لیجئے، فیض احمد فیض کی نظم بھی نفرت پھیلا رہی ہے۔ یہ کہا ہے ہندوستان کے شہر کانپور کے ایک پروفیسر صاحب نے۔ آج کل وہاں شہریت کے نئے قانوں کے خلاف جو احتجاجی مظاہرے ہو رہے ہیں، انہیں جوش و جذبہ اور حدت و حرارت مل رہی ہے فیض اور حبیب جالب سے۔ اب ہندی زبان میں تو ایسی نظمیں اور ایسے شعر ملتے نہیں جنہیں پُر جوش اور شعلہ فشاں نعروں کے طور پر استعمال کیا جا سکے۔ اس لئے اردو نظموں اور شعروں کا ہی سہارا لیا جاتا ہے۔ اس معاملے میں فیض اور حبیب جالب کا کلام ہی زیادہ کام آ تا ہے۔ حبیب جالب کی نظم ''میں نہیں جانتا۔ میں نہیں مانتا‘‘ تو وہاں نوجوانوں کا جیسے ترانہ ہی بن گئی ہے۔ یونیورسٹیوں کے طلبہ سے لے کر عام احتجاج کرنے والوں تک یہی نعرے لگاتے ہیں۔ لیکن اب معلوم ہوا کہ وہاں فیض صاحب کی نظم ''ہم دیکھیں گے‘ لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے‘‘ بھی احتجاجی جلوسوں کا خون گرما رہی ہے۔ یہ ایک ہندوستانی اخبار کی ہی خبر ہے کہ پچھلے دنوں ہندوستان کے دوسرے شہروں کی طرح کانپور میں بھی طلبہ شہریت کے قانون کے خلاف جلوس نکال رہے تھے اور فیض کی یہ نظم پڑھ رہے تھے۔ ایک پروفیسر صاحب نے یہ سنا تو فرمایا: یہ لوگ نفرت پھیلا رہے ہیں۔ یہ وہاں کے اخبار نے لکھا ہے۔ ہماری سمجھ میں تو نہیں آیا کہ اس نظم سے نفرت کیسے پھیلتی ہے۔ پروفیسر صاحب اس طرح اس نظم پر سینسر لگانا چاہتے ہیں‘ لیکن شاید وہ نہیں جانتے کہ یہ نظم پہلے ہی سینسر کی زد میں آ چکی ہے اور یہ سینسر فیض صاحب نے خود ہی لگایا تھا۔ ٹوبہ ٹیک سنگھ کے تاریخی اجتماع میں جو نظم پڑھی گئی‘ وہ مکمل نظم تھی‘ لیکن بعد میں اس کا آخری حصہ حذف کر دیا گیا تھا۔ ڈر یہ تھا کہ کہیں اسے مذہبی رنگ دے کر کچھ اور ہی معنی نہ پہنا دیئے جائیں حالانکہ بشیر اور خبیر جیسے الفاظ اپنے لغوی معنے میں استعمال کئے گئے تھے۔ اس کا انکشاف سب سے پہلے اسلام آباد میں بیٹھے پیپلز پارٹی کے ایک جیالے ضیا کھوکھر نے کیا تھا۔ بعد میں کچھ اور لوگ بھی اس تحقیق میں شامل ہو گئے۔
اب سینسر زدہ اور آزاد صحافت کا ذکر آیا ہے تو یہاں ہم اس کتاب کا حوالہ بھی دینا چاہتے ہیں جو حال ہی میں شائع ہوئی ہے۔ کتاب کا نام ہے ''پاکستان میں صحافت کی متبادل تاریخ ‘‘ اور اس کے مصنف ہیں ڈاکٹر توصیف احمد خان۔ توصیف احمد خان وفاقی اردو یونیورسٹی کراچی کے شعبہ ابلاغیات کے سابق سر براہ ہیں۔ کتاب کا انتساب ہے ''ان تمام مدیروں اور صحافیوں کے نام جنہوں نے آزادیٔ صحافت اور جمہوریت کی علم برداری کے لئے قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں‘‘۔ اس کتاب میں ان چیدہ چیدہ اخباروں کے کردار کا جائزہ لیا گیا ہے‘ جنہوں نے آمریتوں کے خلاف آواز بلند کی‘ اور پاکستانی معاشرے کے اندر مظلوم طبقوں کے حقوق کے لئے آ گہی پیدا کرنے کو اپنی ادارتی پالیسی کا فرضِ اولین قرار دیا۔ اس میں جن رسائل اور اخباروں کا جائزہ لیا گیا ہے ان میں ہفت روزہ لیل و نہار، روزنامہ امروز (میاں افتخارالدین کے زمانے والا) ڈیلی پاکستان ٹائمز، روزنامہ مساوات، روزنامہ آزاد، ہفت روزہ الفتح، روزنامہ امن، ہفت روزہ معیار‘ ڈیلی ڈان، ہفت روزہ ویو پوائنٹ، روزنامہ عوامی آواز، ویکلی آئوٹ لک وغیرہ شامل ہیں۔
کتاب میں ان تمام اخباروں اور جریدوں میں شائع ہونے والی تحریروںکا احاطہ کیا گیا ہے۔ یہ تحریریں پڑھنے کے بعد آپ صرف اس زمانے کی سیاسی تاریخ سے ہی واقف نہیں ہوتے بلکہ یہ بھی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ان اخباروں نے کیسے بے لاگ طریقے سے اپنے وقت کے سیاسی حالات کا تجزیہ کیا تھا۔ اس کے علاوہ یہ بھی لکھا ہے کہ صحافت کی آزادی اور عمومی طور پر جمہوری آزادیوں کے لئے جدوجہد کرنے پر کن صحافیوں نے جیلیں کاٹیں۔ کتاب میں ان صحافتی تنظیموں اور صحافی رہنمائوںکا ذکر بھی کیا گیا ہے‘ جنہوں نے کبھی اپنے موقف سے روگردانی نہیں کی۔ اب اس کالم میں ہر اخبار میں شائع ہونے والے تمام اداریوں کا حوالہ دینا تو ناممکن ہے لیکن جب لیاقت علی خاں نے قرارداد مقاصد منظور کرائی تو روزنامہ امروز کے اس وقت کے ایڈیٹر‘ نامور صحافی اور انشا پرداز چراغ حسن حسرت نے جو تبصرہ کیا وہ پیش خدمت ہے:
حکومت پاکستان کی ہدایت کے مطابق 12 مارچ 1950 کو قرارداد مقاصد کے چارٹ بنوا کر سرکاری دفاتر میں لٹکا دیئے گئے ہیں تاکہ سرکاری اہلکاروں کو یاد رہے کہ وہ ایک اسلامی ملک کے ملازم ہیں۔ ہمارے نزدیک سرکاری دفتروں میں قرارداد مقاصد کے چارٹ لٹکانا ہی کافی نہیں ہے بلکہ اس کے علاوہ بھی کچھ ہونا چاہیے۔ مثلاً قرارداد مقاصد کے تعویز بنوا کر بچوں کے گلے میں ڈالے جا سکتے ہیں‘ خاص خاص موقعوں پر یہ تعویز گھول کر پلا دینا بھی خاصا مفید ہو سکتا ہے، بلکہ دفع آسیب کے لئے قراردادِ مقاصد کی دھونی بھی دی جا سکتی ہے۔ اس قرارداد کو مرتب ہوئے سال بھر ہو گیا ہے‘ لیکن تعجب ہے کہ کسی کو اس سے فائدہ اٹھانے کا خیال نہیں آیا۔ قرارداد 12 مارچ کو منظور ہوئی تھی‘ اس لئے قرارداد شریف کا ختم شریف بھی اسی تاریخ کو ہونا چاہیے۔ ٹھیک ہے کہ جماعت اسلامی والے اس پر بھی مطمئن نہیں ہوں گے‘ لیکن اگر یہ وہابی قسم کے لوگ بارہویں شریف پر بھی مطمئن نہ ہوں تو انہیں مطمئن کرنے کی اور کیا صورت باقی رہ گئی ہے‘‘۔
