ذرا ٹھنڈے دل سے سوچیے۔ یہ جو ME TOO ہے، کچھ زیادہ ہی نہیں ہو گیا ہے؟ یہ ہم ایک خود کشی کے حوالے سے بات کر رہے ہیں۔ گویا اب تو اس پر خود کشیاں بھی ہونے لگی ہیں۔ لاہور میں ہونے والی ایک خود کشی نے تو یہ ثابت کیا ہے کہ اب کیسے کیسے لوگ اس کی زد میں آنے لگے ہیں۔ ایم اے او کالج کے ایک استاد نے محض اس لئے خود کشی کر لی کہ اس پر ایک لڑکی نے ہراساں کر نے کا الزام لگایا تھا‘ اور وہ اپنے کالج میں بدنام ہو گیا تھا‘ اور ہر ایک کے طعن و تشنیع کا نشانہ بن گیا تھا‘ حالانکہ اس الزام کے بارے میں جس خاتوں نے تحقیق کی تھی‘ انہوں نے اس الزام کی تر دید کر دی تھی‘ اور اس استاد کو بے گناہ قرار دے دیا تھا۔ لیکن اب مسئلہ یہ تھا کہ اسے بے گناہ قرار دینے والی رپورٹ کالج کے پرنسپل کے پاس تھی۔ وہ استاد التجا کر رہا تھا کہ وہ رپورٹ اسے دے دی جائے تاکہ اس کی بے گناہی کی سند مل جائے لیکن یہ رپورٹ اور سند اسے نہیں مل رہی تھی۔ پرنسپل صاحب کہہ رہے تھے کہ وہ رپورٹ تحقیقات کرنے والی خاتون کے پاس ہے‘ اور وہ خاتون پرنسپل کو اس کا ذمہ دار ٹھہرا رہی تھیں۔ اخبار کی خبر یہی ہے۔ کہتے ہیں، اس چپقلش میں استاد کی زندگی عذاب بن گئی تھی۔ کالج میں ہی نہیں، اسے ہر جگہ بدنامی کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا۔ آخر تنگ آ کر اس نے خود کشی کر لی۔ اپنی عزت جو بچانا تھی۔ اس نے عزت بچانے کا یہی راستہ اختیار کیا۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ اس نے جلد بازی سے کام لیا۔ اسے انتظار کرنا چاہیے تھا۔ کچھ صبر کرنا چاہیے تھا۔ اسے حالات کا مقابلہ کرنا چاہیے تھا۔ لیکن یہ بھی تو ہے کہ جس عذاب سے وہ گزر رہا تھا‘ اس کی شدت وہی جانتا تھا۔ اپنے ہاتھ سے اپنی جان لینا آسان نہیں ہے۔ اس کے لئے اسے پہلے اپنے آپ سے لڑنا پڑا ہو گا۔ کتنے دن وہ اپنے آپ سے لڑتا رہا ہو گا؟ یہ وہی بتا سکتا تھا۔ اور آخر کار اس لڑائی میں وہ ہار گیا ہو گا۔ اس کے بعد ہی اس نے اپنی جان لینے کا فیصلہ کیا ہو گا۔ کیا ہمیں اس کے گھر والوں سے اس بارے میں معلومات نہیں کرنا چاہئیں؟ اب تک جو خبریں آ رہی ہیں ان میں اس کے گھر والوں کا کہیں ذکر نہیں ہے۔ آخر اس کے گھر والے بھی تو اس عذاب میں اس کے ساتھ ہوں گے؟ یا پھر اسے اپنے گھر والوں کی تلخ و ترش ملامتی نظروں کا سامنا بھی کرنا پڑا ہو گا۔ ہماری نظریں کسی شخص کی برائی کی طرف پہلے جاتی ہیں۔ اچھائی ہمیں بعد میں نظر آتی ہے۔ کیا یہ باتیں اس کے گھر والے نہیں بتا سکتے؟ اس کے گھر والوں کو اس میں شامل کیوں نہیں کیا جاتا؟ بہرکیف، یہ نہایت ہی نازک اور حساس موضوع ہے۔ یہاںہم نے اسے چھیڑ کر اپنے لئے ایک مصیبت کھڑی کر لی ہے۔ لیکن جیسا کہ ہم نے پہلے کہا‘ ایم اے او کالج کے ایک استاد کی خود کشی نے ہمیں مجبور کر دیا ہے کہ اس پر کھل کر بات کی جائے۔ اور دونوں کے ساتھ انصاف کیا جائے۔
