"MAC" (space) message & send to 7575

مولانا کا مارچ اور ٹرین کا حادثہ

مولانا فضل الرحمن نے اسلام آباد میں خاصے لوگوں کو جمع کر لیا ہے۔ کہتے ہیں‘ ان کے آزادی مارچ میں شرکت کرنے والوں کا جو ہجوم ہے وہ عمران خاں کے لاہور میں مینار پاکستان کے ہجوم سے کہیں زیادہ بڑا ہے۔ اور یہ بھی کہتے ہیں کہ مولانا کے اس ہجوم میں جوش و خروش بھی بہت ہے۔ اس جوش و خروش کا مظاہرہ اس وقت بھی دیکھنے میں آیا جب مولانا تقریر کر رہے تھے تو ہجوم میں سے کسی نے آواز لگائی: ریڈ ریڈ زون ریڈ زون۔ یعنی وہ لوگ چاہتے تھے کہ ریڈ زون کی طرف مارچ کرو۔ مگر مولانا نے مسکرا کر ان لوگوں کو خاموش کرا دیا اور کہا: ہاں ہاں سن لیا ہے ہم نے۔ اس وقت مولانا نے وزیر اعظم کے استعفے کے لئے دو دن کی مہلت دی تھی۔ ظاہر ہے، ہمارا کالم چھپنے تک یہ مہلت ختم ہو رہی ہو گی۔ اس کے بعد کیا ہو گا؟ یہ تو وقت ہی بتائے گا لیکن عمران خان نے اعلان کر دیا ہے کہ وہ کسی حالت میں بھی استعفیٰ نہیں دیں گے اور وزیر داخلہ اور وزیر دفاع کہتے ہیں کہ اگر ہجوم نے کوئی اور قدم اٹھایا تو قانون کے مطابق اس سے نبٹا جائے گا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس وقت جو کچھ ہو گا اچھا نہیں ہو گا۔ اب یہ مولانا فضل الرحمن اور ان کا ساتھ دینے والی حزب اختلاف کی جماعتیں ہی جانتی ہوں گی کہ اس صورت میں وہ کیا کریں گی؟ اور یہ بھی جانتی ہوں گی کہ اس حالت میں جمہوریت کا کیا حشر ہو گا؟ ظاہر ہے، اگر دونوں ہی اپنی جگہ ڈٹے رہے تو بالآخر معاملات خراب ہوں گے اور اگر ایسا ہوا تو نتیجہ کیا نکلے گا؟ یہ سوچ کر ہی خوف آتا ہے۔ یہی ڈر ہے جس کا اظہار ہر حلقے کی طرف سے کیا جا رہا ہے۔ کہیں اس سے جمہوریت کو ہی نقصان نہ پہنچ جائے؟ یہ نہایت ہی خوفناک تصور ہے۔ مولانا تو اپنے راستے پر چل پڑے ہیں۔ انہوں نے تو اپنی ساری کشتیاں جلا دی ہیں۔ کس بھروسے پر جلائی ہیں؟ یہ ابھی تک معلوم نہیں ہو سکا۔ مگر کیا دوسری جماعتوں اور ان کے رہنمائوں نے بھی اس المناک امکان پر غور کیا ہے؟ انہوں نے تقریریں تو بہت زوردار کر لیں لیکن کیا وہ مولانا کے ساتھ آگے چلنے کو بھی تیار ہیں؟
خیر، یہ سب قیاس آرائیاں ہی ہیں۔ دیکھتے ہیں اگلے چند دن میں کیا ہوتا ہے؟ لیکن مولانا فضل الرحمن کے اس مارچ نے اس ہولناک حادثے کو پس پشت ڈال دیا ہے جس میں ستر سے زیادہ انسانی جانیں گئیں اور کتنے ہی انسان زخمی ہوئے۔ ریل گاڑی کے اس حادثے کے بعد ریلوے کے وزیر شیخ رشید احمد نے فوراً ہی جو بیان داغ دیا بلاشبہ وہ زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف تھا۔ ابھی حادثہ ہوا ہی ہے، اس کے بارے میں کسی قسم کی تحقیقات بھی نہیں ہوئیں اور آپ نے فرما دیا کہ گیس سلنڈر پھٹنے کی وجہ سے آگ لگی ہے۔ یہ اتنی جلدی کس نے آپ کو بتایا؟ کس نے گیس سلنڈر پھٹتے ہوئے دیکھے؟ آپ کے اس بیان کی وجہ سے ہی ریلوے پولیس کی طرف سے بھی بیان آ گیا کہ گیس سلنڈر ہی اصل وجہ ہے۔ ان مسافروں کے بیان پر کوئی توجہ نہیں دی گئی جو کہہ رہے ہیں کہ آگ لگنے سے پہلے ائیر کنڈیشنر سے بد بو آنا شروع ہو گئی تھی۔ چلیے اگر گیس سلنڈر ہی اس آگ کی وجہ ہیں تو یہ سلنڈر ٹرین میں آئے ہی کیسے؟ انہیں دروازے پر ہی کیوں نہیں روکا گیا؟ ریلوے نے کروڑوں روپے خرچ کرکے جو سکینر منگوائے ہیں وہ تو مقفل کمروں میں بند پڑے ہیں۔ استعمال ہی نہیں کئے جاتے۔ اس کا ذمہ دار کون ہے؟
اب رہے ریل گاڑیوں میں آگ لگنے کے واقعات تو ریلوے کا محکمہ خود ہی بتا چکا ہے کہ اس سال ریل گاڑیوں میں آگ لگنے کے بارہ واقعات ہو چکے ہیں۔ ان میں سے کئی واقعات ڈائننگ کاروں میں ہوئے۔ ادھر لیاقت پور کے حادثے کے دوسرے یا تیسرے دن ہی سکھر ایکسپریس میں بھی آگ لگ گئی اور یہ آگ ائیرکنڈیشنر میں شارٹ سرکٹ کی وجہ سے ہی لگی۔ اس پر ریلوے کے وزیر صاحب کے پاس کیا جواب ہے؟ اصل قصہ یہ ہے کہ شیخ صاحب کو دنیا بھر کی سیاست میں ٹانگ اڑانے کا زیادہ شوق ہے۔ انہیں حکومت کی مخالف جماعتوں اور سیاسی رہنمائوں کے پرخچے اڑانے سے ہی فرصت نہیں ملتی کہ اپنے محکمے پر توجہ دے سکیں۔ زیادہ سے زیادہ ان کا شوق یہ ہے کہ نئی سے نئی ریل گاڑیاں چلائیں اور ان کے نئے نئے نام رکھ کر وزیر اعظم عمران خان سے ان کا افتتاح کرائیں۔ وزیر اعظم کو خوش کرنے کا ایک طریقہ یہ بھی ہے۔ ہم ریلوے کے ایک افسر کے حوالے سے پہلے ہی بتا چکے ہیں کہ شیخ صاحب پرانی گاڑیوں کے نئے نام رکھ کر بھی اپنا نام روشن کرتے ہیں۔ شیخ صاحب فرماتے ہیں کہ ان کے زمانے میں ریل گاڑیوں کے حادثے کم ہوئے لیکن اخباروں کی خبریں دیکھ لیجئے‘ پچھلے ایک سال میں پہلے برسوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ حادثے ہوئے ہیں۔ ریل گاڑیوں میں تاخیر کے واقعات تو عام ہو چکے ہیں۔ روز خبریں آتی ہیں کہ فلاں گاڑی اتنی لیٹ ہو گئی اور فلاں گاڑی اتنی۔ اچھا، شیخ صاحب کو نئے اور اچھوتے کام کرنے کا شوق بھی ہے۔ انہوں نے ملازموں کی بھرتی کے پرانے طریقے کو چھوڑ کر ایک بالکل ہی انوکھا طریقہ اختیار کیا۔ قرعہ اندازی کے ذریعے نوکریاں دی جانے لگیں۔ بھلا بتائیے آپ قرعہ اندازی کرکے کسی امیدوار کی صحت اور کارکردگی کا اندازہ کیسے لگا سکتے ہیں؟ مگر نہیں، یہ شیخ رشید کے دماغ کی اپچ تھی۔ لیکن سنا ہے یہ قرعہ اندازی ختم کر دی گئی ہے۔
عمران خاں نے لیاقت پور کے حادثے کی تحقیقات کا حکم دے دیا ہے۔ اب یہ تحقیقات کون کرے گا؟ اس کے بارے میں کچھ معلوم نہیں۔ لیکن لگے ہاتھوں عمران خان صاحب کو سکھر ایکسپریس میں لگنے والی آگ کی تحقیقات بھی کرا لینا چاہیے۔ اس سے شاید یہ اندازہ بھی ہو جائے کہ تیز گام میں لگنے والی آگ اور سکھر ایکسپریس کی آگ میں کیا فرق ہے؟ اب تو ریلوے کے افسر خود کہہ رہے ہیں کہ شیخ رشید صاحب کو ہر روز حکومت کے مخالف سیاست دانوں کو لتاڑنے اور ان کے خلاف بیان بازی سے ہی فرصت نہیں ملتی‘ وہ ریلوے کے محکمے کی طرف کیسے توجہ دیں؟ اب یہی دیکھ لیجئے کہ روزانہ بلاناغہ کون پریس کانفرنسیں کرتا ہے؟ ایک ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان صاحبہ‘ اور دوسرے شیخ رشید صاحب۔ ایسا لگتا ہے کہ جب تک وہ اخباروں اور ٹیلی وژن کیمروں کے سامنے نہ آ جائیں ان کا کھانا ہضم نہیں ہوتا۔ اب ڈاکٹر صاحبہ کو تو نیا میک اپ کرانے کی ضرورت پڑتی ہو گی، شیخ صاحب کو تو یہ زحمت بھی نہیں کرنا پڑتی۔ ہم معافی چاہتے ہیں ڈاکٹر صاحبہ سے‘ وہ ہر لباس میں اچھی لگتی ہیں۔ اب ہم عمران خان صاحب سے ایک گزارش کرنا چاہتے ہیں۔ اور یہ گزارش ہم اس لئے کر رہے ہیں کہ ان کی حکومت کہیں نہیں جا رہی ہے۔ ضیاء الحق کے بقول ان کا کلہ بہت مضبوط ہے۔ ہاں، تو گزارش یہ ہے کہ کیا عمران خان ایسا نہیں کر سکتے کہ شیخ صاحب کو کوئی ایسی وزارت دے دیں جو تمام وزارتوں پر بھاری ہو‘ اور تمام وزارتوں، محکموں اور تمام شعبوں سے بالاتر ہو؟ شیخ صاحب ہر موضوع اور ہر مسئلے کا پورا پورا ادراک رکھتے ہیں۔ وہ ہر مسئلے اور ہر موضوع پر سیر حاصل بحث کر سکتے ہیں۔ عمران خان کو ان کی اس خداداد صلاحیت سے فا ئدہ اٹھانا چاہئے۔ اس طرح ریلوے کے محکمے میں کام کر نے والوں کو بھی کچھ سکون نصیب ہو گا‘ اور اس بدنصیب ملک کو بھی تھوڑا بہت فائدہ پہنچ جائے گا۔ اب یہاں سید محمد جعفری کا ایک شعر یاد آ گیا ہے۔ یوں تو جعفری صاحب نے یہ شعر ایوب خان کی کابینہ کے بارے میں کہا تھا‘ مگر ایسے شعر ہر وقت کام آ سکتے ہیں۔ تو صاحب وہ شعر یہ ہے:
طلسم ہوش ربا ہے ہماری کابینہ
نہ کوئی اہل نظر ہے نہ کوئی نابینا
اب یہ اہل نظر بھی نہ ہونا اور نابینا بھی نہ ہونا کوئی شاعر ہی کہہ سکتا ہے۔ یا پھر ادب کے نقاد اس میں کوئی نادر نکتہ تلاش کر سکتے ہیں۔ اور پھر آج کل ہی کیا‘ ہماری سیاست میں تو ہمیشہ سے جو کچھ ہوتا رہا ہے، اس پر شاد عارفی کا یہ شعر ہی ہم بار بار پیش کرتے رہتے ہیں:
مرے وطن کی سیاست کا حال مت پوچھو
گھری ہوئی ہے طوائف تماش بینوں میں

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں