"MAC" (space) message & send to 7575

اور اب نثار عزیز بٹ بھی گئیں!

جی ہاں، نثار عزیز بٹ بھی ہمیں چھوڑ گئیں۔ کیا ہمہ صفت خاتون تھیں۔ پانچ ناول لکھے، ایک دلچسپ آپ بیتی لکھی، ادبی اور ثقافتی موضوع پر اخبار میں (انگریزی میں) مضامین لکھے۔ بین الاقوامی کانفرنسوں میں پاکستان کی نمائندگی کی حتیٰ کہ ایک کانفرنس میں ہنری کسنجر سے دو دو ہاتھ بھی کر لئے۔ نثار عزیز بٹ سے میرا پہلا تعارف ان کے ناولوں کے ذریعے نہیں بلکہ ان کے اخباری کالموں کے واسطے سے ہوا تھا۔ یہ کالم اخبار ڈان میں چھپا کرتے تھے۔ عنوان تھا ''لٹریری سین‘‘۔ یہ کالم کیا تھے تنقیدی اور تخلیقی مضامین ہوتے تھے۔ ایک تو بالکل ہی اچھوتے موضوع کا انتخاب اور پھر اس موضوع پر لکھنے کا ایسا تخلیقی انداز جو ہم جیسے کم علم پڑھنے والوں کو علم و ادب کے کسی اور ہی جہان میں لے جاتا تھا۔ اب آپ پہلے ہی کالم کو لیجئے‘ عنوان تھا: The Missing Writer۔ عنوان ہی ایسا تھا کہ ادب کے ساتھ ذرا سا مس رکھنے والا بھی اسے پڑھے بغیر نہیں رہ سکتا تھا۔ سچی بات ہے، میں تو بہت ہی رعب کھاتا تھا ان کالموں سے۔ اور ان کالموں کے لکھنے والی سے بھی۔ اور پھر اخباروں میں یہ بھی پڑھتا رہتا تھا کہ نثار عزیز آج فلاں بین الاقوامی کانفرنس میں پاکستان کی نمائندگی کر رہی ہیں تو کل کسی اور کانفرنس میں گئی ہوئی ہیں۔ سوچتا تھا، یہ خاتون تو بہت ہی رعب دار ہوں گی۔ اس سے کچھ ہی عرصہ پہلے قرۃ العین حیدر کا ناول ''آگ کا دریا‘‘ چھپا تھا۔ بڑے ہنگامے ہوئے تھے اس پر۔ بہت لے دے ہوئی تھی۔ کئی تبصرے بھی لکھے گئے تھے۔ لیکن نثار عزیز بٹ کا وہ تبصرہ جو پاکستان ٹائمز میں چھپا، سب سے مختلف تھا۔ یہ ایک ایسی پڑھی لکھی نقاد کا تبصرہ تھا‘ جو خود بھی ناول نگار تھی۔ اس کے بعد تو رعب کے مارے بالکل ہی میری گردن جھک گئی تھی۔ قرۃ العین کی دوست ہوں اور اونچے دماغ والی نہ ہوں، یہ تو ہو ہی نہیں ہو سکتا۔
لیکن... ملاقات ہوئی تو حیران پریشان۔ ارے... یہ تو بالکل ہی ہم جیسی ہیں۔ نہایت خوش مزاج، انتہائی ملنسار۔ بہت باتیں کرنے والی۔ ہر وقت ہونٹوں پر وہ مسکراہٹ جو آنکھوں سے بھی پھوٹی پڑتی تھی اور پھر ان کے میاں اصغر بٹ صاحب۔ وہ تو ان سے بھی کئی ہاتھ آگے۔ مگر وہ جتنی خوش مزاج اور نرم خو تھیں اتنی ہی دبنگ بھی تھیں۔ بڑے سے بڑے بد دماغ آدمی کے سامنے خم ٹھونک کر کھڑی ہو جاتی تھیں۔ ہنری کسنجر سے غریب اور پس ماندہ ملکوں کے تشخص کے بحران پر بحث ہو رہی ہے۔ کسنجر مغرب کی صفائیاں پیش کر رہے ہیں‘ مگر نثار عزیز اپنے دلائل کی ایسی مار دیتی ہیں کہ کسنجر صاحب خاموش ہو جاتے ہیں۔ اب مجھے یہ تو یاد نہیں کہ تہذیب و ثقافت کی یکسانیت پر کہاں اور کس سے بحث ہوئی، لیکن نثار عزیز نے بالکل صحیح کہا تھا کہ مغرب نے اپنی ترقی اور طاقت کے زور پر پوری دنیا میں تہذیبی اور ثقافتی یکسانیت پیدا کر دی ہے‘ اور آج جو پس ماندہ ملکوں میں مغرب کے خلاف مخاصمت اور مزاحمت نظر آ رہی ہے وہ اسی کا نتیجہ ہے۔ اور ہم، یعنی پس ماندہ ملک اپنا کوئی نیا کلچر تو پیدا نہیں کر سکے بلکہ اپنی روایات کی حفاظت کے نام پر ہم نے پس ماندگی اوڑھ لی ہے۔ وہ تو ذوالفقار علی بھٹو سے بھی بھڑ گئی تھیں۔ مشرقی پاکستان کا سانحہ تازہ تازہ تھا۔ بھٹو صاحب نے ملک بھر سے چند دانشوروں کو مشورے کے لئے بلایا ہوا تھا۔ نثار بھی وہاں موجود تھیں۔ غالباً ہندوستان کے ساتھ تعلقات کا موضوع زیر بحث تھا۔ سب اپنی اپنی کہہ رہے تھے‘ لیکن نثار عزیز نے بھٹو صاحب سے وہ بات کہی جو آج بھی اتنی ہی سچ ہے جتنی اس وقت تھی۔ نثار عزیز نے کہا ''سالہا سال کی مخاصمت سے ہمیں نہ تو اندرون ملک اور نہ ہی بین الاقوامی سطح پر کوئی فائدہ ہوا ہے‘ تو اب کوآپریشن کو بھی آزما کر دیکھے لیتے ہیں‘‘۔ اب معلوم نہیں اس وقت بھٹو نے کیا کہا تھا لیکن یہ ثابت ہو گیا کہ نثار عزیز اس وقت بھی حقیقت پسندانہ بات کر رہی تھیں اور وہ ایسی بات کر رہی تھیں جو ان کے خاندان میں یا ان کے ملنے جلنے والوں میں کوئی بھی نہیں کر رہا تھا۔
اور یہ بات واقعی سمجھ میں نہیں آتی کہ ایک ایسے خاندان میں اور ایک ایسے ماحول میں جو گردن گردن دائیں بازو کی سیاست اور دائیں بازو کے نظریات میں ڈوبا ہوا تھا‘ نثار عزیز بائیں بازو کی طرف کیسے آ گئیں؟ اسلام آباد میں جس گروہ کے ساتھ ان کا اٹھنا بیٹھنا تھا وہ کٹر دائیں بازو سے تعلق رکھتا تھا۔ احمد ندیم قاسمی، ہاجرہ مسرور، خدیجہ مستور یا احمد علی خان اور ظہیر بابر سے تو ان کے تعلقات بہت بعد میں ہوئے اور وہ بھی علمی اور ادبی سطح پر۔ تو یہ ان کی باغیانہ سرشت ہی تھی جو انہیں اس طرف لے گئی تھی؟ بھٹو کی پھانسی پر ان کے ارد گرد سب لوگ ایک طرف تھے اور نثار عزیز دوسری طرف۔ یہی حال ضیاالحق کے بارے میں تھا۔ نثار عزیز نے ان تمام لوگوں کی پول کھول دی‘ جو اس وقت ضیاالحق کے ساتھ تھے اور کہتے تھے کہ بھٹو کو پھانسی دے کر اس کے ساتھ رعایت برتی گئی ہے‘ اسے تو فوراً گولی مار دینا چاہیے تھی۔ 
نثار عزیز کو اس بات کا دکھ تھا کہ انہوں نے اپنے ناولوں میں جو طرز فکر اور جو طرز تحریر اپنایا‘ اس نے قبول عام کے دروازے ان پر بند کر دیئے ہیں۔ اس کی وجہ یہ بھی تھی کہ ہمارے نک چڑھے نقادوں نے ان کے ناولوں پر زیادہ توجہ نہیں دی‘ لیکن وہ یہ بھی جانتی تھیں کہ اعلیٰ اور بڑے ادب کے لئے اس کا قبول عام ہونا ضروری نہیں ہے‘ بلکہ قبول عام ہونے کو تو ادب کی خامی اور کمزوری مانا جاتا ہے۔ ذرا گنتی کرنا شروع کیجئے۔ شہرت عام اور قبول عوام پانے والے کتنے ادیب تھے جن کا اب ذکر بھی نہیں کیا جاتا۔ نثار عزیز اپنے ناولوں میں کولونیل اور پوسٹ کولونیل ادوار کو اپنا موضوع بناتی ہیں‘ اور اپنے قاری کو ان دونوں ادوار کی اندرونی ساخت سے روشناس کراتی ہیں۔ وہ تسلیم کرتی ہیں ''میں تین تہذیبوں کی پیداوار ہوں، ہندو تہذیب، عرب عجم تہذب اور اسلامی تہذیب‘‘۔ اس میں آپ عالمی تہذیب کو بھی شامل کر لیجئے، جو بڑی حد تک مغربی تہذیب ہے۔ 
ہمارے معروف سیاست دان اور ماہر معاشیات سرتاج عزیز ان کے چھوٹے بھائی ہیں۔ نثار عزیز نے اپنی آپ بیتی میں بڑے پیار بھرے انداز میں ان کا ذکر کیا ہے۔ اب یہاں مجھے وہ بین الاقوامی کانفرنس یاد آ گئی ہے جہاں نثار عزیز موجود تھیں۔ اس کانفرنس میں کسی ہندوستانی خاتون نے پیشکش کی تھی کہ مشرقی پاکستان ہمیں دے دو اور کشمیر تم لے لو۔ نثار عزیز نے اپنی آپ بیتی میں اس کا ذکر کیا ہے۔ کیا معصومانہ پیشکش تھی۔ 
معاف کیجئے، میں ادب پر بات کرتے کرتے سیاست کے خار زار میں جا اٹکا۔ میں تو یہ کہہ رہا تھا کہ نثار عزیز اپنے ناولوں کے ذریعے ہی نہیں، بلکہ اپنی آپ بیتی ''گئے دنوں کا سراغ‘‘ کے ذریعے بھی اردو ادب کے ایوان میں اپنے لئے وہ جگہ بنا چکی ہیں کہ ان کی تخلیقات زیر بحث لائے بغیر اردو ادب کی تاریخ مکمل نہیں ہو سکتی۔ ان کی آپ بیتی کو لے لیجئے۔ یہ ہمارے سماج، ہماری ثقافت اور ہماری سیاست کی سچی اور کھری تاریخ ہے۔ ایسی آپ بیتی جس میں کسی ڈر، خوف یا مصلحت کے بغیر سب کچھ کھول کر رکھ دیا گیا ہے۔ اس سے زیادہ بے باکی اور کیا ہو سکتی ہے کہ نثار عزیز نے ہمارے جانے مانے ناول نگار عزیز احمد کا وہ خط بھی چھاپ دیا ہے جس میں انہوں نے ان سے فلرٹ کرنے کی کوشش کی تھی۔ اس وقت میں نثار عزیز بٹ کو یاد کر رہا ہوں تو مجھے وہ محفلیں بھی یاد آ رہی ہیں جو کشور ناہیدکے گھر، حجاب امتیاز علی کے گھر، جمیلہ ہاشمی کے گھر یا پھر خود ان کے گھر بپا ہوتی تھیں۔ کشور اسلام آباد کو پیاری ہو گئیں، حجاب اور جمیلہ ہاشمی اللہ کو پیاری ہو گئیں۔ اب نثار عزیز کا وقت لاہور اور اسلام آباد کے درمیان گزرتا تھا۔ انہوں نے اپنا آخری وقت لاہور میں گزارا۔ اس لاہور میں جس کے اسلامیہ گرلز کالج میں انہوں نے تعلیم حاصل کی۔ ان کی ایک غیر مسلم استانی ان کی ذہانت سے اتنی متاثر تھیں کہ جب وہ پاکستان سے چلی گئیں تو انہوں نے نثار عزیز کو لکھا کہ تم بھی دہلی آ جائو۔ مگر وہ کہاں دہلی جانے والی تھیں۔ انہوں نے لکھا، بہت لکھا اور خوب لکھا۔ اور، اب ہمارے نقاد ان پر ضرور لکھیں گے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں