"MAC" (space) message & send to 7575

اور اب فیصل آباد فیسٹیول

یہ فیصل آباد کا چھٹا جشنِ ادب تھا۔اس بار اس جشن میں سید بابر علی بھی افتتاحی اجلاس میں موجود تھے۔ انہوں نے یاد دلایا کہ یہ فیصل آباد جب لائل پور تھا تو اس میں ہر سال شنکر شاد مشاعرہ ہوتا تھا۔ شنکر صاحب (پورا نام یاد نہیں) ٹیکسٹائل ملز کے مالک تھے‘ اور اردو کے شیدائی۔ اس مشاعرے میں متحدہ ہندوستان کے تمام نامور شعرا شریک ہوتے تھے۔ یہ روایت قیام پاکستان کے بعد بھی کچھ عرصہ چلی۔ اس کے بعد شنکر جی کا خاندان ہندوستان چلا گیا‘ اور یہ مشاعرہ ختم ہو گیا۔ ٹیکسٹائل ملز کے مشاعرے پر یاد آیا کہ ایک مشاعرہ ملتان میں کالونی ٹیکسٹائل ملز کے زیر اہتمام بھی ہوتا تھا۔ یہ بھی سالانہ تقریب تھی اور اس میں بھی تمام معروف شعرا شریک ہوتے تھے۔ ان مشاعروں کی روایت ختم ہوئی تو فیصل آباد کا جشنِ ادب شروع ہو گیا۔ یہ فیصل آباد فیسٹیول تین خواتین کے دم قدم سے قائم ہے‘ سارہ حیات، شیبا عالم اور توشیبا۔ کہہ لیجئے کہ اصغر ندیم سید ان کے سہولت کار ہیں۔ یہ سہولت کار ہم نے لغوی معنی میں استعمال کیا ہے، اصطلاحی معنی میں نہیں کہ اصطلاحی معنی میں یہ لفظ خاصا خطرناک ہو گیا ہے۔ اب کوئی بھی تقریب اگر خواتین کے ہاتھ میں ہو تو اس میں وہی سلیقہ اور وہی نفاست نظر آتی ہے جو خواتین کے ساتھ مخصوص ہیں۔ یہ اس جشن میں بھی نظر آیا۔ 
اس بار افتتاحی اجلاس کا موضوع تھا ''ہمارا ادب اور فنون لطیفہ، آج کے تناظر میں‘‘ اور ہمیں اس پر بات کرنا تھی۔ ہم نے آج کے تناظر سے بات شروع کی۔ ہماری قوم، ہمارا معاشرہ اور اس معاشرے میں زندگی گزارنے والا ہر فرد آج بے شمار الجھنوں میں پھنسا ہوا ہے۔ وہ اکیسویں صدی میں بھی جینا چاہتا ہے اور صدیوں پہلے کے سماج میں بھی۔ ہم تضادات کا شکار ہیں۔ ہم کئی متضاد اور متناقض چیزوں کا اجتماع چاہتے ہیں۔ ایک طرف ہم کوک سٹوڈیو کے مغرب زدہ گانے ذوق و شوق سے سنتے ہیں‘ نوجوانوں کی بنائی ہوئی ہنگامہ خیز فلمیں دیکھتے ہیں اور ان کے آئٹم سانگز پر جھومتے ہیں‘ اور دوسری طرف ہمارے ٹیلی وژن پر ایسے تبلیغی ڈرامے دکھائے جاتے ہیں، جن میں کام کرتے کرتے ایک فن کار اچانک تارک دنیا ہو جاتا ہے۔ وہ ڈراموں اور فلموں میں کام کرنا چھوڑ دیتا ہے۔ ہم جانتے ہی نہیں کہ ہم جانا کہاں چاہتے ہیں۔ ہمارے بارے میں کسی نے بہت اچھی بات کہی تھی۔ ہم گاڑی آگے چلا رہے ہیں اور دیکھ پیچھے رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پچھلے ستر بہتّر سال سے ہم ٹھوکروں پر ٹھوکریں کھائے چلے جا رہے ہیں۔ یہ الجھنیں ہمارا پیچھا ہی نہیں چھوڑتیں۔ یہ آج جو پوسٹ ٹرتھ اور من گھڑت خبروں کا چرچا ہے ہمارے لئے یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ کچھ عرصے پہلے تک ایک صاحب بہت ہی بلند آواز میں چیخ چیخ کر غزوہ ہند کی بات کیا کرتے تھے۔ وہ ایک حدیث کا حوالہ دیتے تھے کہ آخری غزوہ، غزوۂ ہند ہو گا۔ اور ہمارے سادہ لوح عوام ان کی بات کا اعتبار کر لیا کرتے تھے۔ ہم نے اس بارے میں اسلامی نظریاتی کونسل کے سابق سربراہ اور ممتاز عالم دین ڈاکٹر خالد مسعود سے سوال کیا تو انہوں نے بتایا کہ ایسی کوئی حدیث نہیں ہے۔
ہمارے ٹیلی وژن ڈراموں میں اب گمراہی پھیلائی جا رہی ہے۔ جس قوم کو علم حاصل کر نے کے لیے چین تک جانے کی تلقین کی گئی ہے، اس قوم کو آ گے بڑھنے کے بجائے پیچھے جانے کا سبق سکھایا جا رہا ہے۔ علم حاصل کرنے کے لئے چین تک جانے کی تلقین ایک استعارہ تھا کہ جہاں سے بھی علم حاصل کر سکتے ہو کرو۔ مسلمانوں نے علم یونان سے حاصل کیا۔ ایران سے حاصل کیا، حتیٰ کہ قدیم ہندوستان سے حاصل کیا۔ عباسی سلطنت کے زعما برامکہ ہندوستان سے گئے تھے۔ آج علم کہاں پیدا ہو رہا ہے؟ آپ سوچ لیجئے۔ ہم آگے دیکھیں گے یا پیچھے؟
دوسرے دن ایک موضوع تھا ''تخلیقی ذہانت کے خشک ہوتے سوتے‘‘۔ میزبان تھیں ڈاکٹر شیبا عالم اور شرکا تھیں ڈاکٹر عارفہ سیدہ اور ڈاکٹر امر سندھو۔ عارفہ ادب اور تاریخ کی استاد ہیں، اور امر سندھو فلسفے کی استاد۔ اگر ان کی باتوں کو سامنے رکھا جائے تو واقعی ہمارے ہاں ذہانت کے سر چشمے خشک ہو رہے ہیں۔ ہم دوسروں کے چبائے ہوئے لقمے ہی چبا رہے ہیں۔ ترقی یافتہ دنیا میں مصنوعی ذہانت پیدا کی جا رہی ہے۔ کمپیوٹر اور روبوٹ میں ذہانت پیدا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے بلکہ وہاں اب یہ بحث کی جا رہی ہے کہ کمپیوٹر اور روبوٹ میں ذہانت تو پیدا کی جا سکتی ہے لیکن ان میں شعور اور احساس پیدا نہیں کیا جا سکتا۔ خوشی اور غم کا شعور اور احساس، جو صرف انسان کی خاصیت ہی ہے، یہ احساس اور شعور کمپیوٹر اور روبوٹ تک کیسے پہنچایا جائے؟ اور ہم اپنے تخلیقی سوتوں کا رونا رو رہے ہیں۔ ظاہر ہے جب ہمارے ہاں فلسفہ صرف علم کلام تک ہی محدود ہو گیا ہو تو ہمارے تخلیقی سوتے کہاں تک بہتے رہیں گے۔ 
''اردو فکشن کے نئے افق‘‘ پر بات کر رہی تھیں ڈاکٹر نجیبہ عارف، ڈاکٹر طاہرہ اقبال۔ میزبان تھے داکٹر ناصر عباس نیر۔ انہوں نے ہمارے افسانوں اور ناولوں میں نئے افق تلاش کئے۔ طاہرہ اقبال کی پریشانی یہ تھی کہ ہماری فکشن میں مقامیت کیوں نہیں ہے۔ ہم نے انہیں یاد دلایا کہ ہمارے افسانوں کے ساتھ کئی ناول ایسے ہیں جو کسی نہ کسی خاص مقام سے تعلق رکھتے ہیں۔ خود ان کا اپنا ناول مقامیت کا رنگ لئے ہوئے ہے۔ پھر جنوبی پنجاب اور شمالی پہاڑی علاقوں کے پس منظر میں کئی ناول لکھے گئے ہیں۔ لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ ہم اس فکشن میں مقامی زبان بھی استعمال کریں۔ یہ فکشن اردو پڑھنے والوں کے لئے ہے اور اردو پڑھنے والے پنجاب کے علاوہ کراچی، سندھ، بلو چستان، بختونخوا کے ساتھ ساتھ ہندوستان اور دوسرے ملکوں میں بھی رہتے ہیں۔ اس لئے اردو کو اردو ہی رہنے دیں تو اچھا ہے۔ اب جہاں تک مقامیت کا تعلق ہے‘ اصغر ندیم سید کا ناول ''ٹوٹی ہوئی طناب ادھر‘‘ بھی قدیم اور جدید ملتان کے بارے میں ہی ہے (یہ ناول ابھی ہم نے نہیں پڑھا)۔ اس بار کلام شاعر بزبان شاعر کے مہمان تھے امجد اسلام امجد۔ حاضرین نے ایک گھنٹہ ان کا کلام سنا، اور محظوظ ہوئے۔ 
فیصل آباد والوں کو شکایت یہ تھی کہ اس جشن میں ان کا کوئی حصہ نہیں ہوتا؛ چنانچہ اس بار زمان خان نے ''پنجاب وچ بولی ریتلی، رنگا رنگی دی تند‘‘ کے موضوع پر مشتاق صوفی اور ڈاکٹر سعید بھٹہ سے باتیں کیں۔ ڈاکٹر سعید بھٹہ کی تحقیق راجہ پورس پر ہے۔ انہوں نے اس کی تفصیل بیان کی لیکن انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ ہندوستان میں اس راجہ کا نام پورو تھا۔ پورس اسے یونانیوں نے بنایا تھا۔ وہ ادیب جو حال ہی میں ہم سے بچھڑ گئے ہیں، بہرحال انہیں یاد کرنا بھی ضروری تھا۔ یہ ادیب ہیں الطاف فاطمہ، خالدہ حسین، فہمیدہ ریاض اور انور سجاد۔ کشور ناہید‘ یاسمین حمید اور ہم نے انہیں یاد کیا۔ کشور ناہید کے بقول یہ چاروں ادیب اپنے مزاج، اپنے طور اطوار اور اپنے اسلوب میں بالکل ہی مختلف تھے۔ الطاف فاطمہ دھیمے مزاج اور الگ تھلگ رہنے والی، خالدہ حسین بھی ایسے ہی مزاج کی، مگر فہمیدہ ریاض اور انور سجاد ہر میدان میں سر گرم اور تیز و تند مزاج رکھنے والے۔ اپنی تخلیقات میں بھی ہر ایک کا منفرد انداز۔
ایک انگریزی کتاب بھی پروگرام کا حصہ تھی۔ یہ نوید شہزاد کی کتاب Aslan's Roar ہے۔ یہ ترکی کے اس ڈرامے سے متعلق ہے جس میں ترکی کی تاریخ کے مختلف ادوار پیش کئے گئے ہیں۔ حارث خلیق بات کر رہے تھے محترمہ نوید شہزاد سے۔ نوید شہزاد یوں تو استاد ہیں۔ کئی تعلیمی اداروں میں پڑھاتی رہی ہیں۔ لیکن ہمارے پڑھنے والوں نے انہیں پی ٹی وی کے ڈراموں میں ضرور دیکھا ہو گا۔ خاص طور سے انور مقصود کا وہ ڈرامہ جس میں وہ ایسی عمر رسیدہ ماں بنی ہوئی ہیں جن کے بچے پاکستان سے باہر چلے گئے ہیں۔ جب وہ چپل گھسیٹتی ہوئی چلتی ہیں تو ایک ماں کی ساری محبت، شفقت اور دکھ درد سب سامنے آ جاتے ہیں۔ ان کی یہ کتاب ہم نے نہیں پڑھی‘ لیکن حارث خلیق نے بتایا کہ ترکی کی قدیم و جدید تاریخ کے ساتھ وہاں کی بدلتی ہوئی تہذیب و ثقافت بھی اس کتاب میں نہایت خوبی سے بیان کی گئی ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں