"MAC" (space) message & send to 7575

یہ پیروں سے سوچنے والے

ہائے ری سردی، ہائے ری سردی۔ سارے بدن میں برف سی بھر دی۔ اب یہ کہر ہے، دھند ہے یا سموگ ہے؟ آسماں نظروں سے غائب ہے، بس غبار ہی غبار ہے۔ سورج کبھی ڈرتے ڈرتے نکلنے کی کوشش کرتا ہے مگر پھر اپنا منہ چھپا لیتا ہے، جیسے اسے بھی سردی لگ رہی ہو۔ ایسے میں اگر کہیں سے حدت یا گرمی محسوس ہوتی ہے تو وہ ہمارے روزمرہ کے حالات ہیں۔ چقماق ٹکرا رہے ہیں‘ چٹانیں ٹکرا رہی ہیں اور چنگاریاں پھوٹ رہی ہیں۔ بس خطرہ یہ ہے کہ کہیں یہ چنگاریاں شعلہ نہ بن جائیں اور سب کچھ بھسم نہ ہو جائے۔ سب کے ماتھے پر بل پڑے ہیں۔ ایک دوسرے کو خشمگیں نگاہوں سے گھور رہے ہیں۔ اور ہمارے دل پنکھے بنے ہوئے ہیں۔ کہیں ایسا نہ ہو جائے، کہیں ویسا نہ ہو جائے۔ ایسے میں ہمیں ان جج صاحب کا ہلکا پھلکا مذاق اچھا لگا، جن کے لکھے ہوئے فیصلے نے ہمارے زمین آسمان ایک کر دیئے ہیں۔ ان سے کسی نے پوچھا کہ کیا وہ ٹیلی وژن پروگرام دیکھتے ہیں؟ ان کا جواب تھا ''میں ٹیلی وژن پر صرف ریسلنگ دیکھتا ہوں‘‘ کیا معانی در معانی اور ہنگامہ خیز بات کی ہے ان جج صاحب نے۔ ہم، جو لا علم اور بے خبر ہیں‘ ان کا مذاق اڑا رہے ہیں کہ ایک جج صاحب ٹیلی وژن پر صرف ان ننگ دھڑنگ پہلوانوں کی کشتیاں دیکھتے ہیں جو صرف تماشائیوں کو خوش کرنے کے لئے ایک دوسرے کی ہڈیاں توڑنے کی بے سود کوشش کرتے نظر آ تے ہیں۔ لیکن وہ جج صاحب جو کہہ گئے ہیں، ذرا اسے سمجھنے کی کوشش تو کیجئے۔ البتہ، انہوں نے اپنے فیصلے کے آخر میں جو کچھ لکھ دیا ہے اس پر ماہرین نفسیات کی اس بات پر یقین کرنے کو جی چاہتا ہے کہ انسان خواہ کتنے ہی دعوے کرے کہ وہ اپنے فیصلے انتہائی حقیقت پسندی، عقلیت پسندی اور عقل و خرد کی غیر جذباتی بنیاد پر کرتا ہے، لیکن کہیں نہ کہیں اس کے جذبات ان فیصلوں پر حاوی ہو جاتے ہیں۔ اور یہی جذبات آگ لگا دیتے ہیں۔ لیکن یہ بھی تو دیکھیے کہ یہ چند جملے اصل فیصلے پر اثر انداز تو نہیں ہوتے۔ اور پھر یہ جملے حذف بھی کرائے جا سکتے ہیں۔ بلاول بھٹو غلط تو نہیں کہتے کہ فیصلے کا یہ حصہ ''آپریٹیو حصہ نہیں ہے‘‘ اصل میں تو یہ ایک جج کی رائے ہے۔ سیدھی سی بات ہے کہ اب یہ مقدمہ سپریم کورٹ میں جائے گا۔ آخری فیصلہ وہیں ہو گا۔ ہماری سمجھ میں یہ نہیں آ رہا ہے کہ اس فیصلے پر اتنا ہنگامہ کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ جب ہمارے سامنے سپریم کورٹ موجود ہے تو اتنی پریشانی کیوں ہے؟ جج کے خلاف جوڈیشل کونسل میں جانے کی بات بھی مضحکہ خیز ہی معلوم ہوتی ہے۔ بنیادی سوال یہ ہے کہ آئین شکنی کی گئی یا نہیں؟ اور ہمارے دستور میں آئین شکنی کی سزا کیا ہے؟ بس، ہمیں تو ان دونوں سوالوں کا جواب چاہیے اور عدالت نے ان دونوں سوالوں کا ہی جواب دیا ہے۔ اگر کوئی شک ہے تو سپریم کورٹ میں بھی ان سوالوں کا جواب مل جائے گا۔ اس لئے اب سپریم کورٹ جانے کی تیاریاں کر لی جائیں تو اچھا ہے۔ ہم یہ کیوں نہیں سوچتے کہ اس عرصے میں ہم نے دنیا بھر میں اپنے آپ کو ایک تماشہ بنا لیا ہے۔ دنیا ہمارا مذاق بنا رہی ہے۔ کیا یہ کھیل جلد سے جلد ختم نہیں ہو جانا چاہیے؟ ذرا ٹھنڈے دل و دماغ سے سوچیے۔ اس بحث مباحثے میں ہمیں فہمیدہ ریاض یاد آ گئی ہیں۔ ہمارے قاضی القضاۃ نے اپنی بات میں وزن پیدا کرنے کیلئے انکی نظم کا ایک شعر پڑھا ہے۔ چلئے اسی بہانے ہم ان کی ایک اور نظم بھی پڑھ لیتے ہیں۔ عنوان ہے ''کوتوال بیٹھا ہے‘‘۔ اور یہ نظم ضیاء الحق کے زمانے کی ہے۔
