اب معلوم ہوا کہ شہر اداس اور گلیاں سونی کیسی ہوتی ہیں۔ اداسی سی اداسی ہے۔ سونا پن سا سونا پن ہے۔ دو دن سے ہم گھر میں بند ہیں اور ہمارے ارد گرد ہو کا عالم ہے۔ ہم جس علاقے میں رہتے ہیں وہاں آنے جانے پر پابندی ہے۔ کہتے ہیں بعض راستوں پر تو خاردار تار لگا دیے گئے ہیں۔ شاید اس لئے کہ پابندی کے باوجود لوگ من مانی کرنے سے باز نہیں آتے۔ انہیں ابھی تک احساس نہیں ہوا کہ وہ کس کڑی آزمائش سے گزر رہے ہیں؛ البتہ علاقے کے اندر رہنے والوں کو سودا سلف لینے بازار جانے کی اجازت ہے۔ وہ بھی اس علاقے کے اندر ہی‘ اور ایک ایک دو دو کر کے۔ برا ہو اس وبا یا اس بلا کا کہ اس نے انسانوں کو ایک دوسرے سے دور کر دیا ہے اور ہمیں گھروں کے اندر محبوس کر دیا ہے۔ انور مقصود نے کسی شاعر کا یہ شعر نقل کیا ہے:
شہر میں کس سے سخن کیجے کدھر کو چلیے
اتنی تنہائی تو گھر میں بھی ہے گھر کو چلئے
شاعر نے تو ہجوم میں رہتے ہوئے تنہائی محسوس کرنے کو شاعرانہ انداز میں بیان کیا تھا‘ مگر اب حقیقت میں ایسا ہی ہو گیا ہے۔ اب تنہائی ہی تنہائی ہے۔ باہر بھی کسی کی طرف ہاتھ بڑھائو توآواز آتی ہے ''ذرا دور سے‘‘ گھر کے اندر بھی کوئی اپنے قریب نہیں آنے دیتا۔ کہتا ہے فاصلہ رکھ کر بات کرو۔ پہلے محاورہ تھا ''ذرا منہ دھو کر آئو‘‘ اور اب محاورہ ہے پہلے ہاتھ دھو کر آئو۔ ہا تھ دھو دھو کر برا حال ہو گیا ہے۔ ادھر آئو تو ہاتھ دھو لو۔ادھر جائو تو ہاتھ دھو لو۔ باہر تو باہر گھر کے اندر بھی جسے دیکھو منہ پر ڈھاٹا باندھے پھر رہا ہے۔ سوچا تھا کہ ایک ڈھاٹا ہم بھی خرید لیں گے مگر ہمارے خریدنے سے پہلے ہی بازار سے ڈھاٹے غائب ہو گئے۔ سنا ہے اب دکان داروں نے سادہ کپڑے کے ڈھاٹے بنا لیے ہیں‘ لیکن یہ ڈھاٹے ہمارا خریدنے کو جی نہیں چاہتا۔ بھلا یہ بھی کوئی بات ہوئی کہ دوسرے لوگ تو کالے رنگ کے اچھے اچھے ڈھاٹے باندھیں اور ہم کپڑے کے سستے ڈھاٹے باندھے پھریں۔ لیکن ہمیں اب سب سمجھا رہے ہیں کہ کوئی نہ کوئی ڈھاٹا ضرور باندھو ورنہ کورونا کی بلا تمہارے اوپر بھی سوار ہو جائے گی۔
ہم نے یار دوستوں کو مشورہ دیا تھا کہ گھر میں بیٹھو اور کتابیں پڑھو۔ اب یار دوست کہتے ہیں کہ کتاب پڑھنے کے لئے ذہنی سکون چاہیے اور ان دنوں ذہنی سکون کسے نصیب ہے؟ اور یہ ذہنی سکون کہاں ہے؟ صبح شام ٹیلی وژن اور اخبار دنیا بھر کے ساتھ اپنے ملک کی بھی ایسی ایسی خبروں سے بھرے ہوتے ہیں جن سے رہا سہا ذہنی سکون بھی برباد ہو جاتا ہے۔ اب بھلا کتاب کون پڑھے گا۔ اس کے بعد تو کتاب پڑھنے کے بجائے ہر وقت یہ کرید لگی رہتی ہے کہ آگے کیا ہو گا؟ اب آگے کیا ہو گا؟ اس کی خبر کسی کو نہیں ہے۔ اور اس ناگہانی بلا کا سب سے زیادہ خطرناک پہلو یہی ہے۔ کچھ نہیں معلوم کہ آگے کیا ہو گا۔ ہمیں یہ مشورہ دیا جا رہا ہے کہ سوشل میڈیا پر جو بھانت بھانت کے علاج بتائے جاتے ہیں‘ ان پر بالکل بھروسہ نہ کرو۔ یہ سب اتائی لوگ ہیں اور یوں بھی ہر مریض کو اپنی دانست میں کسی کی بیماری کا علاج بتانا سب سے آسان کام ہے۔ ہم سے کہا جا رہا ہے کہ انتظار کرو اس ویکسین کا جو یورپ کے کئی ملکوں میں تیار کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ لیکن ہمیں یہ بھی بتایا جا رہا ہے کہ اس کام میں ایک سال لگ سکتا ہے۔ اب ہم کیا کر سکتے ہیں ؟ سوائے قہر درویش بر جان درویش کے؟ اسی لئے اگر ہمیں اپنے آپ کو اور دنیا بھر کے انسانوں کی جانیں بچانا ہیں تو خاموشی سے اس ویکسین کا انتظار کرنا پڑے گا اور اس عرصے میں وہ احتیاط ہی کرنا پڑے گی جو حکومت کی طرف سے کرائی جا رہی ہے اور یہ بھی یاد رکھنا ہو گا کہ یہ کام اکیلی حکومت نہیں کر سکتی۔ یہ کام یا یہ فرض ہم سب کا ہے۔ سب مل کر ہی اس ہولناک بلا کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔ ابھی احتیاط ہی بہترین علاج ہے۔ اس احتیاط میں اگر ہم تھوڑی بہت تکلیف بھی برداشت کر لیں تو اپنا ہی فائدہ ہے۔ بہت دن تو ہم یورپ کے ملکوں میں ہونے والے لاک ڈائون کا سنتے رہے۔ اور سو چتے رہے کہ ہمارے ہاں اس کی نوبت نہیں آئے گی۔ پھر سندھ کی حکومت کو اس کا احساس ہوا‘ اور اپنے صوبے میں اس نے اس کی ابتدا کی۔ اس کے بعد بھی ہماری سمجھ میں نہیں آیا کہ ہمیں کیا کرنا چاہیے۔ اصل میں ہماری وفاقی حکومت، یعنی عمران خان صاحب کی حکومت سندھ کی حکومت کو اپنا ہی نہیں سمجھتی۔ وہ اس کے بالکل الٹ کام کرنے کی کوشش کرتی ہے جو سندھ میں کیا جاتا ہے۔ سندھ کے پڑھے لکھے وزیر اعلیٰ کو اسی وقت اس وبا یا اس بلا کی شدت کا احساس ہو گیا تھا جب ایران سے ایسے لوگ آنا شروع ہوئے تھے جن میں کورونا کے جرا ثیم پائے جاتے تھے۔ وہاں پہلے تو انہیں الگ تھلگ کرنے کی کوشش کی گئی اور جب اس سے بھی کام نہیں چلا تو پورا کراچی ہی بند کر دیا گیا۔ یہ ہوا لاک ڈائون۔ یہی ایک طریقہ تھا اس وبا کو پھیلنے سے روکنے کا۔ ہم پنجاب اور دوسرے صوبوں میں انتظار ہی کرتے رہے کہ ہمارے ہاں ایسا نہیں ہو گا۔ انہیں سمجھایا بھی گیا کہ سندھ کا راستہ اپنائو۔ مگر ہم ٹال مٹول سے کام لیتے رہے۔