آپ جانتے ہیں کہ آپ کے اسی شہر لاہور میں ایک یہودی خاندان بھی رہتا تھا؟ ایک کھاتا پیتا خاندان۔ لارنس روڈ پر ان کی نہایت ہی شاندار کوٹھی تھی۔ پتہ تھا‘ 55 لارنس روڈ۔ دونوں میاں بیوی ڈاکٹر تھے۔ میاں کا نام تھا ڈاکٹر سیلزر اور بیوی کا نام تھا ڈاکٹر کیٹ۔ دونوں اپنے زمانے کے مشہور ڈاکٹر تھے۔ اس شہر میں ان کی خوب پریکٹس چلتی تھی۔ اور اسی گھر میں پیدا ہوئیں مس ہیزل کاہن‘ جو ماہر نفسیات ہیں اور نیو یارک میں رہتی ہیں۔ وہ لاہور لٹریری فیسٹیول میں اپنا ماضی یاد کرنے اور اپنی یادوں میں لاہوریوں کی نئی نسل کو بھی شریک کرنے نیو یارک سے یہاں آئی تھیں۔ نیّر علی دادا اور شیریں پاشا ان کی عالی شان کوٹھی اور اس کوٹھی سے وابستہ ان کی یادیں تازہ کرنے کے لئے ان سے باتیں کر رہے تھے‘ اور لارنس روڈ والی ان کی کوٹھی کی تصویریں دکھا رہے تھے‘ اور ہم حیرت سے مس ہیزل سے ان کی اپنی اور ان کے خاندان کی داستان سن رہے تھے‘ اور سوچ رہے تھے کہ یہ داستان تو کسی بھی سنسنی خیز تاریخی ناول کا موضوع بن سکتی ہے۔ وہ تاریخ جو دوسری عالم گیر جنگ سے شروع ہوتی ہے‘ جو پولینڈ سے جرمنی اور جرمنی سے بمبئی ہوتی ہوئی لاہور آتی ہے، اور پھر نیو یارک چلی جاتی ہے۔ یہ بار بار ترکِ وطن کی وہ داستان ہے جو اس خاندان کی زندگی کا حصہ بنی۔ مس ہیزل بتا رہی تھیں کہ ان کے خاندان کا وطن پولینڈ تھا۔ ان کے دادا پولینڈ سے جرمنی چلے گئے تھے۔ پھر جب ہٹلر کی ناتسی پارٹی کا زور ہوا‘ اور ان کا خاندان بھی اس کی زد میں آیا تو ان کے ماں باپ نیو یارک جانے کی تیاریاں کرنے لگے؛ تاہم کسی نے انہیں سمجھایا کہ امریکہ کے بجائے ہندوستان چلے جائو‘ وہاں تم آرام سے رہ سکو گے‘ لیکن یہاں بھی اس خاندان کے لئے آرام و سکون نہیں تھا۔ یہاں انہیں مشتبہ سمجھ کر انگریز حکو مت نے گرفتار کر لیا۔ وہاں سے رہائی ملی تو ان کا ارادہ پھر امریکہ جانے کا تھا‘ مگر کسی نے انہیں مشورہ دیا کہ لاہور چلے جائیں۔ وہ لاہور آ گئے۔ یہاں ان کی قسمت ایسی جاگی کہ ان کی پریکٹس کو چار چاند لگ گئے۔ اور پھر ان کے پاس دولت ہی دولت تھی۔ مس ہیزل، جو الحمرا کے ایک ہال میں یہ قصہ سنا رہی تھیں، لاہور میں ہی پیدا ہوئیں‘ مگر پھر ان سے لاہور بھی چھوٹا اور وہ نیو یارک پہنچ گئیں۔ وہ امریکہ پہنچ تو گئیں، مگر لاہور اور لارنس روڈ کی وہ کوٹھی ان کے دل و دماغ سے نہیں نکلی‘ جہاں وہ پیدا ہوئی تھیں۔ اس وقت وہ لاہور لٹریری فیسٹیول کے اس اجلاس میں بیٹھی اپنے اس ماضی کی یاد میں کھوئی ہوئی تھیں‘ اور ہم سوچ رہے تھے کہ کیا یہ داستانwandering jew کی کہانی نہیں ہے؟ اور ہمارے پاس بیٹھے نوجوان پوچھ رہے تھے کہ 55 لارنس روڈ کہاں ہے؟ اور کیا وہ سرسبز و شاداب اور وسیع و عریض سبزہ زاروں اور بلند و بالا چھتوں اور طویل برآمدوں والی کوٹھی ابھی وہاں موجود ہے؟ یہ سوال ہمارے دماغ میں بھی گھوم رہا تھا۔ ہم سوچ رہے تھے، یہ ہمارا لاہور تھا‘ اور یہ ہمارا لاہور ہے۔
اس بار اس ادبی جشن میں نیّر علی دادا کی ماہانہ بیٹھک کی رونمائی بھی ہو گئی۔ نیرنگ گیلری کی طرح سٹیج پر کرسیاں سجائی گئیں۔ نیّر علی دادا نے بیٹھک کا تعارف کرایا۔ آغاز حسب معمول کلاسیکی موسیقی سے ہوا‘ اور پھر بات چیت شروع ہو گئی۔ لیکن وقت کم تھا‘ اس لئے جلد ہی شعر خوانی کے بعد محفل برخواست کر دی گئی۔ بہرحال یہ نیرنگ گیلری کی بیٹھک کا پہلا کامیاب سفر تھا۔ کامیاب اس لئے کہ ہال میں موجود تمام حاضرین اس محفل سے خوب محظوظ ہوئے۔ ان کے لئے بھی یہ ایک انوکھی بات تھی اور یہ ایک انوکھا تجربہ۔
لیکن اس بار لاہور لٹریری فیسٹیول کے دو ہیرو تھے۔ ایک تھے ترک ناول نگار ارحان پامک اور دوسرے تھے بر صغیر میں مسلم سلطنت کے زوال کی تاریخ لکھنے والے ولیم ڈیل رمپل۔ ارحان پامک کا سیشن شروع ہوا تو الحمرا کا سب سے بڑا ہال تالیوں سے گونج اٹھا۔ سب کھڑے تھے‘ اور سب نے تالیاں بجا بجا کر اپنے ہاتھ سرخ کر لئے تھے۔ پامک کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ اس ہجوم کا کس طرح شکریہ ادا کریں، جس کا جوش ختم ہونے میں ہی نہیں آ رہا تھا۔ وہ بھی سٹیج پر کھڑے دونوں ہاتھ اوپر اٹھائے حیرت سے ادھر ادھر دیکھ رہے تھے۔ اب انہوں نے اپنے ناولوں کے بارے میں کیا باتیں کیں یا احمد رشید نے کیا سوال کئے؟ اگر آپ نے ان کے ناول پڑھے ہیں تو ان سوالوں کا جواب آپ کو ان میں مل جائے گا؛ البتہ انہوں نے یہ بتا کر ہمارے لئے ان کا ایک ناول سمجھنا آسان کر دیا کہ اس کے والد سول انجینئر تھے‘ اور وہ انہیں بھی انجینئر ہی بنانا چاہتے تھے لیکن انہیں پینٹنگ کا شوق تھا‘ اور انہوں نے کافی وقت لگا کر ایرانی منی ایچر پینٹنگز کا مطالعہ کیا؛ چنانچہ ان کا ناول MY NAME IS RED اسی مطالعے کا نتیجہ ہے۔ ان کا شہر استنبول ہے اور ان کے ناولوں کا پس منظر بھی وہی شہر ہے۔ اب پامک سے یہ سوال کرنا احمقانہ بات ہی ہے کہ وہ نیو یارک کے پس منظر میں ناول کیوں نہیں لکھتے؟ وہ بارہ سال سے وہاں یونیورسٹی میں پڑھا رہے ہیں؟
اب رہے ولیم ڈیل رمپل صاحب، تو انہوں نے اپنی تقریر میں جو کہا وہ تو جانے دیجئے۔ ہم تو حیران پریشان یہ دیکھ رہے تھے کہ ان کی ضخیم اور خاصی بھاری بھرکم قیمت والی کتابAnarchy پر ان کے دستخط لینے والے نوجوان لڑکے لڑکیاں ایسے ٹوٹے پڑ رہے تھے‘ جیسے مفت مٹھائی بٹ رہی ہو۔ وہ بھی خوش تھے کہ ان کی کتاب پاکستان میں بھی خوب فروخت ہو رہی ہے۔ لیکن ان کی تو ہر کتاب ہی گرما گرم سموسوں کی طرح فروخت ہوتی ہے۔ اب ہمارے نک چڑھے مورخ خواہ کچھ بھی کہتے رہیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ ڈیل رمپل نے بر صغیر کی تاریخ، بالخصوص مغلوں اور دوسرے مسلم بادشاہوں اور نوابوں کی تاریخ کو پاپولر ناول بنا دیا ہے۔ آپ ان کی یہ کتابیں ایسے پڑھتے ہیں‘ جیسے ناول۔ ان کی نئی کتاب اگرچہ ایسٹ انڈیا کمپنی کی ریشہ دوانیوں کی تاریخ ہے لیکن اس زمانے میں ہمارے اپنے بادشاہ اور نواب ایک دوسرے کا جو گلا کاٹ رہے تھے، اور جو انگریزوں کی جوتیاں چاٹ رہے تھے، یہ کتاب اس کی تاریخی دستاویز بھی تو ہے۔ یہاں اس آئینے میں ہم اپنے آپ کو دیکھتے ہیں اور دعا دیتے ہیں اس بھاری بھرکم سکاٹش شخص کو کہ اس نے ہماری تاریخ کے اس پہلو کی طرف توجہ کی ہے۔
لاہور لٹریری فیسٹیول میں اتنا کچھ ہوا کہ اسے بیان کرنے کے لئے پورا دفتر چاہیے لیکن یہاں ہم الحمرا کی عمارت کے بارے میں کچھ عرض کرنا چاہتے ہیں۔ یہ لاہور لٹریری فیسٹیول ہو یا کوئی دوسرا بین الاقوامی ادبی جشن، اس میں اردو زبان و ادب کے بارے میں جو اجلاس ہوتے ہیں، وہ عام طور پر چوتھے اور پانچویں ہال میں ہوتے ہیں۔ چوتھا ہال وہی ہے جو پہلے بیٹھک کہلاتا تھا۔ پانچواں ہال پینٹنگز کی نمائش کے لئے تھا۔ اب یہاں ہر فیسٹیول میں اردو کتابوں کی رونمائی یا اردو کے مذاکرے ہوتے ہیں۔ آپ جانتے ہیں کہ یہ ہال اس مقصد کے لئے بنائے ہی نہیں گئے تھے اس لئے وہ سائونڈ پروف نہیں ہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ وہاں آواز گونجتی ہے اور کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ کیا کہا جا رہا ہے۔ پہلے تو وہاں ایسے اجلاس ہوتے ہی نہیں تھے، اس لئے اس طرف کسی کی توجہ نہیں جاتی تھی لیکن اب چونکہ الحمرا میں بہت سے ادبی و ثقافتی جشن شروع ہو گئے ہیں‘ تو ان دونوں ہالوں کے سائونڈ سسٹم کی خرابیاں بھی سامنے آنے لگی ہیں۔ منیزہ ہاشمی آج کل الحمرا کی چیئر پرسن ہیں۔ وہ پاکستان ٹیلی وژن میں بڑے بڑے عہدوں پر فائز رہی ہیں۔ کیا وہ یہ سائونڈ سسٹم ٹھیک نہیں کرا سکتیں؟ ان سے بہتر اور کون جانتا ہو گا کہ کسی بھی ہال کاacoustic کیسے ٹھیک کرایا جاتا ہے۔ نیّر علی دادا آپ کے پاس موجود ہیں۔ بھلا کتنا خرچ آ جائے گا اس پر؟ اب تو ادبی و ثقافتی جشن اتنے شروع ہو گئے ہیں کہ الحمرا کے وارے نیارے ہیں۔ اب لگے ہاتھوں منیزہ کو یہ کام بھی کرا دینا چاہیے۔ اردو اور دوسری پاکستانی زبانوں والے انہیں ہمیشہ یاد رکھیں گے۔