کوتوال بیٹھا ہے
کیا بیان دیں اس کو
جان جیسے تڑپی ہے
کچھ عیاں نہ ہو پائے
وہ گزر گئی دل پر
جو بیاں نہ ہو پائے
لو بیان دیتے ہیں
ہاں، لکھو کہ سب سچ ہے
سب درست الزامات
اپنا جرم ثابت ہے
جو کیا بہت کم تھا
صرف یہ ندامت ہے 
کاش وقت لوٹ آئے
حق ادا ہوا ہے کب
یہ کرو اضافہ اب
جب تلک ہے دم میں دم
پھر وہی کریں گے ہم
ہو سکا تو کچھ بڑھ کر
پھر وہ حرف لکھیں گے
تیرہ زاد ہر آمر
کانپ اٹھے جسے پڑھ کر
پھر وہ گیت چھیڑیں گے 
بستہ دست ہر مظلوم 
جھوم اٹھے جسے گا کر 
یہ اس طویل نظم کا ایک حصہ ہے۔ اگر پوری نظم پڑھنا ہو تو اس کا مجموعہ کلام ''سب لعل و گہر‘‘ پڑھ لیجئے۔ اگر آج فہمیدہ ریاض زندہ ہوتیں تو شاید اس سے بھی زیادہ کٹیلی اور اس سے بھی زیادہ طویل نظم لکھتیں۔ اصل میں یہ شاعروں اور تخلیقی فن کاروں کا ہی حوصلہ ہے کہ وہ کڑے سے کڑے وقت میں بھی ایسی تیز دھار بات کہہ جاتے ہیں کہ جس پر چوٹ مارنا چاہتے ہیں اس پر چوٹ بھی پڑ جاتی ہے اور وہ خود بچ بھی جاتے ہیں۔ یہ وقت تخلیق کاروں کے لئے ہی زیادہ موزوں ہے۔ چارلز ڈکنز نے تو کسی اور زمانے کو دلچسپ زمانہ قرار دیا تھا‘ لیکن ہم اپنے آج کے زمانے کو انتہائی دلچسپ زمانہ کہہ سکتے ہیں۔ دلچسپ اور تضادات سے بھرپور زمانہ۔ ایک صاحب کل کچھ کہہ رہے تھے اور آج کچھ کہہ رہے ہیں۔ ذرا سی بھی خجالت ان کے چہرے پر نظر نہیں آتی۔ جو کام خاموشی سے ہو سکتا تھا اس پر اتنا ہنگامہ کیا جا رہا ہے جیسے پوری قوم کی زندگی اور موت کا انحصار اسی ایک مسئلے پر ہو۔ یہ بھی نہیں سوچا جا رہا ہے کہ اس طرح اداروں کا وقار اور ان کی ساکھ مجروح ہو رہی ہے۔ اس وقت تو ہم غصے اور طیش میں ہیں۔ معلوم نہیں، بعد میں بھی ہمیں اس کا احساس ہو گا یا نہیں کہ اس ہنگامے میں ہم نے اپنے آپ کو کتنا نقصان پہنچایا ہے۔ اس وقت تو طیش میں ہمیں کچھ بھی نظر نہیں آ رہا ہے۔
اور آخر میں فہمیدہ ریاض کی نظم ''اے دیس مبارک ہو‘‘ کا کچھ حصہ بھی پڑھ لیجئے
ا ے دیس مبارک ہو/پہچان کی یہ ساعت/ جو آئی نہ تھی پہلے/رقصاں ہیں مری گلیاں/گاتے ہیں مرے گائوں/ اک گیت نئی دھن میں/وہ گیت کہ لے جس کی گرمائی نہ تھی پہلے/اک گیت اندھیروں کی جو کوکھ میں پلتا ہے /کیچڑ سے اٹی گندی گلیوں سے ابلتا ہے/شریانوں سے رس رس کر ڈھلتا ہے پسینے میں/کھلتا ہے نمک بن کر گندم کے خزینے میں/ یہ گیت بڑا وحشی آداب سے بیگانہ/ہر محفل رنگین میں گھس آتا ہے درانہ/سنتے ہو دھمک اس کی؟
اب یہ کہر ہے، دھند ہے یا سموگ ہے؟ آسمان نظر نہیں آ رہا ہے۔ سورج تو جیسے شرمندہ ہو کر اس دھند میں ہی جا چھپا ہے۔ لگتا ہے جیسے آسمان سے ہمارا رشتہ ٹوٹ گیا ہے۔ شاعر نے تو کہا تھا‘ زمیں سخت اور آسماں دور ہے۔ مگر یہاں توجیسے نہ ہماری اپنی زمین ہے، اور نہ ہمارا آسمان۔ ہم گھپ اندھیرے میں ہاتھ پائوں ما رہے ہیں۔ جونہی ہمیں محسوس ہوتا ہے کہ اب ہمارا راستہ صاف ہونے والا ہے کوئی نہ کوئی ایسا واقعہ ہو جاتا ہے کہ ہم ایک بار پھر قعر مذلت میں جا گرتے ہیں۔ آج کل ہم پھر ادھر ادھر ہاتھ پائوں مار رہے ہیں۔ ہم غصے اور طیش میں سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سے ہی محروم ہو چکے ہیں۔ اور بزرگ کہہ گئے ہیں، جو جلدی میں رہتا ہے وہ دماغ کے بجائے اپنے پیروں سے سوچتا ہے۔ تو کیا ہم پیروں سے سوچ رہے ہیں؟ اس سوال کا جواب بھی ہمارا مستقبل ہی دے گا۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں