"MAC" (space) message & send to 7575

صدیقہ بیگم اور ادب لطیف

اور وہ چلی گئیں۔ صدیقہ بیگم اپنے والد چودھری برکت علی کا چوراسی سال کا ادبی ورثہ ''ادب لطیف‘‘ چھوڑ کر چلی گئیں۔ وہ ہنستا مسکراتا چہرہ جو نیّر علی دادا کی ماہانہ بیٹھک کی زینت ہوتا تھا، اس دنیا سے ہی منہ موڑ گیا۔ نہایت ہی نفیس اور خوش مزاج خاتون، جب تک گلبرگ میں رہیں، ان کے گھر پر بھی ادبی محفلیں جمتی رہیں۔ جب شہر سے دور چلی گئیں تو دوسری ادبی محفلوں میں نظر آ جاتی تھیں۔ سانس کی تکلیف بہت پرانی تھی۔ اور یہ تکلیف کیوں تھی؟ یہ بھی ان کے عزیزوں اور جاننے والوں کو خوب معلوم تھا۔ لیکن وہ اس تکلیف پر قابو پانا بھی جانتی تھیں۔ جب بھی سانس کی تکلیف بڑھنے کا موسم آتا وہ دبئی چلی جاتیں۔ لیکن تین مہینے پہلے اس تکلیف نے انہیں ہسپتال، اور پھر آئی سی یو پہنچا دیا۔ اور آخر اسی تکلیف نے ان کی جان لے لی۔ لیکن اس عرصے میں انہیں ایک اور بہت ہی المناک صدمے کا سامنا بھی کرنا پڑا تھا۔ یہ صدمہ تھا ان کے جوان داماد کی اچانک وفات۔ ان کا داماد کون تھا؟ اشفاق احمد کا بیٹا انیس احمد خاں۔ خوبصورت، جوان اور صحت مند۔ معمولی بیماری پر ہسپتال گیا اور وہاں سے اس کی میت ہی واپس آئی۔ صدیقہ بیگم اس کا ذکر تو نہیں کرتی تھیں مگر انہوں نے یہ صدمہ اپنے دل پر لیا تھا۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ ان کی سانس کی پرانی تکلیف میں اضافے کا ایک سبب یہ بھی تھا۔ 
صدیقہ بیگم اپنے والد کا تاریخی ورثہ ''ادب لطیف‘‘ زندہ رکھنے کے لئے آخری عمر تک اس رسالے کے خرچے پورے کرتی رہیں۔ تین چار مہینے پہلے ملاقات ہوئی تو کہا تھا کہ اب یہ رسالہ ناصر زیدی کے حوالے کر دیا ہے‘ میں نے اس پر توجہ دینا بند کر دی ہے۔ ناصر زیدی عام پرچوں کے علاوہ خاص نمبر بھی نکال رہے تھے لیکن اب ماہوار رسالے والی پابندی برقرار نہیں رہ سکی تھی؛ البتہ رسالہ چل رہا تھا‘ اور شاید اب بھی چلتا رہے۔
آ پ جانتے ہی ہوں گے کہ ''ادب لطیف‘‘ اردو کا وہ واحد ادبی جریدہ ہے جو 1935 سے بلا توقف شائع ہو رہا ہے۔ اس جریدے کے اس تاریخی تسلسل سے آپ نہ صرف اردو ادب کی تاریخ مرتب کر سکتے ہیں بلکہ ان معروف و ممتاز ادیبوں کی فہرست بھی تیار کر سکتے ہیں جو اس رسالے کے ایڈیٹر رہے ہیں۔ اب تو کسی کو یاد بھی نہیں ہو گا کہ اس رسالے کے پہلے ایڈیٹر طالب انصاری بدایونی تھے۔ یہ طالب انصاری بدایونی کو ن تھے؟ اس کے لئے آپ کو اس کتاب سے رجوع کرنا پڑے گا جو اس رسالے کی تاریخ پر لکھی جائے گی۔ ہمارا خیال ہے یہ تاریخ شاہد بخاری صاحب لکھیں گے۔ شاہد بخاری صاحب پچھلے آٹھ دس سال سے صدیقہ بیگم کے معاون کے طور کام کر رہے تھے۔ طالب انصاری کے بعد کون کون مشہور و معروف ادیب و شاعر اس کا ایڈیٹر بنا؟ تاریخی ترتیب کے ساتھ تو وہ نام یاد نہیں۔ لیکن ان کے بعد فیض احمد فیض، میرزا ادیب، احمد ندیم قاسمی، راجندر سنگھ بیدی، قتیل شفائی، ممتاز مفتی، فکر تونسوی، عارف عبدالمتین، انتظار حسین، قاسم محمود، ذکاء الرحمن، کشور ناہید، مستنصر حسین تارڑ جیسے نامور ادیب اس رسالے کی ادارت کے فرائض ادا کرتے رہے۔ ان ناموں میں آپ ہمارا نام بھی شامل کر لیجئے۔ سال‘ ڈیڑھ سال ہم نے بھی یہ فرض ادا کیا۔ اور ہندوستان اور پاکستان کا کون سا نامور ادیب اور شاعر ایسا ہے جس کی تخلیقات اس رسالے میں شائع نہیں ہوئیں؟ خالدہ حسین تو اعتراف کرتی تھیں کہ جب تک ان کے افسانے دوسرے رسالوں میں چھپتے رہے ادبی میدان میں ان کی کوئی پہچان نہیں تھی۔ انتظار حسین نے جب ان کے افسانے ''ادب لطیف‘‘ میں شائع کئے تو پورے جنوبی ایشیا میں وہ پہچانی گئیں اور اسی رسالے میں انہیں اپنا وہ منفرد اسلوب اختیار کرنے کا موقع ملا، جو ان کی پہچان بن گیا۔ اوپر اس رسالے کے جن مدیروں کا حوالہ دیا گیا ہے انہوں نے اپنے اپنے انفرادی انداز میں اس رسالے کو ادبی افق پر نمایاں کیا۔ ادب لطیف کے ساتھ اور بھی کئی ادبی رسالے لاہور سے شائع ہوتے تھے لیکن ایک ایک کر کے وہ بند ہو گئے مگر ادب لطیف جاری رہا۔ اسے صدیقہ بیگم جیسی سرپرست جو مل گئی تھیں۔ 
ایک نام ایسا بھی ہے جو ایک طویل عرصے اس رسالے کی ادارت سے وابستہ رہا۔ وہ تھے مرحوم میرزا ادیب۔ انہوں نے دو بار اس کی ادارت سنبھالی۔ ایک مرتبہ انہوں نے یہ منصب چھوڑ دیا تھا۔ لیکن دوبارہ پھر وہ اس کے ساتھ وابستہ ہو گئے۔ اس رسالے کے ساتھ ہمارا رشتہ بھی اسی زمانے میں استوار ہوا۔ یہ1951-52 کا زمانہ تھا۔ ہم نئے نئے لاہور وارد ہوئے تھے۔ میرزا ادیب ہماری تصویر کے ساتھ ہمارا افسانہ شائع کر چکے تھے۔ (ان دنوں رسالے کے ٹائٹل پر چند لکھنے والوں کی تصویریں بھی شائع ہوتی تھیں) ہم لاہور آئے تو سیدھے ادب لطیف کے دفتر پہنچے۔ میرزا ادیب سے ملے اور ان کے گرویدہ ہو گئے۔ ہم بیکار‘ کوئی کام نہ دھام۔ صبح کو نکلتے تو سیدھے میرزا صاحب کے پاس چلے جاتے۔ میرزا صاحب سے باتیں کرتے اور وہاں آنے والے رسالے پڑھتے رہتے۔ میرزا صاحب نے بھی موقع سے فائدہ اٹھایا اور رسالے میں چھپنے کے لئے آنے والے افسانوں اور مضامین کی پروف ریڈنگ ہمارے سپرد کر دی۔ ہم بھی خوش کہ اس بہانے ہمیں اچھے اچھے لکھنے والوں کی تخلیقات پڑھنے کا موقع مل جاتا ہے۔ لیکن یہ کام ہم اکیلے نہیں کرتے تھے۔ اسی زمانے میں میرزا صاحب کے پاس ایک اور نوجوان نے بھی آنا شروع کیا تھا‘ اور وہ نوجوان تھا کمال احمد رضوی۔ ہم دونوں قریب قریب ایک ہی عمر کے تھے۔ کمال احمد رضوی سے ہماری دوستی بھی میرزا ادیب کے دفتر میں ہی ہوئی۔ میرزا صاحب کمال احمد رضوی کو بھی معاف نہیں کرتے تھے۔ اسے بھی پروف ریڈنگ پر لگا دیتے تھے۔ لیکن میرزا صاحب ہمیں چائے بھی پلاتے تھے۔ دوپہر میں بیٹھے بیٹھے میرزا صاحب کہتے ''چلو، چائے پینے چلیں‘‘ اور ہم انار کلی کے ایک چھوٹے سے ریستوران میں چائے پیتے۔ 
اس کے بعد کمال احمد رضوی کہیں چلا گیا۔ ہم کہیں چلے گئے۔ سب اپنے اپنے دھندے سے لگ گئے مگر میرزا ادیب اور ادب لطیف سے ہمارا تعلق قائم رہا۔ یہاں ہم ایک بات بتانا تو بھول ہی گئے۔ انہی دنوں میرزا صاحب کی تخلیق ''صحرا نورد کے خطوط‘‘ شائع ہوئی تھی۔ اس کتاب نے اردو پڑھنے والوں میں تہلکہ مچا دیا تھا۔ قریب ہر روز ہی اس کتاب کی تعریف میں خطوط کا ایک پلندہ میرزا صاحب کو ملتا تھا۔ یہ خط صرف میرزا صاحب ہی نہیں پڑھتے تھے بلکہ ہم بھی انہیں بڑے شوق سے پڑھتے تھے۔ میرزا صاحب کو جو خط زیادہ اچھے لگتے، یا جن خطوں سے خوشبو آ رہی ہوتی وہ انہیں اپنی جیب میں رکھ لیا کرتے تھے۔ بہرحال یہ دور ''ادب لطیف‘‘ کے ساتھ ہمارا بھی بہت ہی شان دار دور تھا۔ اور ہاں، ان دنوں ''اد ب لطیف‘‘ کا دفتر سرکلر روڈ پر تھا‘ جہاں سے قریب ہی مچھلی کی دکانیں تھیں۔ اوپر ''ادب لطیف‘‘ کا دفتر تھا اور نیچے ''سویرا‘‘ کا دفتر۔ اس وقت احمد راہی سویرا کے ایڈیٹر تھے۔ یہی زمانہ ہے جب اے حمید کا ناول ''ڈربے‘‘ شائع ہوا تھا اور اے حمید دیکھتے ہی دیکھتے نامور ناول نگار بن گئے تھے۔ احمد راہی سے ان کی بہت گہری دوستی تھی۔ احمد راہی کہا کرتے تھے: حمید، میں جب فلم بنائوں گا تو تجھے اس کا ہیرو بنائوں گا۔ بعد میں ان کا تعلق فلم سازی سے رہا لیکن معلوم نہیں اے حمید ہیرو کیوں نہیں بن سکے حالانکہ وہ خاصے خوبرو نوجوان تھے۔ اب حسن منظر صاحب کو تو شاید یاد نہ ہو لیکن ان سے بھی ہماری ملاقات ''سویرا‘‘ کے دفتر میں ہی ہوئی تھی۔ ان دنوں وہ کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج میں پڑھ رہے تھے۔ 
لیجئے، صدیقہ بیگم نے ہمیںکیا کیا اور کون کون یاد دلا دئیے۔ وہ زمانہ ہی ایسا تھا۔ لاہور کہنے کو تو بڑا شہر تھا لیکن اتنا بھی بڑا نہیں کہ ایک دوسرے سے ملنے کے لئے میلوں کا فاصلہ طے کرنا پڑے۔ پھر ایک گیا، دوسرا گیا۔ اور اب صدیقہ بیگم بھی چلی گئیں۔ رہے نام اللہ کا۔ اب رسالہ ''ادب لطیف‘‘ صرف ان کے والد چودھری برکت علی کی یادگار ہی نہیں ہے، بلکہ اب وہ صدیقہ بیگم کی یادگار بھی بن گیا ہے کہ وہی تو اس کی سرپرست تھیں۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں