سب کا خیال تھا کہ عمران خان حسب عادت اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں بھی بہت ہی جذباتی اور جوشیلی تقریر کریں گے۔ ہمارے ٹیلی وژن چینلز پر انہیں طرح طرح کے مشورے دیے جا رہے تھے کہ انہیں یہ کرنا چاہیے اور انہیں وہ کرنا چاہیے۔ سب توقع کر رہے تھے کہ وہ کشمیر سے اپنی بات شروع کریں گے اور کشمیر پر ہی ختم کریں گے اور یہ ظاہر و باہر بات تھی کہ یہی اس وقت پاکستان اور پاکستانیوں کے لئے سب سے زیادہ اہم موضوع ہے۔ لیکن عمران خان نے کشمیر سے اپنی تقریر کا آغاز کرنے کے بجائے سب سے پہلے عالمی ماحولیاتی آلودگی کا ذکر چھیڑ کر سب کو حیران کر دیا۔ اس طرح انہوں نے عالمی طاقتوں کی توجہ اپنی تقریر کی طرف مبذول کرا لی۔ انہوں نے چار نکات کو اپنی تقریر کا محور بنایا۔ عالمی ماحولیا تی آلودگی، غریب ملکوں کی دولت کا امیر ملکوں کے بینکوں کی طرف بہائو، اسلاموفوبیا اور آخر میں کشمیر۔ کشمیر کے مسئلے پر بھی انہوں نے اپنا روایتی جوشیلا اور جذباتی انداز اختیار نہیں کیا بلکہ اس مسئلے کو ہندوستان کی موجودہ حکومت کی مجموعی پالیسیوں کے تناظر میں پیش کیا۔ اب وہ صرف کشمیر کا مقدمہ ہی نہیں لڑ رہے تھے بلکہ ہندوستان کے اٹھارہ بیس کروڑ مسلمانوں کا مقدمہ بھی لڑ رہے تھے۔ انہوں نے راشٹریہ سویم سیوک سنگھ ، اس کی تاریخ اور اس کے فلسفے کا تفصیل سے تجزیہ کیا اور بتایا کہ اس تحریک کے بانی گولوالکر اور ساورکر ہٹلر اور مسولینی کے فاشسٹ فلسفے سے متاثر تھے۔ وہ نسلی اور قومی برتری پر یقین رکھتے تھے اور دوسری قوموں پر حکمرانی کو اپنا حق مانتے تھے۔ لوگ یہ بھول جاتے ہیں کہ یہ گولوالکر ہی تھا جس نے سب سے پہلے ہندوستان کی تقسیم کا فارمولا پیش کیا تھا تاکہ ہندوستان میں ہندو راشٹر قائم کیا جا سکے۔ عمران خان نے بالکل صحیح کہا کہ آج نریندر مودی کی حکومت اسی فلسفے پر چل رہی ہے۔ نریندر مودی کے ہندوستان میں مسلمان دوسرے بلکہ تیسرے درجے کے شہری بنا دیے گئے ہیں۔ یہ کہہ کر عمران خاں دراصل ہندوستان کے اپنے معروف دانشوروں کے موقف کی تائید بھی کر رہے تھے کیونکہ یہ عمران خان ہی نہیں کہہ رہے ہیں بلکہ ہندوستان کے ہی صاحب ضمیر دانشور بھی اپنی تحریروں میں اس کا اظہار کر رہے ہیں۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ معروف صحافی سعید نقوی، صبا نقوی، جاوید نقوی اور سیدہ حمید وغیرہ تو مسلمان ہیں، اور نریندر مودی کی نسل پرستی کی اس پالیسی سے بذات خود متاثر ہیں۔ اسی لئے وہ اس پر احتجاج کر رہے ہیں اور کتابیں لکھ رہے ہیں لیکن ہندی کے پروفیسر اپورن آنند، مشہور مورخ ہربنس مکھیا اور سلیل چودھری جیسے مصنف اور دانشور تو ہندو ہیں۔ وہ بھی اپنی تحریروں میں نریندر مودی کی اس فاشسٹ پالیسی پر احتجاج کر رہے ہیں۔ ہم نے ارون دھتی رائے کا اس لئے ذکر نہیں کیا کہ وہ ہندو نہیں کرسچین ہیں‘ لیکن وہ بہت ہی موثر اور طاقت ور آواز ہیں۔ انہوں نے تو اپنے ناول میں بھی کشمیر میں ہونے والے مظالم کا ذکر کیا ہے۔ عمران خاں جب آر ایس ایس اور نریندر مودی کی نسل پرست اور مسلمان دشمن پالیسی پر تاریخی تناظر میں روشنی ڈال رہے تھے تو انہیں ان ہندوستانی دانشوروں کی حمایت اور تائید بھی حاصل تھی۔
یہ شاید پہلی مرتبہ ہے کہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی جیسے عالمی فورم میں ہندوستان کی موجودہ حکومت کی مسلمان دشمن پالیسی کا پردہ چاک کیا جا رہا تھا۔ عمران خان نے نریندر مودی کے صوبہ گجرات میں مسلمانوں کی نسل کشی کا بھی پوری تفصیل سے حوالہ دیا۔ اس وقت نریندر مودی ہی اس صوبے یا اس ریاست کے وزیر اعلیٰ تھے۔ ان کی آشیرواد سے ہی ان کی ناک کے نیچے مسلمانوں کا قتل عام کیا گیا تھا۔ عمران خان نے امریکی حکومت کو یاد دلایا کہ اس قتل عام کے بعد امریکہ میں نریندر مودی کے داخلے پر پابندی لگا دی گئی تھی۔ اور اب یہ وہی نریندر مودی ہے جس کے ساتھ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ جپھیاں ڈال رہے ہیں۔ عمران خان نے یہ کہہ کر پوری عالمی برادری کو خبردار کیا کہ محض اس وجہ سے ہندوستان کی حمایت کرنا انصاف نہیں ہے کہ وہ دنیا کی بہت بڑی منڈی ہے۔
عمران خان نے اسی تاریخی تناظر میں عالمی برادری کے سامنے کشمیر کا مقدمہ پیش کیا۔ پچھلے پچاس پچپن روز سے مقبوضہ کشمیر میں مسلسل کرفیو لگا ہوا ہے۔ نو لاکھ ہندوستانی فوجی وہاں کے باشندوں کی نگرانی کر رہے ہیں۔ کشمیر کو ایک بہت بڑا قید خانہ بنا دیا گیا ہے۔ وہاں بوڑھے بچے، مرد اور عورتیں اپنے گھروں میں بند ہیں۔ کچھ نہیں معلوم انہیں کھانا پینا کہاں سے مل رہا ہے اور وہ زندہ کیسے ہیں۔ ان کے تمام رہنما قید کر لئے گئے ہیں بلکہ فاروق عبداللہ پر تو غداری کا مقدمہ بھی بنا دیا گیا ہے۔ سینکڑوں نوجوان گرفتار کر کے کشمیر سے باہر ہندوستان کے دوسرے شہروں میں قید کر دیے گئے ہیں۔ اب عمران خان سوال کرتے ہیں کہ کیا اس طرح ان کشمیریوں کا آزادی کا جذبہ دبایا جا سکتا ہے؟ ان پر جتنا ظلم بڑھے گا اتنا ہی ان کے اندر غصہ اور طیش بڑھے گا۔ اور یہ بات عمران خان ہی نہیں کہہ رہے ہیں بلکہ بزرگ قانونی ماہر اور معتبر سیاسی مبصر اے جی نورانی بھی یہی لکھ رہے ہیں۔ کشمیریوں کا غصہ اور طیش بڑھتا جا رہا ہے۔ ان کے دلوں میں نفرت کی آگ بھڑک رہی ہے۔ اور عمران خان کی یہ بات بالکل صحیح ہے کہ وہاں کرفیو ختم ہوتے ہی آتش فشاں پھوٹ پڑے گا۔ آخر کب تک کرفیو لگایا جا سکتا ہے۔ کبھی نہ کبھی تو اسے اٹھانا ہی پڑے گا۔ اس کے بعد وہاں کے عوام کا احتجاج ایک نئی شکل اختیار کرے گا۔ ہندوستان کی نو لاکھ فوج اس کا مقابلہ گولیوں سے کرے گی اور وہاں ایک اور قتل عام شروع ہو جائے گا۔ عمران خان کا خیال ہے کہ نریندر مودی کی حکومت اس کا الزام پاکستان کے سر تھوپے گی اور دو ایٹمی طاقتیں آمنے سامنے کھڑی ہو جائیں گی۔ اس لئے یہی وقت ہے کہ عالمی طاقتوں کو آگے بڑھ کر اس خطرناک مسئلے کا حل تلاش کرنا چاہیے۔
اب ہمارے ہاں سوال کیا جا رہا ہے کہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں عمران خان کی اس تقریر کے بعد کیا ہو گا؟ کیا واقعی عالمی ضمیر جاگ اٹھے گا؟ اس سوال کا جواب مشکل نہیں ہے۔ عالمی ضمیر بھی اپنے قومی مفادات کا تابع ہوتا ہے۔ اس کا ثبوت عالمی میڈیا ہے جس کا حوالہ عمران خاں نے بھی دیا ہے۔ پچھلے پچاس پچپن روز سے مقبوضہ کشمیر جہنم زار بنا ہوا ہے۔ لیکن جسے ہم عالمی میڈیا کہتے ہیں اسے جیسے خبر ہی نہیں ہے۔ مغربی ملکوں کے چند اخباروں میں تو کشمیر کے حالات پر کچھ مضامین شائع ہوئے ہیں‘ لیکن الیکٹرانک میڈیا نے اسے بالکل ہی نظر انداز کیا ہے۔ ان کے لئے ہانگ کانگ کے جلسے جلوس اور مظاہرے تو اہمیت رکھتے ہیں کہ وہ چین کے خلاف ہیں لیکن کشمیر میں ہونے والے مظالم کوئی اہمیت نہیں رکھتے۔ لیکن اس کا یہ مطلب بھی نہیں ہے کہ دنیا کی بڑی طاقتوں پر عمران خان کی تقریر کا کوئی اثر نہیں ہو گا۔ کسی نہ کسی طرح اس پر بحث ضرور شروع ہو جا ئے گی اور پھر اسے مہمیز دیں گے خود کشمیری عوام۔ اب یہ جدوجہد اور یہ تحریک ان کے ہاتھ میں ہے۔ آخر نریندر مودی سرکار کب تک وہاں کرفیو لگا ئے رکھے گی؟ کبھی نہ کبھی تو اسے اٹھانا ہی پڑے گا۔ اس کے بعد کشمیری عوام ہوں گے اور ہندوستان کی فوج۔ عمران خان نے یہ اعلان کرکے اپنی حکومت کی پالیسی واضح کر دی ہے کہ پاکستان کی طرف سے کسی جہادی کو کشمیر کی سرحد پار کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی (کاش یہ پالیسی پہلے بھی اختیار کی جاتی)۔ امن کا راستہ یہی ہے۔ اب یہ کشمیری عوام پر ہی چھوڑ دینا چاہیے۔ ہم زیادہ سے زیادہ یہی کر سکتے ہیں کہ عالمی طاقتوں کی توجہ اس جانب مبذول کراتے رہیں۔ بہرحال، عمران خان نے منی لانڈرنگ اور اسلاموفو بیا کے حوالے سے اپنی تقریر میں جو کہا‘ اس کے کچھ نکات پر تو اختلاف کیا جا سکتا ہے، لیکن مجموعی طور پر ان کی یہ تقریر نہایت ہی مدبرانہ تھی۔
ایک وضاحت: پچھلے کالم میں ہم نے اردو میں شخصی خاکے لکھنے والوں کا ذکر کیا تھا۔ ہم اتنے بھلکڑ واقع ہوئے ہیں کہ اپنے سامنے والی شخصیت کو تو بھول ہی گئے تھے۔ یہ ہیں انوار احمد۔ انوار احمد کی خاکوں کی کتاب شائع ہو چکی ہے۔ انہوں نے اپنے چچا یا ایک قریبی عزیز کے بارے میں جو لکھا ہے وہ بہت سے دوستوںکی آنکھیں کھولنے کیلئے کافی ہے۔