آپ نے یہ محاورہ تو سنا ہو گا: کار بد خود کریں لعنت کریں شیطان پر‘ لیکن اس محاورے کا اتنا بے دریغ استعمال پہلے کبھی نہ دیکھا ہو گا اور نہ سنا ہو گا جتنا نئے دور کے نئے پا کستان میں سنا اور دیکھا جا رہا ہے۔ نئے پاکستان کی نئی حکومت کو تو کئی شیطان مل گئے ہیں۔ اور وہ ہیں اپنے مخالف۔ انہوں نے ایک ہی سبق سیکھا ہے کہ اپنی جتنی بھی نااہلیاں اور نالائقیاں ہیں سب مخالفوں کے سر پر ڈالتے چلے جائو اور شور مچاتے رہو ''ہم نے تو کچھ نہیں کیا۔ یہ سب ان شیطانوں کا کیا دھرا ہے۔ ہم تو اس کا نتیجہ بھگت رہے ہیں‘‘۔ انہوں نے ایسے بوجھ بجھکڑ پال رکھے ہیں جو ہر موقع پر ایک نئی منطق اور نیا فلسفہ لئے سامنے کھڑے ہوتے ہیں۔ اس فلسفے اور اس منطق کو کہتے ہیں ''ماروں گھٹنا پھوٹے آنکھ‘‘۔ اب آپ یہ سوچ کر مطمئن نہ ہو جائیے کہ انہیں آئے ابھی ایک سال سے کچھ ہی زیادہ عرصہ ہوا ہے، اس لئے اپنی کوتاہیاں اپنے مخالف شیطانوں پر ڈال رہے ہیں۔ ہمیں تو پورا یقین ہے کہ اگر یہ پانچ سال بھی حکومت کرتے رہے یا انہیں پانچ سال بھی حکومت میں رکھا گیا تو ہم یہی کچھ سنتے رہیں گے جو نئے پاکستان کی نئی حکومت کے قیام کے وقت سے سنتے چلے آ رہے ہیں۔ بھلا بتائیے، کبھی سنا تھا کہ آٹا، جو ہماری قوت لا یموت ہے، یعنی جو ہمارے دل کی دھڑکنیں زندہ رکھنے کے لئے لازم ہے۔ وہ ہماری دسترس سے باہر ہو جائے گا اور اس کوتاہی اور نااہلی کی ذمہ داری قبول کرنے کے بجائے سارا بوجھ اپنے شیطان کے کاندھوں پر ڈال دیا جائے گا؟ اب یہاں یہ وضاحت کرنے کی ضرورت نہیں ہے کہ ایسا کیوں ہوا؟ تمام اخبار پوری تفصیل کے ساتھ بیان کر چکے ہیں کہ گندم کیسے سستے داموں باہر بھیجی گئی، اور اب کیسے مہنگے داموں باہر سے منگوائی جا رہی ہے اور اس سے کون فائدہ اٹھا رہا ہے۔ یہاں آپ یہ سوال بھی نہیں کر سکتے کہ ہمارے محتسب اعلیٰ اس جانب توجہ کیوں نہیں فرماتے؟ کیونکہ انہیں تو سیاست دانوں کے گرد گھیرا تنگ کرنے سے ہی فرصت نہیں ہے۔
یہاں درآمد اور برآمد پر ہمیں اپنے بزرگ نظیر لدھیانوی یاد آ گئے۔ یہ وہ نظیر لدھیانوی نہیں تھے جو بمبئی سے رسالہ ''مصور‘‘ نکالتے تھے اور جنہوں نے سعادت حسن منٹو کو اس میں ملازمت دی تھی۔ جن بزرگ کا ہم ذکر کر رہے ہیں وہ روزنامہ امروز میں سب ایڈیٹر تھے اور لاہور میں رہتے تھے۔ انہوں نے لاہور کے اردو شعرا پر ایک کتاب بھی لکھی تھی۔ اس کتاب میں ایسے ایسے شعرا کا ذکر کیا گیا تھا جن کا نام بھی آج کسی کو یاد نہیں ہو گا۔ ہاں تو وہ نظیر لدھیانوی صاحب خبروں کا انگریزی سے ترجمہ کرتے تھے تو ہمیشہ درآمد اور برآمد کے لفظ میں الجھ جاتے تھے۔ درآمد کو برآمد اور برآمد کو درآمد لکھ جاتے تھے۔ پھر خود ہی شرمندہ ہوتے تھے اور اسے ٹھیک کر دیتے تھے۔ ہمارا خیال ہے کہ نئے پاکستان کی نئی حکومت بھی برآمد اور درآمد کے چکر میں پھنس گئی ہے۔ جب وہ ہزاروں ٹن گندم برآمد کر رہی تھی، یا برآمد کرا رہی تھی تو سمجھ رہی تھی کہ وہ گندم درآمد کر رہی ہے۔ اور اب ہار کے جھک مار کے وہی گندم جب درآمد کر رہی ہے تو لوگوں کو سمجھا رہی ہے کہ وہ اپنی ہی گندم واپس لا رہی ہے۔ اس سے اندھا دھند منافع کون کما رہا ہے؟ یہ سوال کوئی نہیں کر سکتا۔
لیجئے ہم تو چلے تھے سرمد کھوسٹ کی فلم کے بارے میں بات کرنے اور لے بیٹھے گندم کی درآمد اور برآمد۔ سچ ہے، یہ دانۂ گندم ہے ہی خطرناک چیز۔ اسی گندم کے دانے نے تو ہمارے باوا آدم کو جنت سے نکلوایا تھا۔ سرمد کھوسٹ کی فلم گندم کے بارے میں تو نہیں ہے لیکن انسانی زندگی کے بارے میں ہی ہے، جو گندم اور آٹے کے سہارے ہی چلتی ہے۔ اس فلم کا نام ہے ''زندگی تماشہ‘‘۔ یہ فلم جنوبی کوریا کے فلمی میلے میں انعام حاصل کر چکی ہے لیکن پاکستان میں اس فلم کی نمائش کے راستے میں روڑے اٹکائے جا رہے ہیں۔ پہلے تو ہمارے سینسر بورڈ نے ہی اسے مشکل سے نمائش کی اجازت دی۔ اب اس کی نمائش کی اجازت مل گئی ہے تو کچھ طبقے اس کا راستہ روک کر کھڑے ہو گئے ہیں۔ یہ حلقے کون ہیں؟ انہیں آپ بھی جانتے ہیں اور آپ کے مقتدر حلقے بھی انہیں خوب اچھی طرح جانتے ہیں۔ اب سرمد کو دھمکیاں مل رہی ہیں کہ اگر اس فلم کی نمائش کی گئی تو تمہاری خیر نہیں۔ اور تماشہ یہ ہے کہ جو دھمکیاں دے رہے ہیں، انہوں نے وہ فلم دیکھی ہی نہیں ہے۔ انہیں کسی نے اس فلم کا ٹریلر دکھا دیا ہے اور وہ بھڑک اٹھے ہیں۔ ظاہر ہے یہ حلقے خود تو فلمیں دیکھتے نہیں ہوں گے۔ انہیں سرمد کی مخالف پارٹی نے ہی فلم کا ٹریلر دکھایا ہو گا۔ اگر ایسا ہے تو نہایت ہی افسوس کی بات ہے۔ اول تو پاکستان میں فلمیں بن ہی کتنی رہی ہیں۔ آپ دیکھ لیجئے، ملک بھر کے سینما ہال خالی پڑے ہوتے ہیں۔ جن لوگوں نے کروڑوں روپے خرچ کرکے اس خیال سے ملٹی پل سینما ہال بنائے تھے کہ وہ نئی نئی فلمیں دکھائیں گے، وہ اپنی قسمت کو رو رہے ہیں۔ انہیں فلمیں چاہئیں اور ہمارے با صلاحیت نوجوان یہ فلمیں بنا رہے ہیں تو انہیں دھمکیاں مل رہی ہیں۔ سرمد نے اس سلسلے میں وزیر اعظم عمران خان کو بھی خط لکھا ہے۔ دیکھتے ہیں‘ عمران خان کی طرف سے کوئی جواب آتا ہے یا نہیں۔