یہ 'می ٹو‘ کا سلسلہ ہالی وڈ سے شروع ہوا تھا۔ پہلے وہیں گڑے مردے اکھاڑے گئے اور برسوں پرانے واقعات سامنے لائے گئے۔ اس کے بعد دنیا بھر میں گڑے مردے اکھاڑے جانے لگے اور ہر جگہ سے ایسی ہی خبریں آنے لگیں۔ ایسا نہیں ہے کہ یہ واقعات غلط تھے۔ تحقیقات نے ثابت کیا کہ یہ بالکل صحیح واقعات تھے۔ ہندوستان میں بھی ایک بہت ہی مشہور و معروف صحافی اس کی زد میں آ گیا تھا۔ اب وہ منہ چھپاتا پھر رہا ہے۔ اس صحافی کو ہم بھی جانتے ہیں۔ یہ مسلمان صحافی ہے جو بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) میں شامل ہو گیا تھا۔ لیکن ہمارے ہاں ایک گانے والی اور ایک گانے والے کے درمیان اس الزام پر جو مقدمے بازی ہو رہی ہے وہ بھی ہمارے سامنے ہے۔ اس مقدمے کی کارروائی چٹ پٹی خبر بن کر ہمارے سامنے آتی ہے۔ یہ ایک فلمی تماشہ بن گیا ہے۔ یہ مقدمہ ہے کہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا ہے۔ اب ایک اور نئے فلم ڈائریکٹر نے بھی کسی بہت ہی بااثر شخصیت پر ایسا ہی الزام لگا دیا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ اس کا نتیجہ کیا نکلتا ہے۔ آپ یہ سوال کر سکتے ہیں کہ اتنے عرصے بعد یہ الزام کیوں لگایا گیا ہے؟ اب تک اس کے بارے میں کیوں نہیں بتایا گیا؟ لیکن ہر بات کا ایک موقع اور ایک وقت ہوتا ہے۔ انہیں یہی وقت مناسب معلوم ہوا ہے کہ اب حالات ان کی بات سننے اور ماننے کے لئے سازگار ہیں۔ بہرحال اس کی بھی تحقیقات ہونا چاہئیں۔ صرف اخباری خبروں تک اسے محدود نہیں رہنا چاہیے۔ اب جہاں تک خواتین کا تعلق ہے تو بلا شبہ اس معاملے میں ہم خواتین کے ساتھ ہیں۔ وہ ہمارے معاشرے کا ہی نہیں مغربی معاشرے کا بھی کمزور ترین طبقہ ہیں۔ ایک زمانے بعد انہوں نے آواز اٹھائی ہے اور یہ بہت ہی طاقتور آواز ہے‘ لیکن اس کے ساتھ ہی اس کے دوسرے پہلو کو بھی نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔ میڈیا میں ان واقعات کو مزے لے لے کر اتنا اچھالا جاتا ہے کہ اس کے نتائج کی طرف کسی کا دھیان ہی نہیں جاتا۔ ایم اے او کالج کے اس حادثے کا نتیجہ کیا نکلتا ہے؟ وہ تو غیر جانبدارانہ تحقیقات کے بعد ہم دیکھ ہی لیں گے۔ لیکن اس کے بعد کیا ہمیں سر جوڑ کر نہیں بیٹھنا چاہیے اور اس کے لئے کوئی معقول راستہ اختیار نہیں کرنا چاہیے تاکہ کسی ایک صنف کو بلا وجہ اس کی سزا نہ بھگتنا پڑے؟
اب آخر میں ہم ایک اور اہم مسئلے کی طرف اپنے اعلیٰ حکام کی توجہ مبذول کرانا چاہتے ہیں۔ موٹر سائیکل سواروں پر ہیلمٹ اوڑھنے کی پابندی لگا دی گئی ہے اور اس پابندی پر عمل بھی کرایا جا رہا ہے لیکن ہم نے دیکھا ہے کہ اکثر موٹر سائیکل سوار ہیلمٹ سر پر رکھنے کے بجا ئے موٹر سائیکل کے آگے لٹکا لیتے ہیں اور جہاں ٹریفک پولیس کو دیکھتے ہیں وہاں سر پر رکھ لیتے ہیں۔ موٹر سائیکل کے ہینڈل پر لٹکتا ہوا یہ ہیلمٹ کبھی سڑک پر گر بھی جاتا ہے اور اس طرح اس سڑک پر چلنے والی کاروں، رکشوں اور موٹر سائیکلوں کے حادثے کا سبب بن جاتا ہے۔ یہ کل ہی کی بات ہے‘ لاہور میں کیولری گرائونڈ کے فلائی اوور پر ایک موٹر سائیکل سوار کا ہیلمٹ سڑک پر گر گیا۔ پیچھے جو کاریں آ رہی تھیں انہوں نے اس خیال سے اپنی گاڑیاں ایک طرف کرنے کی کوشش کی کہ کہیں وہ ہیلمٹ ٹوٹ نہ جائے۔ آگے والی گاڑیاں تو سڑک کے ایک طرف ہو گئیں، لیکن پیچھے تیزی سے آنے والی گاڑیاں اسی رفتار سے چلتی ہوئی کھڑی گاڑیوں سے ٹکرا گئیں اور کئی گاڑیوں کو نقصان پہنچا۔ اس کے بعد آپ جانتے ہی ہیں ہمارے لو گوں کی عادت‘ وہیں سڑک پر ایک دوسرے کے گریبان پکڑے جانے لگے۔ وہاں یہ تماشہ ہو رہا تھا اور ہماری پولیس کا دور دور تک پتہ نہیں تھا۔ یہ تو سب جانتے ہیں کہ ہیلمٹ استعمال کرنے کی پابندی موٹر سائیکل سواروں کی اپنی حفاظت کے لئے ہے۔ لیکن اس کا احساس موٹر سائیکل سواروں میں ابھی تک پیدا نہیں ہو سکا ہے۔ موٹر سائیکل سواروں میں اس کا احساس پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ انہیں یقین دلایا جائے کہ ہیلمٹ پہننے سے حکو مت، پولیس یا کسی انتظامیہ کو کوئی فائدہ نہیں ہے۔ فائدہ اس کے استعمال کرنے والوں کا ہی ہے۔ سر پر ہیلمٹ رکھنے سے یا موٹر کار میں بیلٹ لگانے سے اپنی ہی جان بچائی جا سکتی ہے۔ ہم کئی ایسے حادثے دیکھ چکے ہیں جو ہیلمٹ نہ پہننے یا کار میں بیلٹ نہ لگانے کی وجہ سے پیش آئے۔ دو دن پہلے ہی ایک نوجوان حادثے کا شکار ہو گیا۔ اس نے ہیلمٹ نہیں پہنا ہوا تھا۔ کیا ہماری ٹریفک پولیس ان موٹر سائیکل سواروں پر نظر نہیں رکھ سکتی؟ ٹھیک ہے آپ ان کو جرمانہ نہ کیجئے۔ انہیں سزا نہ دیجئے‘ لیکن انہیں سمجھا تو دیجئے کہ یہ پابندی آپ کے بھلے کے لیے ہی ہے۔ آپ ہیلمٹ سر پر رکھنے کے بجائے اپنی موٹر سائیکل کے ہینڈل پر لٹکا کر اپنے ساتھ دوسرے لوگوں کی جان بھی خطرے میں ڈالتے ہیں۔ معاف کیجئے، ہم ME TOO سے چلے تھے اور موٹر سائیکل والوں کے ہیلمٹ پر آ گئے۔ لیکن دیکھ لیجئے۔ دونوں مسئلے انسانی جانوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ اس لئے ہم نے انہیں یکجا کر دیا ہے۔