"MAC" (space) message & send to 7575

بے کار مباش کچھ کیا کر

ہمارے سائنس اور ٹیکنالوجی کے وزیر فواد چودھری نے انکشاف کیا ہے کہ ان کی وزارت نے پینے کا ایسا صاف ستھرا پانی تیار کر لیا ہے جو بازار میں بوتلوں میں بند ملنے والے پانی سے بہت سستا ہے۔ یہ پانی ابھی وزیر اعظم اور دوسرے وزیروں کے گھروں میں استعمال کیا جا رہا ہے۔ کچھ دن بعد یہ بازار میں بھی آ جائے گا۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے بیٹری سے چلنے والی موٹر سائیکل اور رکشا چلا کر بھی دکھایا اور اعلان کیا کہ اب بیٹری سے چلنے والی موٹر سائیکلیں اور رکشے پاکستان میں چلائے جائیں گے۔ ہمیں یہ سن کر تو کوئی خاص خوشی نہیں ہوئی کہ ہمارے وزیر نے ایسی کام کی چیزیں ایجاد کر لی ہیں۔ خوشی اس بات کی ہوئی کہ ہمارے وزیر کسی کام پر لگ گئے ہیں۔ اور عام آدمی کے فائدے کی باتیں سوچنے لگے ہیں۔ ورنہ ہم تو بیزار ہو گئے ہیں ان وزیروں کے بکھان سن سن کر۔ ایسا لگتا ہے جیسے اللہ میاں نے انہیں صرف زبان ہی دی ہے۔ وہ بولتے ہیں اور بولتے ہی چلے جاتے ہیں۔ وہ بول بول کر ہی اپنے فرائض ادا کرتے ہیں۔ نئے پاکستان کی اس نئی حکومت نے زبان دانی کا ایک نیا فن تخلیق کیا ہے۔ اس فن کو کیا نام دیا جائے‘ سمجھ نہیں آ رہی۔ ان سے سوال کیا جاتا ہے کہ آپ کی حکومت کو ایک سال ہو گیا ہے‘ کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ اس ایک سال میں اس حکومت نے کیا کارنامہ انجام دیا ہے؟ تو کوئی کارنامہ بیان کرنے کے بجائے پچھلی حکومتوں اور پرانے سیاست دانوں کو ملاحیاں سنانا شروع کر دیتے ہیں۔ لوٹ لیا، تباہ کر دیا۔ اس ملک کو اندھے کنویں میں گرا دیا۔ یہ چور ہیں، یہ لٹیرے ہیں۔ یہ پاکستان کی دولت لوٹ کر باہر لے گئے ہیں۔ انہوں نے قلاش کر دیا اس ملک کو۔ سوال کرنے والا پوچھتا ہے کہ اس ٹوٹی پھوٹی پھوٹی معیشت کو اپنے پیروں پر کھڑا کرنے کے لیے آپ نے کیا کیا؟ تو اس سوال کا جواب دینے کے بجائے پھر وہی بکھان شروع ہو جاتا ہے۔ یہ ملاکھڑا ٹیلی وژن چینل پر زیادہ مار دھاڑ سے بھرپور نظر آتا ہے۔ یہ نوجوان یا جوان جب بولنے پر آتے ہیں تو کسی اور کو بولنے ہی نہیں دیتے۔ ان کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ اتنا بولیں، اتنا بولیں کہ اس پروگرام کا وقت ہی ختم ہو جائے۔ اور کسی دوسرے شخص کو بولنے کا وقت ہی نہ ملے۔
اب یہاں ہمیں بعض ٹی وی اینکرز سے بھی گلہ ہے۔ یہ تو سب ہی مانتے کہ کسی شخص کو اس وقت تک مجرم قرار نہیں دیا جا سکتا جب تک قانونی طور پر اس کا جرم ثابت نہ ہو جائے اور عدالت اسے سزا نہ دے دے لیکن ہمارے بعض اینکر ان سیاست دانوں کا ذکر کرتے ہوئے ان کے جرائم کی فہرست گنوانا شروع کر دیتے ہیں‘ حالانکہ بعض جرائم ابھی پوری طرح ثابت نہیں ہوئے ۔ اگر حکومت کے حامی اور وفادار یہ حرکت کریں تو سمجھ میں آتا ہے کہ انہیں اپنے لیڈر کی طرف سے یہی فرض سونپا گیا ہے لیکن کوئی ٹی وی اینکر یہ کام کرے تو افسوس ہوتا ہے۔ قانون کے ماہر تو کہتے ہیں کہ جس طرح میڈیا پر ان سیاست دانوں کی کردار کشی کی جاتی ہے، وہ ہتک عزت کے زمرے میں آتی ہے۔ لیکن یہاںکون پوچھتا ہے ان قانونی موشگافیوں کو۔ اور یہ سلسلہ احتساب کے خواہش مندوں نے خود ہی شروع کیا ہے۔ کسی تحقیق یا تفتیش کے بغیر کسی سیاست دان کو گرفتار کیا جاتا ہے تو اس پر الزامات کا وہ طومار باندھ دیا جاتا ہے جیسے اس پر یہ تمام الزام ثابت ہو چکے ہیں۔ اب تو حکومت بھی اس کارکردگی سے پریشان ہو گئی ہے۔ اور تو اور خود وزیروں نے رونا شروع کر دیا ہے کہ سرکاری افسرخوف کی وجہ سے کام نہیں کرتے اور کاروباری لوگوں نے بینکوں سے روپیہ نکال لیا ہے۔ یہ سرمایہ دار کسی کاروبار یا صنعت میں سرمایہ لگانے سے گھبرا رہے ہیں۔ اب قوانین میں ترمیم کی جا رہی ہے لیکن یہ ترمیم صرف سرکاری ملازموں اور کاروباری افراد کو تحفظ دینے کے لیے ہی کی جا رہی ہے۔ چلیے، دیکھ لیتے ہیں، یہ کب تک چلتا ہے۔ 
معاف کیجئے، ہم چلے تھے سائنس اور ٹیکنالوجی کے وزیر فواد چودھری کی اختراعات اور ایجادات سے اور بھٹک کر آ گئے کسی اور موضوع کی طرف۔ اگر اس حکومت کے وزیروں کی زبان اور گلے کو آرام اور سکون دینا ہے تو انہیں فواد چودھری جیسے مفید کاموں پر لگا دینا چاہیے۔ وہ بھی کسی کام سے لگ جائیں گے اور ہم بھی اپنے کام سے۔ پینے کے پانی کی بوتلیں سستی کر کے بلا شبہ قوم پر احسان کیا جائے گا۔ ایک زمانہ تھا کہ ہم سب نل کا پانی پیتے تھے۔ اور ہماری صحت کو کوئی ضرر نہیں پہنچتا تھا۔ اب حالت یہ ہے کہ بوتلوں کا پانی خرید کر پیتے ہیں۔ اس کے باوجود یہ یقین نہیں ہوتا کہ وہ پانی ہماری صحت کے لیے فائدہ مند ہے یا نقصان دہ؟ خیر، ہم جہاں رہتے ہیں وہاں پانی فلٹر کرنے والے پلانٹ لگا دئیے گئے ہیں لیکن اس کے باوجود ہمیں ڈرایا جاتا ہے کہ یہ پانی ہماری صحت کے لیے مضر بھی ہو سکتا ہے۔ فواد چودھری صاحب اگر واقعی صاف ستھرا اور سستا پانی ہمیں پلانا چاہتے ہیں تو اس سے اچھی بات اور کیا ہو سکتی ہے۔ اب رہی بیٹری سے چلنے والی موٹر سائیکلیں اور رکشا، تو بازار میں ہائبرڈ موٹر کاریں پہلے ہی آ گئی ہیں۔ اگر موٹر سائیکل اور رکشا بھی بیٹری پر چلنے لگے تو ہم ماحولیاتی آلودگی سے بچ سکتے ہیں۔ اس حقیقت سے کسی طور انکار ممکن نہیں کہ ماحولیاتی آلودگی آج کے دور کا سب سے اہم اور سب سے گمبھیر مسئلہ ہے‘ جس کی طرف سنجیدگی سے توجہ دینے کی اشد ضرورت ہے‘ کیونکہ اس کی وجہ سے انسانی صحت پر نہایت منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں ۔ یہ ماحولیاتی آلودگی ہی ہے‘ جس کی وجہ سے لوگ پیچیدہ بیماریوں میں مبتلا ہو رہے ہیں۔ اور یہ ماحولیاتی آلودگی ہی ہے جس کے باعث ہماری آب و ہوا پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں‘ گرمی بڑھتی جا رہی ہے اور سردیوں کا موسم سکڑتا جا رہا ہے۔ اب فواد چودھری صاحب کو سیاسی بیان بازی کے بجائے یہی کام کرنا چاہیے بلکہ ہم تو کہتے ہیں کہ باقی وزیروں کو بھی ایسے ہی کارآمد منصوبوں پر توجہ دینا چاہیے تاکہ کچھ تو لوگوں کا بھلا ہو۔ 
ماحولیاتی آلودگی سے یاد آیا کہ ہمارے علاقے کی انتظامیہ نے چھ سات مہینے پہلے اطلاع دی تھی کہ مارچ میں شاپنگ بیگ بند کر دئیے جائیں گے لیکن ہم ابھی تک انتظار ہی کر رہے ہیں اور شاپنگ بیگ اسی طرح استعمال کیے جا رہے ہیں۔ سنا ہے اسلام آباد میں واقعی شاپنگ بیگ بند کر دئیے گئے ہیں۔ اگر وہاں یہ تجربہ کامیاب ہو جاتا ہے تو یہ لاہور میں بھی شروع کیا جا سکتا ہے۔ آخر، ایک زمانے میں یہ شاپر کہاں ہوتے تھے۔ دکان دار کاغذ کی پڑیا میں چھوٹی موٹی چیزیں دیتے تھے اور زیادہ سامان تھیلے یا جھولے میں لایا جاتا تھا۔ سبزی ترکاری اور گوشت وغیرہ کے لئے ہر گھر میں ٹوکریاں ہوتی تھیں۔ جو بھی سودا خریدنے بازار جاتا، وہ یہ ٹوکری ساتھ لے جاتا۔ جب سے پلاسٹک کے شاپر آئے ہیں‘ ہم سب سست اور کاہل ہو گئے ہیں۔ کون لے جائے تھیلا، جھولا یا ٹوکری اپنے ساتھ۔ دکان پر شاپر میں ہر چیز مل جائے گی۔ اب جو مہذب دنیا نے توجہ دلائی ہے تو ہمیں بھی خیال آیا ہے۔ فواد چودھری صاحب کو اپنی وزارت کی طرف سے ایک کام اور بھی کرنا چاہیے۔ ہمیں کارآمد چیزوں کی ری سائیکلنگ پر بھی توجہ دینا چاہیے۔ ہم جو چیزیں استعمال کرتے ہیں‘ ان میں کئی چیزیں ایسی ہوتی ہیں‘ جنہیں کسی دوسری شکل میں لا کر دوبارہ استعمال کیا جا سکتا ہے۔ آپ نے ترقی یافتہ ملکوں میں دیکھا ہو گا کہ ہر گھر کے باہر بڑے بڑے دو کوڑے دان رکھے ہوتے ہیں۔ ایک ان چیزوں کے لیے ہوتا ہے جو دوبارہ کام نہیں آ سکتیں اور دوسرا ان چیزوں کے لیے جن کی ری سائیکلنگ کی جا سکتی ہے۔ گھر والا اسی حساب سے اپنا کوڑا کچرا ڈالتا ہے۔ کیا یہ کام ہم نہیں کر سکتے؟ ہم نے کہا ناں کہ بے کار مباش کچھ کیا کر۔ صرف دوسروں پر لعن طعن ہی نہ کیا کر۔ 
ایک زمانے میں یہ شاپر کہاں ہوتے تھے۔ دکان دار کاغذ کی پڑیا میں چھوٹی موٹی چیزیں دیتے تھے اور زیادہ سامان تھیلے یا جھولے میں لایا جاتا تھا۔ سبزی ترکاری اور گوشت وغیرہ کے لئے ہر گھر میں ٹوکریاں ہوتی تھیں۔ جو بھی سودا خریدنے بازار جاتا، وہ یہ ٹوکری ساتھ لے جاتا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں