یہ بھی تو ہے کہ جب ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارے اکثر ہندوستانی احباب ہمیں بھی ناگری رسم الخط میں پیغام بھیجتے ہیں تو خواہ مخواہ دل پر ایک چوٹ سی پڑتی ہے۔ کیا وہاں ہمارے احباب بھی اردو رسم الخط بھولتے جا رہے ہیں؟ کیا وہ ایک دوسرے تک اپنی بات پہنچانے کے لیے ناگری رسم الخط کا ہی سہارا لیتے ہیں؟ ہم کتنے دور نکل آئے ہیں اس سفر میں؟ کتنا فاصلہ ہو گیا ہے ہمارے درمیان؟ اور یہ فاصلہ بڑھتا ہی جا رہا ہے۔ لیجئے، ہم چلے تھے آپ کو عید پر نظیر اکبر آبادی کی نظم پڑھوانے اور اپنے دل کے پھپھولے پھوڑنا شروع کر دیئے۔ اب نظم پڑھ لیجئے
پچھلے پہر سے اٹھ کے نہانے کی دھوم ہے
شیر و شکر سویاں پکانے کی دھوم ہے
پیر و جواں کو نعمتیں کھانے کی دھوم ہے
لڑکوں کو عید گاہ کے جانے کی دھوم ہے
کوئی تو مست پھرتا ہے جامِ شراب سے
کوئی پکارتا ہے کہ چھوٹے عذاب سے
کلا کسی کا پھولا ہے لڈو کی چاپ سے
چٹخارے جی میں بھرتے ہیں نان و کباب سے
کیسے معانقے کی مچی ہے الٹ پلٹ
ملتے ہیں دوڑ دوڑ کے باہم جھپٹ جھپٹ
پھرتے ہیں دلبروں کی بھی گلیوں میں غٹ کے غٹ
عاشق مزے اڑاتے ہیں ہر دم لپٹ لپٹ
روزے کی سختیوں سے جو ہیں زرد زرد گال
خوش ہو گئے وہ دیکھتے ہی عید کا ہلال
پوشاکیں تن میں زرد، سنہری سفید لال
دل کیا کہ ہنس رہا ہے پڑا تن کا بال بال
روزے کی سختیوں میں نہ ہوتے اگر امیر
تو ایسی عید کی نہ خوشی ہوتی دل پذیر
سب شاد ہیںگدا سے لگا شاہ تا وزیر
دیکھا جو ہم نے خوب تو سچ ہے میاں نظیر
ایسی نہ شب برات نہ بقر عید کی خوشی
جیسی ہر ایک دل میں ہے اس عید کی خوشی
تو جناب یہ ہے نظیر اکبر آبادی کی نظم عید پر۔ اب ہم یہ سوچ رہے ہیں کہ کیا ہمارے ہاں دو دو اور تین تین عیدوں پر بھی کو ئی نظم لکھے گا؟ آج کا نظیر اکبر آبادی کون ہے؟ کوئی ہے؟ ہمیں تو سوائے ظفر اقبال کے اور کوئی نظر نہیں آتا۔ یہ ظفر اقبال ہی ہیں جو ہر موضوع پر طبع آزمائی کرتے رہتے ہیں۔ وہ تو غیر شاعرانہ خیال کو بھی شاعرانہ بنا دیتے ہیں۔ غیر شاعرانہ خیال ہی نہیں بلکہ غیر شاعرانہ الفاظ بھی ان کے ہاں شاعرانہ بن جاتے ہیں۔ لیکن وہ ایسا کیوں کریں گے؟ بیٹھے بٹھائے وہ اس معاملے کو کیوں چھیڑیں گے؟ فواد چودھری تو اپنے موقف پر ڈٹے ہوئے ہیں۔ وہ ابھی تک ایک قدم بھی پیچھے نہیں ہٹے۔ انہوں نے تو محرم اور عاشورہ کی تاریخیں بھی طے کر دی ہیں۔ تسلی ہوتی ہے یہ دیکھ کر ان کے ہم خیالوں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔ آخر ہمیں نئے زمانے میں زندگی گزارنا ہے۔ نئے زمانے کے تقاضوں سے منہ موڑ کر زندہ تو نہیں رہ سکتے ناں۔ لیکن یہاں پھر وہی سوال دھرانے کو جی چاہتا ہے جو سوال ہم پہلے بھی کر چکے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اس سارے قضیے میں فواد چودھری کے لیڈر اور ہمارے وزیر اعظم عمران خان کہاں کھڑے ہیں؟ ان کی جانب سے کوئی ہلکا سا اشارہ بھی نہیں مل رہا ہے۔ چلیے، رفع شر کے لئے ہی سہی، اس سال تو عمران خان کی حکومت نے مفتی منیب الرحمن صاحب کی بات مان لی ہے۔ لیکن آئندہ کیا ہو گا؟ کیا عمران خان یونہی فواد چودھری اور مفتی منیب الرحمن کی بحثا بحثی کا تماشا دیکھتے رہیں گے؟ یا کوئی فیصلہ بھی کریں گے؟ سنا تو یہ بھی ہے کہ پختونخوا میں جب مفتی پوپلزئی نے ایک دن پہلے عید منانے کا اعلان کیا تو عمران خان صاحب نے اس صوبے کے وزیروں کو اشارہ کیا تھا کہ مفتی پوپلزئی کی بات مان لو؛ چنانچہ وہاں صوبائی حکومت کی طرف سے ایک دن پہلے جو عید منائی گئی، وہ وزیر اعظم کی مرضی سے تھی۔
اب عمران خان صاحب کا ذکر آ یا ہے تو ہم آپ کو یہ بھی بتا دیں کہ یہی عمران خان اب اردو افسانوں کا موضوع بھی بنائے جانے لگے ہیں۔ ہمیں تو یاد نہیں کہ ذوالفقار علی بھٹو کے بعد کسی اور سیاسی لیڈر نے اردو‘ انگریزی یا کسی اور زبان کے افسانوی ادب میں جگہ پائی ہو۔ عمران خان نے یہ مقام حاصل کر لیا ہے۔ جی ہاں، عمران خان پر ایک افسانہ لکھا گیا ہے اور وہ افسانہ کراچی کے جریدے ''مکالمہ‘‘ میں چھپا ہے۔ لکھنے والی ہیں سبوحہ خان۔ ہندوستانی فلموں میں ہیرو کو نایک اور ولن کو کھل نایک کہا جاتا ہے۔ اردو میں اس کے لیے کوئی لفظ نہیں ہے۔ ہم انگریزی کی طرح ہیرو کو ہیرو اور ولن کو ولن ہی کہتے ہیں۔ سبوحہ خان کے افسانے کا عنوان ہے ''سانوں نہر والے پل تے بلا کے‘‘۔ اب آپ اس عنوان سے ہی اندازہ لگا لیجئے کہ افسانہ نگار خاتون عمران خان کو کس حیثیت میں پیش کرنا چاہتی ہیں۔ لیکن پورے افسانے میں عمران خان کی سیاست نہیں، ان کی خوبصورتی اور دل ربائی چھائی ہوئی ہے۔ افسانہ نگار کی زبان سے ہی پڑھ لیجئے ''ایک گاڑی کا دروازہ کھلا اور وہ باہر آیا۔ اس نے سفید شلوار قمیص پہنی تھی۔ He was so tall۔ لمبے تو سب ہی ہوتے ہیں۔ اس کا رنگ... او... او... گورے تو سب پٹھان ہی ہوتے ہیں۔ مگر اس کا کومپلیکشن وائو... کالا چشمہ۔ اور پھر اس نے سر اٹھا کر اوپر سٹوڈنٹس کو دیکھا، ایک سحر سا چھا گیا۔ سرگوشیوں میں وائو کی آواز آئی۔ خود اس کو بھی اس بات کا پورا احساس تھا کہ لڑکیاں اس کو دیکھ کر دم بخود ہیں۔ اور پھر وہ مسکرایا۔ اس کی مسکراہٹ... کئی لڑکیوں کے ہاتھوں سے سیل فون چھوٹ کو نیچے گر پڑے۔ And he is sixty years old ایک آواز آئی۔ سکسٹی نہیں سکسٹی فائیو۔ yes., no ...‘‘۔
اور یہ افسانہ اسی طرح چلتا چلا جاتا ہے۔ ذرا سوچئے، کیا اس افسانے سے پاکستانی لڑکیوں یا پاکستانی خواتین کی نفسیاتی کیفیت کا بخوبی اندازہ نہیں ہو جاتا؟ کیا ہوا اگر حالات سنبھلنے میں نہیں آ رہے ہیں۔ کیا ہوا اگر ہم نئی سے نئی مشکل میں پھنستے چلے جا رہے ہیں۔ بھاڑ میں جائے سب۔ ہمارا ہیرو تو ہینڈسم ہے۔ اتنا ہینڈسم کہ اسے دیکھ کر لڑکیوں کے ہاتھ سے سیل فون گر پڑتے ہیں۔ اور ان پر ایسی بے خودی اور بیہوشی طاری ہو جاتی ہے کہ لخلخہ سنگھانے کی ضرورت پڑ جاتی ہے۔ آپ کو یاد ہے ناں۔ پرانی داستانوں میں جب ہیرو یا ہیروئن بیہوش ہو جاتے تھے تو انہیں لخلخہ سنگھایا جاتا تھا۔ یہ لخلخہ کیا ہوتا تھا؟ یہ ہم فارسی کے استاد معین نظامی صاحب سے پوچھ کر بتائیں گے۔ لیکن پھر یہی افسانہ گریز کرتا ہے اور کہتا ہے ''بقیہ لوگوں کی باتوں پر آستینیں چڑھا کر تقریریں کرنے پر ہم نے اپنی جوانی لٹا دی۔ اب آخری وقت میں ہمیں عمران خان کے خد و خال پر ہی فدا تو ہونے دیجئے۔ ابھی تو ستر سال بعد ہم ائیر کنڈیشنڈ کمروں میں بیٹھ کر یہی ثابت کرتے رہے ہیں کہ پاکستان کیوں بنا؟ کیسے بنا؟ مجھ جیسے جاہلوں کی تو یہ سب کچھ سمجھ میں نہیں آتا۔ مجھے تو صرف یہ معلوم ہے کہ نہ جانے کتنی خیرالنسائیں معذور بستر پر پڑی ہیں۔ اس کی دس سالہ پوتی جو کبھی سکول نہیں گئی‘ میرے ہاتھ کی روٹی کو حسرت سے دیکھتی ہے۔ اس کا چرسی باپ چار دن سے گھر سے غائب ہے۔ اس کی کئی نسلیں اسی حال میں ہیں۔ ان کے پاس نہ بجلی ہے نہ گیس ہے۔ چھوڑیں ان سب باتوں کو۔ آئیے محبوب کے خد و خال کی باتیں کریں‘‘۔