کل پرسوں کیا ہونے والا ہے؟ اس بارے میں ستارہ شناس ہی کچھ بتا سکتے ہیں؛ البتہ اس موقع کے حوالے سے ایک شعر یاد آ گیا ہے، وہ آپ بھی پڑھ لیجیے۔ یہ شعر ہندوستان کے نامور انگریزی کالم نگار جاوید نقوی نے اپنے ملک کی صورت حال پر منطبق کیا ہے۔ آپ اسے کسی اور تناظر میں دیکھ لیجیے۔ انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ یہ شعر کس کا ہے۔ بہر حال، شعر یہ ہے:
یہ شخص کون ہے، یہ کس قدر اکیلا ہے
یہ شخص بھیڑ میں اکثر دکھائی دیتا ہے
یہ شعر تو ہو گیا۔ اب ایک کتاب کی بات ہو جائے۔ اکرام اللہ افسانہ نگار ہیں، ناول نگار ہیں۔ اب انہوں نے آپ بیتی لکھی ہے۔ نام ہے ''جہان گزراں ‘‘۔ اس نام سے ہی ظاہر ہے کہ یہ صرف ان کی اپنی اٹھارہ سال کی داستان ہی نہیں ہے، بلکہ ان اٹھارہ برسوں کی تاریخ بھی ہے جو قیام پاکستان سے پہلے مشرقی اور مغربی پنجاب کے ساتھ پورے ہندوستان اور باہر کی دنیا پر گزرے۔ اس اعتبار سے ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ آپ بیتی بھی ہے اور جگ بیتی بھی۔ پانچ سو صفحے کے قریب پھیلی ہوئی یہ کتاب آپ کے سامنے وہ سماج اور وہ معاشرہ پیش کرتی ہے جہاں ہندو، سکھ اور مسلمان مل جل کر رہتے تھے۔ کسی قسم کے بھید بھائو کا احساس نہیں تھا۔ سیاسی اختلافات ہوں گے مگر وہ اتنے نمایاں نہیں تھے کہ انسانی رشتوں پر اثر انداز ہو سکیں؛ چنانچہ ایک مسلمان لڑکے کا جگری یار ایک ہندو لڑکا ہے۔ سکول میں یہ لڑکا اس مسلمان لڑکے کے ساتھ پڑھتا ہے۔ اور پھر وہ صبح شام کا ساتھی بن جاتا ہے۔ اب اگر اس کتاب میں کوئی ہیرو تلاش کیا جا سکتا ہے تو ایک ہندو لڑکا ہے۔ اس کا نام ہے کپل دیو۔ اور یہ کپل دیو پاکستان بننے کے بعد بھی اس کتاب پر چھایا رہتا ہے۔ اکرام اللہ تقسیم کے بعد بھی اس ہندو لڑکے کی تلاش میں امرتسر جاتے ہیں، دہلی جاتے ہیں۔ ایک ایک در کھٹکھٹاتے ہیں۔ چونکہ کپل دیو کمیونسٹ پارٹی کے لئے کام کرتا تھا‘ اس لئے اکرام اللہ کمیونسٹ پارٹی کے دفتروں کے چکر بھی لگاتے ہیں۔ لیکن کپل دیو کا تو جیسے صفحۂ ہستی سے ہی نام مٹ گیا ہے۔ جیسے اس نام کا کوئی شخص اس دنیا میں تھا ہی نہیں۔ اور یہ اکرام اللہ کا قلق ہے۔ اور یہ کتاب کی المیہ داستان۔