آخر ہم وہ کام کیوں کرتے جو ہماری مخالف جماعت کے ایک صوبے نے کی ؟ اس کی وجہ آپ جانتے ہی ہیں ۔ آخر جب پورے ملک سے احساس دلایا گیا کہ یہ بلا تو سر پر ہی چڑھ گئی ہے اور یہ وبا پھیلتی ہی جا رہی ہے تو ہمیں بھی خیال آیا‘ اور ہم نے بھی لاک ڈائون والی پالیسی اپنائی۔ اب ہمارے وزیر اعظم صرف ٹیلی وژن تقریریں ہی نہیں کرتے بلکہ قریب قریب ہر روز ٹیلی وژن چینلز کے سینئر اینکرز سے باتیں بھی کرتے ہیں۔ اس بات چیت کی سب سے اچھی بات یہ ہے کہ ہمارے اینکر کسی رو رعایت کے بغیر ہر موضوع پر کھل کر بولتے ہیں اور وہاں وہ موضوع بھی زیر بحث آ جاتے ہیں جو عام طور پر وزیر اعظم کے سامنے نہیں رکھے جاتے؛ البتہ ایک موضوع ایسا ہے جس پر اب تک بات نہیں ہوتی اور وہ موضوع ہے اظہار رائے کی آزادی کا۔
لیجئے، ابھی یہ کورونا وائرس کی خبریں آ ہی رہی تھیں کہ اسلام آباد سے ایک اور افسوسناک خبر ملی۔ ہمارے دوست محبوب ظفر صاحب نے اطلاع دی کہ نصرت زیدی بھی ہمیں چھوڑ گئے ہیں۔ ابھی چند ہفتے پہلے ہی تو ان سے بات ہوئی تھی۔ ٹھیک ٹھاک تھے۔ اچانک انہیں کیا ہوا کہ یوں دنیا چھوڑ گئے؟ ڈیڑھ پسلی کے آدمی تو وہ پہلے ہی تھے۔ اتنے دبلے پتلے کہ جسم پر ہڈیاں ہی ہڈیاں نظر آتی تھیں۔ لیکن اتنے جاندار کہ ہر دم ادب اور ادیبوں کے لئے کام کرنے پر مستعد۔ نصرت زیدی خود بھی شاعر تھے۔ ان کا کلام رسالوں میں شائع ہوتا تھا۔ باقاعدہ مشاعروں میں بھی شرکت کرتے تھے‘ لیکن انہوں نے اپنی زندگی کا مقصد مصطفیٰ زیدی اور ان کی شاعری کی ترویج و اشاعت کو ہی بنا رکھا تھا۔ انہوں نے پہلے مصطفیٰ زیدی کا ایک مجموعہ چھاپا، پھر اس کی شاعری کا انتخاب چھاپا۔ اس پر بھی چین نہ آیا تو دوبارہ سارا کلام اکٹھا کیا اور وہ چھپوایا۔ مصطفیٰ زیدی کی شخصیت اور شاعری پر جتنے بھی مضامین لکھے گئے ہیں وہ اکٹھے کئے اور ایک خوبصورت کتاب چھپوا دی۔ نصرت زیدی نے مصطفیٰ زیدی کے بارے میں کتنے جلسے کئے؟ ان کا تو کوئی حساب ہی نہیں ہے۔ حتیٰ کہ مصطفیٰ کی بیٹی عصمت کو جرمنی سے بلا کر اسے بھی ایک جلسے کا مہمان بنایا۔ جب تک مصطفیٰ زیدی کے چھوٹے بھائی ارتضے زیدی زندہ تھے وہ بھی ان جلسوں میں شرکت کرتے تھے۔ ان کے انتقال کے بعد بھی یہ سلسلہ جاری رہا۔ نصرت زیدی کا خیال تھا کہ اب ایک بہت بڑا جلسہ کیا جائے گا جس میں پاکستان سے باہر کے لکھنے والے بھی بلائے جائیں گے۔ ان کا خیال تھا کہ اس جلسے میں مصطفیٰ زیدی کی جرمن بیوی ویرا کو بھی بلایا جائے گا۔ اب کیا ہو گا؟ اس طرح کون یاد کرے گا اب مصطفیٰ زیدی کو؟