یہاں ہمیں پھر آج کا ہندوستان یاد آ گیا۔ وہاں پہلے تو فیض کی نظم کو متنازعہ بنانے کی کوشش کی گئی؛ تاہم باشعور حلقوں کی مداخلت اور ان کے سمجھانے بجھانے پر اسے قبول کر لیا گیا‘ لیکن اب اس ملک کے سب سے بڑے صوبے اتر پردیش سے خبر آئی ہے کہ لکھنو کی ایک محفل میں کتھک رقص کی ایک رقاصہ نصرت فتح علی خان کی ایک قوالی پر رقص کر رہی تھی تو حکومت کے کارندوں نے اسے روک دیا۔ حکم دیا گیا کہ یہاں قوالی، اور وہ بھی ایک پاکستانی قوال کی قوالی پر رقص نہیں کیا جا سکتا۔ اب آپ ہی بتائیے، کیا فرق رہ گیا ہے؟ یہ بھی یاد رکھیے کہ یو پی یا اتر پردیش جیسے پڑھے لکھے اور روشن خیال شہریوں کے صوبے پر ایک مندر کا مہنت حکومت کر رہا ہے۔ تو کیا آپ بھی یہی چاہتے ہیں کہ یہاں بھی ایسے ہی لوگوں کی حکومت آ جائے؟ اب یہاں تک لکھنے کے بعد ہمیں ایک اور بات یاد آ گئی ہے۔ ہمارے اپنے عمران خان نے نصابی کتابیں تیار کر نے والوں کو مشورہ دیا ہے ( یا حکم دیا ہے) کہ وہ تعلیمی اداروں میں تصوف بھی پڑھائیں۔ سنا آپ نے؟ وہ شاید یہ نہیں جانتے کہ تصوف پڑھایا نہیں جاتا‘ وہ انسانی عمل کا حصہ ہوتا ہے۔ اس سلسلے میں ہمارے بہت ہی معزز اور محترم صحافی ضیاالدین صاحب نے یہ بھی سوال کیا ہے کہ وزیر اعظم نے کیا کیا کتابیں پڑھی ہیں؟ بلکہ کیا انہوں نے کوئی کتاب پڑھی بھی ہے یا نہیں؟ اس سوال کا جواب کسی کو معلوم ہو تو وہ ضیاالدین صاحب کے علاوہ ہمارے علم میں بھی اضافہ فرما دیں۔
معاف کیجئے، ہم پھر بہک گئے۔ ہم تو سرمد کھوسٹ کی فلم کا ذکر کر رہے تھے۔ چلئے اب سرمد کھوسٹ کا نام آیا ہے تو اس کھوسٹ کے لفظ پر بھی بات ہو جائے۔ ذرا دیکھیے کہ لفظ کیسے سفر کرتے ہیں اور بعض لفظ اچھے سے برے اور برے سے اچھے کیسے بن جاتے ہیں۔ کھوسٹ کوئی اچھا لفظ نہیں ہے۔ ہم کسی کو ''بڈھا کھوسٹ‘‘ کہہ کر اس کا مذاق اڑاتے ہیں‘ لیکن سرمد کے دادا اور عرفان کھوسٹ کے والد سلطان کھوسٹ جیسے ریڈیو کے معروف و مقبول فن کار نے اپنے نام کا حصہ بنا کر اسے ایک باعزت لفظ بنا دیا۔ اب کھوسٹ ایسے فن کاروں کا پورا خاندان ہے جس نے ریڈیو سے لے کر ٹیلی وژن تک، اور ٹیلی وژن سے لے کر فلم تک اپنے فن کا لوہا منوایا ہے۔ اسی لئے سرمد کی فلم کی نمائش ہم سب کی عزت کا سوال بن گئی ہے۔