اکرام اللہ نے شروع میں ہی لکھ دیا ہے کہ یہ کتاب کسی نظم کے انداز میں نہیں لکھی گئی ہے کہ اس کی ابتدا اور انتہا ایک تسلسل اور ایک ترتیب کے ساتھ ہو، بلکہ یہ اردو غزل کے انداز میں لکھی گئی ہے۔ جس طرح غزل کا ہر شعر اپنی جگہ مکمل ہو تا ہے اسی طرح اس کتاب کا ہر حصہ اپنی جگہ مکمل اور نامکمل ہے۔ ادب کی اصطلاح میں اسے Free Association of Thought یا آزاد تلازمۂ خیال کہا جاتا ہے۔ یعنی جو بات جہاں یاد آ گئی وہ بیان کر دی گئی۔ یہ آزاد تلازمۂ خیال ہی ہے کہ کئی واقعات ایسے ہیں جو کتاب میں کئی کئی بار سامنے آتے ہیں لیکن ہمیں تقسیم سے پہلے کا امرتسر، لاہور، سلانوالی اور ایسے ہی کئی دوسرے شہر اپنی تمام حشر سامانیوں کے ساتھ اس کتاب میں مل جاتے ہیں۔ پاکستان بننے کے بعد چند سال کا جو تھوڑا بہت زمانہ اس کتاب میں ہمیں ملتا ہے‘ اس میں ہم بوریوالہ، چیچہ وطنی اور ملتان کے اس وقت کے حالات سے بھی واقف ہو جاتے ہیں لیکن اصل میں تو امرتسر ہی ایک ایسا شہر ہے جو ان سب پر چھایا ہوا ہے۔ پاکستان سے پہلے کا امرتسر۔
اکرام اللہ جس سکول میں بھی جاتے ہیں، اس کے استادوں اور طالب علموں سے ہمارا تعارف کراتے ہیں۔ کون استاد کیسا تھا‘ کون طالب علم پڑھاکو تھا، اور کون نہیں تھا۔ اور وہ خود پڑھائی میں کیسے تھے۔ اس کے ساتھ ہی یہ بھی بتاتے ہیں کہ ان کا محلہ کیسا تھا۔ اور ان میں رہنے والے کیسے تھے۔ اس موقع پر جب وہ اپنے ڈاکٹر والد اور ان کے ہندو اور سکھ دوستوں، یا اپنے ہندو اور سکھ دوستوں کا ذکر کرتے ہیں تو کہیں بھی یہ احساس نہیں ہوتا کہ الگ الگ مذاہب سے تعلق ہے۔ ان کے ایک ہندو دوست کی ماں ان سے جس طرح پیار محبت کا سلوک کرتی ہے، وہ اس کی ایک چھوٹی سی مثال ہے۔ ہندو گھرانے کسی مسلمان کو اپنی رسوئی یا باورچی خانے میں قدم بھی نہیں رکھنے دیتے، لیکن اکرام اللہ کے دوست کی یہ ماں انہیں اپنا بچہ سمجھ کر رسوئی میں آنے کی اجازت دیتی ہیں۔ بس شرط یہ ہے کہ جوتا باہر اتار دو۔ اس قسم کے واقعات اکرام اللہ کئی جگہ بیان کرتے ہیں۔ لیکن پھر آزادی اور تقسیم کا غلغلہ شروع ہو جاتا ہے۔ اور یہ مذہبی بھائی چارہ اور یہ میل جول ہوا میں اڑ جاتا ہے۔ پھر گھروں اور محلوں پر حملے اور قتل وغارت کا بازار گرم ہو جاتا ہے۔ اکرام اللہ اس کی تفصیل بھی بیان کرتے ہیں لیکن اس وقت بھی اکرام اللہ کے والد کے ایک سکھ دوست ان کی مدد کرتے ہیں۔ پہلے انہیں اپنے ہاں پناہ دیتے ہیں۔ پھر انہیں لاہور پہنچانے کے لئے ٹرک کا بندوبست کرتے ہیں۔ اس موقع پر اکرام اللہ ان حالات کا معروضی تجزیہ کرتے ہیں۔ ہو سکتا ہے کچھ لوگوں کو آخر تک آتے آتے اکرام اللہ کے اس تجزیے سے اختلاف ہو جائے، مگر یہ اس شخص کا تجزیہ ہے جو اس گھمسان میں خود موجود تھا۔
