اب کس کی بات مانی جائے، کس کی نہ مانی جائے؟ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے عمران خان سے ملاقات میں انکشاف کیا کہ ہندوستانی وزیر اعظم نریندر مودی نے ان سے کشمیر پر ثالثی کرنے کی بات کی تھی۔ نریندر مودی نے یہ بات جون کے مہینے میں اوساکا میں ایک کانفرنس کے دوران کہی تھی۔ اب ڈونلڈ ٹرمپ کہتے ہیں ''میں نے ان سے کہا تھا کہ اگر میں اس سلسلے میں کوئی مدد کر سکا تو میرے لئے اس سے زیادہ خوشی کی بات اور کوئی نہیں ہو گی‘‘۔ ادھر میڈیا میں یہ خبر آئی اور ادھر ہندوستان کی وزارت خارجہ نے اس کی تردید کر دی اور اپنا یہ موقف دہرایا کہ کشمیر ہندوستان اور پاکستان کے درمیان دوطرفہ معاملہ ہے‘ اور اس پر دو طرفہ بات چیت ہی ہو سکتی ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ امریکی صدر صحیح کہہ رہے ہیں یا ہندوستانی وزیر اعظم؟ یہ زیادہ پرانی بات بھی نہیں ہے کہ دونوں میں سے کسی ایک کی یادداشت جواب دے جائے۔ اب ہندوستان میں کانگریسی لیڈر نریندر مودی کے لتے لے رہے ہیں کہ تم نے یہ بات ضرور کی ہو گی۔ اور وہاں سے وضاحتیں کی جا رہی ہیں۔ بہرحال ہمارے لئے تو یہی بات خوش آئند ہے کہ عمران خان اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے درمیان بات چیت میں کشمیر کا ذکر بھی آ گیا اور ٹرمپ نے افسوس کا اظہار کیا کہ یہ اتنا پرانا مسئلہ ابھی تک حل نہیں ہو سکا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اس بارے میں ٹرمپ صاحب آگے کیا کریں گے۔ خیر، عمران خان صاحب کا یہ دورہ کامیاب رہا ہے۔ شروع میں تو امریکی میڈیا نے اس دورے پر زیادہ توجہ نہیں دی مگر پھر عمران خان اس کی نظروں میں آ گئے۔ لیکن یہاں ہمارا مسئلہ وہی ہے جو عمران خان صاحب کا ہے۔ ان کی سوئی جہاں اٹکی ہوئی ہے وہیں ہماری سوئی بھی اٹکی ہوئی ہے۔ ہمارا سوال یہ ہے کہ واشنگٹن میں ہزاروں پاکستانیوں کے اجتماع میں انہوں نے جو باتیں کیں، کیا وہاں انہیں یہ باتیں کرنا چاہیے تھیں؟ کیا یہ ضروری ہے کہ اپنے گندے کپڑے پاکستان سے باہر جا کر بھی اسی طرح سب کے سامنے دھوئے جائیں؟ اب یہ اعلان کرنا کہ پاکستان واپس جا کر اپنے مخالف قیدیوں کو جیل میں ملنے والی سہولتیں واپس لے لوں گا‘ ان کے ائیر کنڈیشنر اور ٹیلی وژن واپس لے لوں گا۔ بھلا اس بیان سے کس چیز کی بو آتی ہے؟ یہی ناں کہ آپ اسے پاکستان کا مسئلہ نہیں سمجھتے بلکہ اپنا ذاتی مسئلہ سمجھتے ہیں۔ آپ نے اسے ذاتی انتقام بنا لیا ہے۔ آج آپ کنٹینر پر نہیں کھڑے ہیں۔ آپ ایک ملک کے وزیر اعظم ہیں۔ آپ بیس اکیس کروڑ کی نمائندگی کر رہے ہیں۔ اس منصب پر پہنچنے کے بعد تو انسان کے اندر زیادہ بردباری، زیادہ تحمل اور زیادہ سنجیدگی آ جاتی ہے۔ آپ کم سے کم پیپلز پارٹی کے صدر بلاول بھٹو سے ہی سیکھ لیں۔ بلاول نے سیاسی مخالفت کو بالائے طاق رکھ کر آپ کے دورے کی تعریف کی ہے۔ اور کہا ہے کہ آپ کے دورے سے پاکستان کی خارجہ پالیسی کو نئی جہت ملی ہے۔ یہ ہے سیاسی بڑائی، اور سیاسی پختگی۔ جہاں ملک کی مفاد کا معاملہ ہو، وہاں سیاسی اختلافات پس پشت ڈال دیئے جاتے ہیں۔ آپ جیلر نہیں ہیں کہ قیدیوں سے ان کی قانونی سہولتیں واپس لے لیں۔ یہ سہولتیں انہیں جیل مینوئل کے مطابق دی جاتی ہیں۔ آپ خواہ مخواہ اپنا جی جلا رہے ہیں۔
واشنگٹن میں آپ کا جلسہ بلا شبہ بہت ہی بڑا تھا۔ اس جلسے میں شامل ہونے والوں کا جوش و خروش دیکھنے کے قابل تھا۔ اس جلسے میں شریک ہونے والے بالائی اور متوسط طبقے سے تعلق رکھتے ہوں گے۔ ان میں جہاں ملازمت پیشہ لوگ ہوں گے وہاں کاروباری لوگ بھی ہوں گے۔ آج پاکستان کی معیشت کی جو حالت ہے وہ سب کے سامنے ہے۔ پہلے ہی قرضوں کا بوجھ بہت زیادہ ہے۔ آپ مزید قرضے لے کر یہ بوجھ اور بھی بڑھا رہے ہیں۔ کیا اب بھی ہمیں ہندوستان اور چین سے نہیں سیکھنا چاہیے۔ یہ زیادہ پرانی بات نہیں ہے۔ یہ چین جو آج دنیا کی سب سے بڑی معیشت ہے چند عشرے پہلے انتہائی زبوں حالی کا شکار تھا۔ اس زبوں حالی سے اسے بڑے بڑے سرمایہ دار ملکوں کے سرمایہ کاروں نے باہر نہیں نکالا، بلکہ چین کے ان باشندوں نے اس کا آغاز کیا جو چین سے باہر دوسرے ملکوں میں رہتے ہیں۔ اس وقت تک چین نے باہر کے لیے اپنے دروازے نہیں کھولے تھے۔ صرف ہانگ کانگ کے قریب ایک علاقہ آزاد معیشت کے لیے کھول دیا گیا تھا۔ بیرون ملک رہنے والے چین کے اپنے باشندوں نے وہاں سرمایہ کاری شروع کی۔ اس کے بعد چل سو چل۔ باہر سے سرمایہ کار آنے لگا اور ترقی کی رفتار تیز سے تیز تر ہوتی چلی گئی۔ اب چین کے اپنے سرمایہ دار دوسرے ملکوں میں سرمایہ کاری کر رہے ہیں۔ ہمیں یاد ہے جب پہلی بار 1975 میں ہم چین گئے تھے تو اس ملک کا کیا حال تھا۔ ہمارے وفد میں کارخانوں کے مالک بھی شامل تھے۔ انہیں جب وہاں کی ٹیکسٹائل ملوں میں لے جایا گیا تو ان کارخانوں کی مشینیں دیکھ کر وہ ہنستے تھے کہ اچھا؟! ابھی تک یہ اتنی بوسیدہ مشینیں استعمال کر رہے ہیں؟ گھڑیوں کے ایک کارخانے میں ہم گئے تو وہاں بڑی عاجزی سے ہمیں بتایا گیا کہ ہمارے بنائی ہوئی گھڑیاں ابھی ایک منٹ کا فرق دور نہیں کر سکی ہیں۔ یہ کلچرل ریوولیوشن کا آخری دور تھا۔ عورت اور مرد سب ایک ہی طرح کا لباس پہنتے تھے۔ سڑکوں پر سائیکلیں ہی سائیکلیں نظر آتی تھیں۔ موٹر کار شاید ہی کہیں دکھائی دیتی ہو۔ اب ہمیں یاد نہیں کہ ہم اور احمد فراز کس طرح اس علاقے میں پہنچے تھے جہاں پیکنگ ریڈیو اور دوسرے اداروں میں کام کر نے والے پا کستانی رہتے تھے۔ احفاظ الرحمن صاحب کو یقینا یاد ہو گا کیونکہ ہم ان سے ملنے ہی وہاں گئے تھے اور پھر یہ چین کے اپنے تارکین وطن ہی تھے‘ جنہوں نے وہاں انقلاب برپا کر دیا تھا۔
اب آ جائیے ہندوستان کی طرف۔ ہندوستان میں انفارمیشن ٹیکنالوجی لانے والے باہر کے سرمایہ کار نہیں تھے بلکہ خود وہ ہندوستانی باشندے تھے جو امریکہ میں رہتے تھے۔ وہ وہاں سے یہ ٹیکنالوجی ہندوستان لائے اور بنگلور اور حیدر آباد میں سلی کون ویلی بنا ڈالی۔ یہ ہندوستانی باشندے اپنے ملک میں رہتے ہوئے امریکہ، کینیڈا، انگلستان اور آسٹریلیا کے لیے کام کر رہے تھے۔ یہ جو پاکستان میں بھی جگہ جگہ آپ کو کال سینٹر نظر آتے ہیں۔ یہ پہلے ہندوستان میں ہی آئے تھے۔ ہندوستان سے آنے والے بڑی حیرت سے بتایا کرتے تھے کہ وہاں کال سینٹر ہیں، جن میں لڑکے اور لڑکیاں رات دن کام کرتی ہیں۔ اب یہ کال سینٹر ہمارے لیے بھی کوئی نئی چیز نہیں رہے۔ اب ہمارے نوجوان بھی پاکستان میں بیٹھ کر باہر کے ملکوں کے لیے کام کرتے ہیں۔ لیکن ہمارے ہاں یہ ٹیکنالوجی آتے آتے بہت دیر لگی۔
یہ ساری کتھا ہم نے واشنگٹن میں عمران خان کے جلسے کے حوالے سے سنائی ہے۔ یوں تو ہم کون ہوتے ہیں عمران خان کو مشورہ دینے والے لیکن کیا جس جلسے میں عمران خان صاحب اپنے مخالفوں کو کھری کھری سنا رہے تھے اور انہیں عبرت کا نشانہ بنانے کا اعلان کر کے اس جلسے میں موجود لوگوں کا خون گرما رہے تھے، اگر وہاں جلسے کے حاضرین کی اپنے بد نصیب ملک کی معاشی زبوں حالی کی طرف توجہ دلاتے اور انہیں دعوت دیتے کہ آئو اپنے ملک میں سرمایہ کاری کرو اور کہتے کہ یہ تمہارا فرض ہے کہ جس ملک نے تمہیں یہاں تک پہنچایا ہے اسے معاشی طور پر اپنے پیروں پر کھڑا کرو‘ تو اچھا ہوتا۔ ان ملکوں میں ایک دو نہیں کئی پاکستانی ایسے ہیں جو بہت ہی خوش حال ہیں۔ وہ پاکستان میں کارخانے لگا سکتے ہیں۔ باہر سے نئی ٹیکنالوجی پاکستان لا سکتے ہیں۔ اس جلسے سے ثابت ہوا کہ وہ لوگ آپ کے چاہنے والے ہیں۔ اگر آپ انہیں سمجھائیں گے تو وہ ضرور اس طرف قدم بڑھائیں گے۔ لیکن... اور یہ بہت بڑا لیکن ہے... آپ اپنے مخالفوں کو جس طرح نشانہ بنا رہے ہیں، اگر یہ اسی طرح چلتا رہا تو کوئی بھی پاکستان میں سرمایہ کاری کا نہیں سوچے گا۔ ایک بات اور... اور یہ ہم ڈرتے ڈرتے کہہ رہے ہیں... اگر آپ یہ سوچے بیٹھے ہیں کہ اپنے مخالفوں کو جیلوں میں ڈال کر آپ ان کا سرمایہ باہر سے پاکستان لے آئیں گے، تو خاطر جمع رکھیے یہ ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