یہ تو قرارداد مقاصد پر چراغ حسن حسرت کا طنزیہ تبصرہ تھا۔ لیکن انہوں نے یہ بھی لکھا کہ جس وزیر اعظم نے قراردادِ مقاصد پیش کرتے ہوئے اعلان کیا کہ ''خدا نے سوائے جمہور کے کسی کو اختیارات نہیں سونپے‘‘ اسی وزیر اعظم نے ریاستی عوام کے بجائے والیان ریاست کو حاکم و مقتدر، یعنی اپنی اپنی ریاستوں کا ظل الٰہی منوانے کی خاطر ایڑی چوٹی کا زور لگا لیا۔ اور بالآخر پاکستان کے آئین میں ترمیم کروا کے ہی دم لیا۔ پاکستان کے آئین میں یہ ترمیم بھی کر لی گئی کہ حکومت ہر شہری کو مقدمہ چلائے بغیر قید کر سکتی ہے۔ آئین ساز اسمبلی سے یہ بھی منظور کرا لیا گیا کہ پنجاب کی خالی نشستوں کو پُر کرنے کا اختیار صوبائی عوام کو نہیں بلکہ برسرِ اقتدار افراد کو ہو گا۔ گویا ایک طرف تو حکومت نے خود ہی تسلیم کیا کہ خدا نے جمہور کو اختیار سونپے ہیں، اور دوسری طرف حکومت نے ہی جمہور کو ان اختیارات سے محروم کر دیا۔
یہ تو پاکستان کی ابتدائی تاریخ پر ایک اخبار کا تبصرہ تھا۔ لیکن بعد کے حالات میں بے باک صحافیوں اور اخباروں کا کیا کردار رہا؟ اس پر صرف ایک ایسے اخبار کا ذکر ہی کافی ہے جو صحافیوں نے خود ہی نکالا تھا۔ یہ اخبار تھا‘ روزنامہ آ زاد۔ یہ اخبار آئی اے رحمن، عبداللہ ملک اور حمید اختر نے نکالا تھا۔ اس اخبارکی پالیسی کے بارے میں عبداللہ ملک لکھتے ہیں کہ آزاد کی ایک اہم خصوصیت اس کی آگ لگا دینے والی سرخیاں تھیں۔ عباس اطہر کے اندر کا صحافی پہلی بار نکل کر سامنے آیا۔ انہوں نے پوری آزادی اور قوت کے ساتھ اپنے آپ کو ظاہر کیا۔ کسی ایک بیان یا تقریر سے جو رد عمل ان کے دل پر ہوتا‘ وہ اس کا برملا اظہار کرتے تھے۔ عباس اطہر کو اس بات کی پروا نہیں تھی کہ مقرر نے کیا الفاظ استعمال کئے ہیں۔ وہ ان پر اپنی مرضی کی سرخی جماتے تھے۔ 22 دسمبر 1970کو جب انتخابات کی گرد ابھی بیٹھی بھی نہیں تھی تو انہوں نے یہ آٹھ کالمی سرخی لگائی... ہم مشرقی پاکستان کی غلامی قبول نہیں کریں گے... پیپلز پارٹی کے چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو نے لاہور میں انتخابات کے بعد عوامی لیگ سے سمجھوتہ نہ ہونے پر زبردست تقریر کی تھی۔ اس پر عباس اطہر نے یہ سرخی لگائی ''اُدھر تم اِدھر ہم‘‘
اس کتاب سے دو اخباروں کا حوالہ اس لئے دیا گیا ہے کہ آپ کو اندازہ ہو سکے کہ یہ آزاد اور بے باک اخبار اپنے زمانے کے حالات پر کس انداز میں تبصرے کر رہے تھے۔ باقی جوں جوں پاکستان کے سیاسی حالات تبدیل ہوتے گئے ویسے ہی دوسرے اخباروں کے مضامین اور تبصرے بھی بدلتے چلے گئے۔ اب ہم آپ کو یہ بھی بتا دیں کہ یہ کتاب سوسائٹی فار آلٹرنیٹیو میڈیا اینڈ ریسرچ کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر مظہر عارف کی نگرانی میں مرتب کی گئی ہے اور انہوں نے ہی اسے شائع کیا ہے۔ آج کے صحا فیوں کو یہ کتاب ضرور پڑھنا چاہیے۔