ہم نے کہا ناں کہ یہ کتاب صرف اکرام اللہ کی آپ بیتی ہی نہیں ہے بلکہ جگ بیتی بھی ہے۔ اس میں دوسری بڑی جنگ اور اس جنگ کے مختلف محاذوں اور ان محاذوں پر لڑنے والے سپہ سالاروں کا بیان بھی ہے۔ پھر ایسے تاریخی حوالے بھی ہیں، جو آپ بیتی کو تاریخ بنا دیتے ہیں۔ یہاں سبھاش چندر بوس بھی ہیں‘ اور ان کا فرار بھی۔ برما کے محاذ کا ذکر تو اس لئے بھی آ گیا کہ اسی جنگ کے زمانے میں دو لڑکے ان کی کلاس میں داخل ہوتے ہیں۔ تھے تو وہ ہندوستانی باپ کے بچے، لیکن چونکہ ماں برمی تھی اس لئے ان کی آنکھیں اور چہرے کے نقش برمی تھے۔ یہاں بنگال میں پڑنے والے اس قحط کی تفصیل بھی ہے جس میں لاکھوں بنگالی بھوک میں سو کھ سو کھ کر کانٹا ہوئے اور مر گئے۔ اس کتاب میں اکرام اللہ جلیانوالہ باغ کو بھی نہیں بھولے ہیں‘ جہاں چاروں طرف سے دیواروں میں گھرے اس باغ میں موجود ہزاروں ہندوستانیوں پر جنرل ڈائر نے اندھا دھند گولیاں برسوائی تھیں اور ہزاروں انسان مار ڈالے تھے۔ ہندوستان کی آزادی اور پاکستان کے قیام کے بارے میں انگریز حکومت کے ساتھ کانگریس اور مسلم لیگ کی جو بات چیت چل رہی تھی، اکرام اللہ نے اس کی تفصیل بھی بیان کی ہے۔ گویا اس کتاب میں جہاں آپ اکرام اللہ کے بچپن سے ان کی نوجوانی تک کے سفر میں ان کے ساتھ رہتے ہیں، وہاں اس عرصے میں اردگرد کی دنیا میں جو کچھ ہو رہا ہے آپ اس کا نظارہ بھی کرتے رہتے ہیں۔ اکرام اللہ اپنے گھر کا ماحول بھی تفصیل سے بیان کرتے ہیں۔ اپنے ڈاکٹر والد اور والدہ کے مزاج اور ان کے سلوک کا احوال بھی ایسا بیان کرتے ہیں کہ ان کا شخصی کردار ہمارے سامنے آ جاتا ہے۔ اور پھر ان کو ہم کیوں بھولے جا رہے ہیں جنہوں نے اکرام اللہ کے نو بالغ (نا بالغ نہیں) دل کو گرمائے رکھا۔ وہ جو بڑی عمر کی تھی اور وہ جو اپنی کھڑکی سے ریڈیو پر گانے سناتی تھی۔
ہمیں شاہد حمید سے بھی یہ شکایت تھی کہ انہوں نے اپنی کتاب کو تقسیم کے وقت مشرقی پنجاب سے لاہور آنے تک ہی محدود رکھا۔ اب اکرام اللہ سے بھی یہی شکایت ہے۔ اکرام اللہ نے پاکستان میں داخل ہونے کے بعد کے دو تین سال کا ذکر کیا ہے۔ لیکن یہ ذکر ناکا فی ہے۔ کیا ایسا نہیں ہو سکتا تھا کہ جہاں انہوں نے دنیا جہان کے واقعات اور حالات پر اتنا تفصیل سے لکھا ہے، وہاں وہ پاکستان میں وارد ہونے بعد کے حالات پر بھی کچھ زیادہ روشنی ڈال دیتے؟ خیر، اکرام اللہ نے ''ملتان ما‘‘ کے نام سے اپنی آپ بیتی کی نئی قسطیں لکھنا شروع کی ہیں‘ اس سے توقع ہے کہ وہ ہمیں پاکستان میں گزاری ہوئی اپنی عمر سے بھی روشناس کرائیں گے۔ یہ بھی بہت ہی طویل عرصہ ہے۔ اور ہاں، انہوں نے پاکستان بننے کے بعد ہندوئوں اور سکھوں کی جائیدادوں کی لوٹ مار کا جو حال بیان کیا ہے اسی نے تو ہمارے اس مزاج کی تخلیق کی ہے جس کا نظارہ ہم آج بھی کر رہے ہیں۔