ڈرامہ کیا ہوتا ہے؟ اور ڈرامائی صورت حال کیا ہوتی ہے؟ یہی ناں کہ ہر دو قدم پر نیا موڑ آ جاتا ہے۔ نئے حالات کا سامنا ہو جاتا ہے۔ ان میں کچھ حالات ایسے ہوتے ہیں جن کی آپ توقع کر رہے ہوتے ہیں‘ لیکن ایسے حالات بھی پیش آ جاتے ہیں جن کی آپ بالکل توقع نہیں کر رہے ہوتے۔ یہ ڈرامہ اور یہ ڈرامائی صورت حال آپ کو پریشان کرتی ہے۔ اور آپ سوچتے ہیں، کاش ایسا نہ ہوتا۔ ہم سیدھی راہ پر ہی چل رہے ہوتے۔ آج کل ہم کچھ ایسی ہی صورت حال سے دوچار ہیں۔ لیکن ایک ڈرامہ اور ایک کہانی ایسی بھی ہوتی ہے جو آپ کو روحانی تسکین پہنچاتی ہے۔ یہ ڈرامہ اور یہ کہانی تخیلاتی اور تخلیقی سطح پر اپنا اظہار کرتی ہے۔ یہ فنوں لطیفہ کا حصہ ہوتی ہے۔ لیکن لگتا ہے کہ تفریح تو جیسے ہم سے چھین ہی لی گئی ہے۔ ٹیلی وژن پر سیاسی مباحثوں اور مجادلوں نے ٹی وی ڈراموں کا وقت ہضم کر لیا ہے۔ اب شاید گھریلو خواتین ہی جانتی ہوں کہ ہمارے ٹی وی چینلز پر کس قسم کے ڈرامے دکھائے جاتے ہیں۔ چونکہ ہم وہ ڈرامے نہیں دیکھتے اس لئے ہم ان کے بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتے۔ فلم دیکھنا اور اچھی موسیقی سننا ہمارا شوق رہا ہے۔ کسی زمانے میں ہم اچھی بری ہر قسم کی فلم بڑے شوق سے دیکھتے تھے۔ ان دنوں لاہور شہر میں کتنے سینما ہال تھے؟ اس وقت ہم ان کی تعداد بھی نہیں بتا سکتے۔ میکلوڈ روڈ اور ایبٹ روڈ سینما گھروں سے بھرے ہوئے تھے۔ ان سینما گھروں کے بڑے بڑے ہال اور ان میں شور مچانے والے اور سیٹیاں بجانے والے تماشائی، کہ ذرا روشنی گئی اور آوازیں آنا شروع ہو گئیں۔ لائٹ اوئے لائٹ اوئے۔ اس ماحول میں فلم دیکھنے کا اور ہی مزہ تھا۔ ملتان کے ایک سینما ہال میں تو ہم نے یہ بھی دیکھا کہ فلم کے رسیا فلم دیکھنے میں مگن ہیں اور پیچھے کھڑا مالیشیا ان کے سر کی مالش کر رہا ہے۔ ہم یہ بتانا تو بھول ہی گئے کہ فلم کے ٹکٹ کیسے خریدے جاتے تھے۔ ٹکٹ کی کھڑکی پر قطار لگی ہوئی ہے۔ سب اپنی باری کا انتظار کر رہے ہیں کہ اچانک ایک نوجوان چھلانگ لگا کر قطار میں کھڑے لوگو ںکے سروں پر کھسکتا ہوا کھڑکی پر پہنچ جاتا ہے اور ٹکٹ خریدنے لگتا ہے۔ لوگ ناراض ہوتے ہیں۔ اس نوجوان کو برا بھلا بھی کہتے ہیں لیکن اس کی اس جرأت اور ہمت پر خوش بھی ہو تے ہیں ۔ ہم نے جب فلمیں دیکھنا شروع کیں تو ٹکٹ ہوتے تھے بارہ آنے، ایک روپیہ چھ آنے اور دو رو پے کے۔ دو روپے والی گیلری میں بڑے بڑے صاحب لوگ بیٹھتے تھے۔ ہماری پہنچ ایک روپیہ چھ آنے تک تھی۔ پھر یوں ہوا کہ ہم نے ہندوستانی فلمیں بند کر دیں۔ کچھ عرصہ تو پاکستانی فلموں نے بڑے بڑے سینما ہال بھرنے کا انتظام کیا۔ اس کے بعد ہمارے تخلیقی سوتے خشک ہو گئے۔ تمام بڑے بڑے سینما ہال پلازے بن گئے۔ اب پھر ہندوستانی فلمیں آنا شروع ہوئیں تو زمانہ ہی بدل گیا تھا۔ ہمارے ہاں ہی نہیں ساری دنیا میں بڑے بڑے سینما ہالوں کا فیشن ختم ہو گیا، اور چھوٹے چھوٹے ملٹی پلیکس بننا شروع ہو گئے۔ یہ وقت کی ضرورت بھی تھی۔ ایک ہی عمارت میں کئی کئی سینما گھر۔ اور ایک ہی وقت میں کئی کئی فلمیں بلکہ ایک ہی چھوٹے سے ہال میں اگر ایک شو کسی ایک فلم کا ہو رہا ہے تو دوسرا شو کسی اور فلم کا۔ اب آپ کو اپنی پسند کی فلم دیکھنے کے لئے معلوم کرنا پڑتا ہے کہ کس وقت آئیں ملٹی پلیکس اور کس ہال میں جائیں۔ اور وہ جو کہتے ہیں ناں کہ مرے کو مارے شاہ مدار، تو اب ٹکٹ بھی سینکڑوں اور ہزاروں میں چلے گئے ہیں۔ ہم تو رو پیٹ کر کسی نہ کسی طرح گزارا کر لیتے ہیں، معلوم نہیں غریب کیا کر تا ہے ۔ اچھا، جب تک ہندوستانی فلمیں یہاں آتی رہیں اس وقت تک یہ ملٹی پلیکس بھی تماشائیوں سے بھرے رہے ۔ پھر ہندوستانی فلموں پر پابندی لگا دی گئی۔ پاکستانی فلمی صنعت ابھی اس قابل نہیں ہوئی تھی کہ وہ اپنی فلموں سے کروڑوں روپے سے بنائے جانے والے ان ملٹی پلیکس کا پیٹ بھر سکتی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ یہ ملٹی پلیکس بھائیں بھائیں کرنے لگے۔
ہمارے نوجوان فن کاروں نے یوں تو ہندوستانی فلموں کے زمانے میں ہی فلمیں بنانا شروع کر دی تھیں۔ اور بڑی حد تک وہ ہندوستانی فلموں کا مقابلہ بھی کرنے لگی تھیں لیکن اب انہیں خالی میدان مل گیا۔ اور پے در پے فلمیں بننا شروع ہو گئیں۔ البتہ ان فلموں پر ٹی وی ڈراموں کا اثر تھا۔ وجہ وہی تھی کہ فلم بنانے والے اور ان میں کام کرنے والے سب ٹیلی وژن سے تعلق رکھتے تھے ۔ خدا خدا کر کے ہماری فلموں پر سے یہ اثر ختم ہوا اور اب واقعی فلمیں تخلیق ہونے لگی ہیں۔ ایسی فلمیں جو باہر کی فلموں کا مقابلہ کر سکتی ہیں ۔ ہم یہ اعتراف کر لیں کہ اپنی جوانی کی طرح اب ہم ہر فلم نہیں دیکھتے۔ لیکن جو بھی پاکستانی فلمیں ہم نے دیکھی ہیں ان میں چند فلمیں ایسی ہیں جنہیں ہم بلا تکلف باہر کی فلموں کے مقابلے میں رکھ سکتے ہیں۔ ان میں سے ہی ایک فلم ''باجی‘‘ بھی ہے۔ اپنی کہانی، اپنی اداکاری، اپنی پروڈکشن، اپنی سینماٹو گرافی اور اپنی لوکیشنز کے لحاظ سے ہم اسے ایک اعلیٰ فلم کہہ سکتے ہیں۔ اس فلم نے جہاں پاکستانی فلمی صنعت کو ترقی کا راستہ دکھایا ہے، وہاں اپنی جانی پہچانی فلم سٹار میرا کو نئی زندگی بھی بخشی ہے۔ نیہا کا کردار جس لڑکی نے نبھایا ہے، اس نے بھی اپنے آپ کو اپنے اصل کردار سے باہر نہیں جانے دیا ۔ عثمان خالد بٹ صرف شکل و صورت کا ہی اچھا نہیں بلکہ وہ ایک منجھا ہوا فن کار بھی ہے ۔ اس کا ہیرو والا کردار جو آخر میں ولن بن جاتا ہے، کہیں بھی یہ چغلی نہیں کھاتا کہ وہ دوہری شخصیت رکھتا ہے ۔ اور یہ کہانی لکھنے والوں کا کمال بھی ہے ۔ اور نیّر اعجاز نے تو پرانی فلموں کے بد شکل ولن کی یاد تازہ کر دی ہے۔ بس ہمیں ایک شکایت ہے۔ یہ اتنے بے تحاشہ رقص اور جا بجا گانوں کی کیا ضرورت تھی؟ ٹھیک ہے نئی نسل کو خوش کرنے کے لیے شاید یہ ضروری ہو ، لیکن منجھی ہوئی اور گٹھی ہوئی کہانی بھی تو یہ کمی پوری کر دیتی ہے۔ فلم ''ماہ میر‘‘ اور ''کیک‘‘ میں اتنے گانے اور رقص نہیں ہیں مگر وہ اچھی فلمیں ہیں۔ یہ سب باتیں اپنی جگہ۔ ہمیں تو خوشی یہ ہے کہ ایسی فلم سے پاکستان کی فلمی صنعت نے ایک اور کروٹ لی ہے۔ اور یہ کروٹ کھلی آنکھوں سے جاگنے کے لیے ہے۔ ہنسی مذاق، اور ہلا گلا والی فلمیں تو بہت بن گئیں۔ اب ہمیں سنجیدہ فلموںکی طرف پوری سنجیدگی سے توجہ کرنا چاہیے۔ اب لائو ہندوستانی فلمیں پاکستان میں۔ ہماری یہ فلمیں ان کا مقابلہ کرنے کی سکت رکھتی ہیں۔ مقابلے میں تو اس سے بھی اچھی فلمیں بنیں گی۔ سوال یہ ہے کہ آخر ہم ہندوستانی فلموں سے ڈرتے کیوں ہیں؟ آنے دیجئے ہندوستانی فلمیں پاکستان میں۔ مقابلے میں تو انسان‘ بالخصوص تخلیقی انسان کی صلاحیتیں اور بھی اجاگر ہوتی ہیں۔ مان لیا کہ ہندوستانی فلموں پر بہت بڑا سرمایہ لگایا جاتا ہے اور ان کے پاس فلم سازی کا ساز و سامان بھی ہم سے بہتر ہے لیکن ہم اس سے پہلے بھی تو ان کی فلموں کا مقابلہ کرتے رہے ہیں۔ اب بھی کر لیں گے۔ لیکن یاد کیجئے اٹلی کی فلمی صنعت کو۔ اس نے اپنی فن کارانہ صلاحیتوں کی وجہ سے ہی ہالی وڈ کا مقابلہ کیا تھا۔ آپ گلیمر پر نہ جائیے۔ آپ کہانی پر توجہ کیجئے‘ سینماٹوگرافی بہتر بنائیے۔ کہانی اگر زور دار ہو گی تو کسی کو بھی اس بات کی پروا نہیں ہو گی کہ اس میں گلیمر ہے یا نہیں۔کیا ہندوستان میں بھی کم لاگت کی اچھی فلمیں نہیں بنی ہیں؟ اور وہ سستی فلمیں باکس آ فس پر کامیاب بھی رہی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا ہمارے ہاں اچھی کہانی لکھنے والے نہیں ہیں؟ آپ تلاش تو کیجئے۔ بہت مل جائیں گے اچھی کہانیاں‘ اچھے ڈائیلاگ لکھنے والے۔ ہمارے نوجوانوں میں بڑی صلاحیت اور اہلیت ہے۔ بس، انہیں مناسب موقع ملنا چاہیے۔ موقع ملنا چاہیے اور اس کے ساتھ ان کی تربیت ہونا چاہیے۔ ہمارے ملٹی پلیکس جو ان دنوں خالی خالی نظر آ تے ہیں، ہماری ان فلموں سے ہی بھر جائیں گے۔ ہماری فلمی صنعت ایک بار پھر اپنے قدموں پر کھڑی ہو جائے گی اور ہمارے ہاں ایک بار پھر سال بھر میں سو سو فلمیں بننے لگیں گی۔