حاکم کی اگاڑی اور گھوڑے کی پچھاڑی سے بچ کے ہی رہنا چا ہیے۔ ہمارے بزرگ یہ ہدایت کرتے تھے۔ ساری عمر ہم نے اس ہدایت پر عمل کیا ہے۔ ہم نے ہر حاکم سے مار کھائی ہے اور گھوڑے سے دولتی (یہ لمبا قصہ ہے‘ پھر کبھی بیان کریں گے) لیکن سوال کرنے سے کبھی باز نہیں آئے۔ آج کل بنگلہ دیش کی کرکٹ ٹیم لاہور آئی ہوئی ہے۔ ٹی ٹوینٹی میچ ہو رہے ہیں۔ ان میچوں میں پاکستان کے قومی ترانے کے ساتھ بنگلہ دیش کا قومی ترانہ بھی ہم سنتے ہیں۔ رابندر ناتھ ٹیگور کا ایک گیت بنگلہ دیش نے اپنا قومی ترانہ بنا لیا ہے اور ٹیگور کا ہی ایک گیت ہندوستان نے بھی اپنا قومی ترانہ بنایا ہے بلکہ سری لنکا کا قومی ترانہ بھی ٹیگور کا ہی ایک گیت ہے۔ گویا تین ملکوں کا قومی ترانہ رابندر ناتھ ٹیگور کا گیت ہے۔ ہم پاکستان کی سرزمین پر بنگلہ دیش کا قومی ترانہ سن رہے ہیں۔ یہیں سے ہمارے دماغ میں کھد بد شروع ہوتی ہے اور وہ سوال ہمیں پریشان کرنے لگتا ہے، جو ہم سے پہلے کچھ اور لوگ بھی کر چکے ہیں۔ لیکن ہمارا جی چاہتا ہے کہ ایک بار پھر اپنے حاکموں کے سامنے یہ سوال رکھنے کی کوشش کریں۔ سوال یہ ہے کہ متحدہ پاکستان کے دنوں میں ہماری کرکٹ ٹیم میں وہاں کا کوئی کھلاڑی کیوں نظر نہیں آتا تھا؟ کیا ان دنوں اس مشرقی صوبے کے نوجوانوں کے قد چھوٹے تھے؟ کیا وہ اتنے صحت مند نہیں تھے کہ کرکٹ جیسے کھیل میں حصہ لے سکیں؟ آج کل بنگلہ دیش کے جو کھلاڑی پاکستان آئے ہوئے ہیں ان میں تو ایسی کوئی کمی نظر نہیں آتی کہ انہیں اپنی ٹیم میں شامل ہی نہیں کیا جاتا تھا؟
یہ وہ سوالات ہیں جو ہمیں بہت پریشان کرتے ہیں۔ چلیے، ہم دوسروں کے تعصب کی بات نہیں کرتے، اپنے تعصب کی بات ہی کئے لیتے ہیں۔ یہ ایوب خان کی حکومت کے آخری چند سال تھے۔ ڈھاکے میں پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کا انتخابی اجلاس تھا۔ ہم بھی ایک مندوب کی حیثیت سے وہاں گئے تھے۔ یونین کے انتخاب تو جیسے ہونا تھے وہ ہو گئے‘ لیکن اس بہانے ہمیں پورے دو ہفتے پورا مشرقی پاکستان دیکھنے کا موقع مل گیا۔ اس کی وجہ مرحوم صلاح الدین محمد تھے۔ وہ بائیں بازو کے بہت بڑے صحافی تھے۔ مولانا بھاشانی سے لے کر مجیب الرحمن تک تمام بنگالی رہنمائوں کے ساتھ ان کے قریبی تعلقات تھے۔ وہ شاعر بھی تھے۔ چھوٹی چھوٹی نظمیں کہتے تھے۔ یہ نظمیں احمد ندیم قاسمی صاحب کے رسالے '' فنون‘‘ میں شائع ہوتی تھیں۔ اب ایک تو صحافت، دوسرے ادب، دونوں حوالوں سے ان کے ساتھ ہماری دوستی تھی۔ اور ہاں، وہ پاکستان فیچر سنڈیکیٹ کے ڈائریکٹر بھی تھے۔ یہ سنڈیکیٹ ایوب خان کے محکمہ اطلاعا ت کے مدارالمہام الطاف گوہر نے بنایا تھا۔ ہم پی ایف یو جے کے الیکشن سے فارغ ہوئے تو صلاح الدین محمد نے ہمیں مشرقی پاکستان کی سیر کرانے کا پروگرام بنایا۔ ہمارے ساتھ تھے اے پی پی کے ڈائریکٹر صفدر قریشی، اے پی پی کے ہی محمد افضل خان، اور روزنامہ امروز کے فخر ہمایوں (افسوس، یہ تینوں اب ہم میں موجود نہیں ہیں)۔ ہم وہاں کے لوگوں سے مل کر ان کی ذہانت اور فطانت کے تو بہت قائل ہوتے تھے، لیکن خدا جانے کیوں ان کی جسمانی حالت کے بارے میں پاکستان کے مغربی حصے کی برتری کا احساس ہمارے دماغ پر چھایا رہتا تھا۔ معاف کیجئے، یہاں ہم نے خواہ مخواہ یہ ذکر جانے کیوں کر دیا‘ اصل میں تو بنگالیوں کے بارے میں ہمارا ذہنی رویہ ہی ایسا تھا۔ ہم نے کہا ناں کہ دو ہفتے میں ہم نے قریب قریب سارا ہی مشرقی پاکستان چھان مارا تھا۔ ریل گاڑی میں سفر کیا، اور سٹیمر اور کشتیوں میں بھی۔ ہم چاروں چونکہ مغربی پاکستان سے تعلق رکھتے تھے اس لئے ہم آپس میں بات کرتے تھے تو اس قسم کی ہوتی تھی ''تم پاکستان کے صدر بن سکتے ہو، مگر تم نہیں بن سکتے‘‘۔ یہ ہم ایک دوسرے سے کہتے تھے۔ اس میں اس علاقے کے لوگوں کا حوالہ کہیں بھی نہیں ہوتا تھا جس علاقے کی ہم سیر کر رہے تھے‘ جیسے وہ لوگ کوئی وجود ہی نہیں رکھتے تھے۔ ڈھاکہ میں رمنا ان کا بہت بڑا میدان ہے۔ ہم نے وہاں گھوڑے دیکھے۔ ہو سکتا ہے وہ گھڑ دوڑ کے لئے ہوں۔ وہ گھوڑے دیکھ کر ہم میں سے ایک نے طنزیہ انداز میں کہا ''ان کے گھوڑے کتنے چھوٹے چھوٹے ہیں۔‘‘ وہاں کے لوگوں کا رنگ بھی ہمارے طنز کا نشانہ بن جاتا تھا۔ ہماری یہ باتیں سن کر ہی صلاح الدین محمد نے ہمیں سمجھانے کی کوشش کی تھی کہ اس صوبے کے باشندوں کو زندگی کی وہ تمام سہولتیں فراہم کر دو، جو تمہیں اپنے صوبے میں حاصل ہیں، پھر دیکھنا یہاں لوگوں کے رنگ بھی بدل جائیں گے اور ان کی جسمانی صحت بھی۔ اس وقت وہاں غربت کا جو حال ہم نے دیکھا یہاں اس کی ایک چھوٹی سی مثال بھی آپ کے سامنے رکھ دیں۔ جہاں جہاں بھی بڑی چھوٹی ندیاں تھیں۔ وہاں ہم نے ان ندیوں کے کنارے ادھر ادھر دھاگے تیرتے دیکھے۔ معلوم ہوا کہ ہر دھاگے کے سرے پر ایک چھوٹا سا کانٹا لگا ہوتا ہے، اور ہر کانٹے پر کینچوا۔ چھوٹی چھوٹی ننھی ننھی مچھلیاں وہ کانٹا منہ میں لیتی ہیں اور پھنس جا تی ہیں۔ یہ ننھی ننھی مچھلیاں یہ غریب کھاتے ہیں۔ مگر کیسے؟ یہ مچھلیاں وہ اینٹ سے کچلتے ہیں، ان پر نمک مرچ چھڑکتے ہیں اور انہیں کچا ہی کھا کر اپنا پیٹ بھر لیتے ہیں۔ اور جب وہاں پاکستان کے دوسرے حصے کے حکمرانوں کے خلاف احتجاج کے آثار نظر آنے لگے تو ہمارے حکمرانوں نے الزام لگانا شروع کیا کہ یہ سب وہاں کی ہندو آبادی کا قصور ہے۔ وہ ہندوستان کے اکسانے پر ایسی افواہیں پھیلا رہے ہیں۔ اس کا جواب ہم نے اپنی کہانیوں یا اپنے افسانوں میں دیا۔ اس وقت تک ہماری آنکھیں کھل چکی تھیں۔
مشرقی پاکستان کے اس سفر نے ہمیں کئی کہانیاں دیں۔ ہماری یہ کہانیاں یا یہ افسانے اس وقت سے شروع ہوتے ہیں جب دوریاں پیدا ہونا شروع ہوئی تھیں۔ ہم نے لکھا کہ مشرقی پاکستان کے باشندے ہم سے زیادہ مسلمان ہیں۔ ان کی زبان کا محاورہ بھی خالص اسلامی ہے۔ اس کی مثال ہم نے یہ دی تھی کہ جب وہاں پٹ سن کی بھاری بھاری گانٹھیں اٹھائی جاتی ہیں تو ہماری طرح وہ ''ہو، ہا‘‘ نہیں کرتے بلکہ ہر بوجھ اٹھاتے ہوئے ان کے منہ سے نکلتا ہے ''اللہ بولو، اللہ بولو‘‘۔ ہم نے یہ نعرے ایک سٹیمر میں سفر کرتے ہوئے سنے تھے اور حیران ہوئے تھے کہ ان غریبوں نے اپنا بوجھ کم کرنے کے لئے کیا خوب نعرہ ایجاد کیا ہے۔ اللہ بولو تو ہمیں یاد رہ گیا تھا لیکن اس کے بعد وہ کیا کہتے تھے‘ یہ ہمیں یاد نہیں رہا۔ اب اگر وہ مغربی پاکستان سے ناراض تھے تو سوچ لیجئے کہ یہ قدرتی بات تھی۔ اس غصے اور اس طیش کا اظہار بھی ہم نے وہاں دیکھا۔ ہم یہ پہلے بھی لکھ چکے ہیں کہ ایک ٹرین کے سفر کے دوران میں ایک نوجوان نے ہم سے سوال کیا تھا کہ ''کیا آپ اپنی کالونی دیکھنے آئے ہیں‘‘۔ یہ سن کر ہم شرم سے پانی پانی ہو گئے تھے۔ ہمارے پاس اس کا کوئی جواب نہیں تھا۔ وہ ہم سے ہی ناراض نہیں تھے بلکہ تمام اردو بولنے والوں سے ہی ناراض تھے۔ وہ ہم سب کو ''پنزابی‘‘ (پنجابی) کہتے تھے۔ صلاح الدین محمد مولانا بھاشانی اور دوسرے بنگالی رہنمائوں کے بہت ہی قریب تھے اور ان کے حقوق کیلئے ان کے ساتھ جدوجہد بھی کر رہے تھے۔ پھر انہیں بھی اپنے خاندان کے ساتھ وہاں سے بھاگنا پڑا تھا کیونکہ وہ بہار سے ہجرت کرکے وہاں، یعنی مشرقی پاکستان پہنچے تھے حالانکہ ان کی بہن ام عمارہ نے بنگالیوں کے حق میں افسانے بھی لکھے تھے۔
ہم تو حاکم کی اگاڑی اور گھوڑے کی پچھاڑی سے ڈرنے والے ہیں اس لئے ہم کسی کو کیا مشورہ دے سکتے ہیں لیکن معلوم ہوتا ہے‘ ہمارے حاکموں کی آنکھیں بھی کھل چکی ہیں۔