آ خر کار کل ہم گھر سے باہر نکلے۔ پوری طرح اپنی حفاظت کا انتظام کر کے۔ منہ اور ناک پر ماسک اور دونوں ہاتھوں پر دستانے۔ سڑکوں پر دو چار گاڑیاں ہی نظر آ رہی تھیں، وہ بھی تیز تیز چلتی ہوئیں‘ جیسے انہیں جلدی اپنی منزل پر پہنچنا ہو۔ موٹر سائیکلیں بھی زیادہ نہیں تھیں۔ جگہ جگہ چیک پوسٹیں بنی ہوئی تھیں۔ وہاں گاڑیوں کی کم اور موٹر سائیکلوں کی زیادہ چیکنگ کی جا رہی تھی۔ وہاں کیا پوچھا جا رہا تھا؟ ہمیں علم نہیں‘ لیکن ہم نے یہ اندازہ لگایا کہ کسی موٹر سائیکل کو روکا نہیں جا رہا تھا۔ ہر ایک کو ہی آگے جانے کی اجازت مل رہی تھی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ کورونا وائرس کی موذی وبا سے بچنے کے لئے ہمارے شہریوں کو جو ہدایات دی گئی ہیں ان پر وہ پوری فرض شناسی کے ساتھ عمل کر رہے ہیں۔ ہم جہاں گئے تھے وہ صرف پندرہ منٹ کا فاصلہ تھا۔ بھیڑ بھاڑ تو دور کی بات ہے‘ راستے میں کہیں بھی ہمیں زیادہ لوگ اکٹھے نظر نہیں آئے؛ البتہ، اگر نظر آئیں تو وہ بھیک مانگنے والیاں اور وہ بھیک مانگنے والے جو ہر روز پوری پابندی کے ساتھ سویرے سویرے ہر چوک پر اپنی ڈیوٹی پر موجود ہوتے ہیں۔ ان میں سے بعض بھیک مانگنے والوں کو تو اپنی صحت کا خیال بھی تھا۔ انہوں نے اپنے چہرے پر ماسک بھی لگائے ہوئے تھے۔ لیکن یہ صرف مردوں نے لگائے تھے۔ عورتوں کو اس کی پروا نہیں تھی۔ بہرحال ثابت ہوا کہ ہم واقعی کافی ذمہ دار لوگ ہیں۔ اگر کسی کام کے بارے میں پوری طرح یقین دلا دیا جائے تو ہم اس سے متعلق ضروری ہدایات پر عمل کرتے ہیں اور اپنی صحت کا خیال بھی رکھتے ہیں۔ یہ ہم اپنے علاقے کی بات کر رہے ہیں۔ باقی علاقوں میں کیا حال ہے؟ وہاں سرکاری ہدایات پر عمل کیا جا رہا ہے یا نہیں؟ اس کے بارے میں ہم کچھ نہیں کہہ سکتے۔ اندازہ یہ ہے کہ وہاں بھی صورتحال ایسی ہی ہو گی اور لاک ڈائون پر عمل درآمد کیا جا رہا ہو گا۔
ادھر ہمارے وزیر اعظم عمران خان نے اپنی ٹائیگر فورس میدان میں اتارنے کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ ٹائیگر فورس ان مزدوروں اور محنت کشوں کی مدد کرے گی جو روزانہ محنت کر کے اپنی روزی کا بندوبست کرتے ہیں۔ لیکن یہ ٹائیگر فورس غریبوں کی کیسے مدد کرے گی؟ اس کا ذکر تو بعد میں کیا جائے گا‘ پہلے اس حقیقت پر غور کر لیا جائے کہ آخر ہمیں جانور ہی کیوں پسند ہیں؟ میاں نواز شریف کی پارٹی کا نشان شیر ہے‘ اور عمران خان کے نوجوان ہیں ٹائیگر۔ جب بھی میاں نواز شریف کی جماعت کا کوئی جلوس نکلتا ہے یا کہیں مظاہرہ کیا جاتا ہے تو وہاں شیر کا پتلا ضرور موجود ہوتا ہے۔ کہیں کہیں تو زندہ شیر بھی جلوس کی قیادت کر رہا ہوتا ہے۔ بعض لوگوں نے اپنے گھروں میں بھی یہ شیر پال رکھے ہیں۔ ان کے گھروں کی چھتوں پر یہ زندہ شیر ہم نے بھی دیکھے ہیں۔ رائے ونڈ روڈ پر جو گرین ایکڑ آبادی ہے اس کے ایک وسیع و عریض مکان کی چھت پر ہم نے شیروں کا ایک جوڑا بندھا دیکھا ہے بلکہ اس شیر اور شیرنی کو اتنی زور سے دہاڑتے بھی سنا ہے کہ ارد گرد کے مکان لرز جاتے ہیں لیکن ابھی خیال آیا کہ یہ تو ایک سیاسی جماعت کی بات ہے جسے اپنی طاقت کا مظاہرہ کرنے کیلئے زندہ اور مردہ شیروں کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہمارے اپنے ایک عزیز نے بھی تو کراچی میں شیر کے دو بچے پال رکھے ہیں۔ دونوں سفید رنگ کے ہیں۔ اور آپ کو یہ پڑھ کر حیرت نہیں ہونی چاہیے کہ یہ دونوں شیر کے بچے لاہور سے خریدے گئے ہیں۔ معلوم ہوا کہ یہ کام لاہور میں ہی کیا جاتا ہے۔ بہرحال ہمارے یہ عزیز کہتے ہیں کہ چند مہینے بعد جب وہ بچے بڑے ہو جائیں گے تو لاہور واپس بھیج دیئے جائیں گے۔
اب اگر نواز شریف صاحب کو شیر پسند ہے تو ہمارے وزیر اعظم ٹائیگر کے متوالے ہیں۔ انہوں نے اپنے متوالے رضا کاروں کو ٹائیگر کا نام دیا ہے۔ معاف کیجئے۔ ہم اسی ٹائیگر فورس کا ذکر کرنا چاہتے تھے اور لگے شیروں اور چیتوں کے شکار کی باتیں کرنے اور ان کی خاصیت بیان کرنے۔ آپ جانتے ہیں کہ اس منحوس کورونا وائرس سے بچنے کیلئے جب پورا ملک بالکل ہی بند کرنے کی بات کی جاتی ہے تو ہمارے وزیر اعظم کو وہ غریب محنت کش یاد آ جاتے ہیں‘ جو بقول کسے ہر روز کنواں کھودتے ہیں اور ہر روز اس کنویں کا پانی پیتے ہیں۔ ان کی روزانہ کی محنت مزدوری ہی انہیں اور ان کے بال بچوں کو زندہ رکھتی ہے۔ شہر کے شہر بند ہو جانے سے ان کی یہ روزی ماری جائے گی۔ یہ ان کی مثبت سوچ ہے کہ وہ غریبوں کے بارے میں سوچتے ہیں۔ اس لئے پہلے تو وزیر اعظم مکمل لاک ڈائون کے حق میں ہی نہیں تھے۔ آخر مجبور ہو کر اس کے حق میں ہوئے ہیں تو انہیں یہ فکر ہے کہ اس محنت کش طبقے کو بھوک اور بیماری سے بچانے کے لئے کس طرح اس کے کھانے پینے اور اسے زندہ رکھنے کا بندوبست کیا جائے۔ اس کے لئے انہوں نے معقول فنڈز مہیا کرنے کا وعدہ کیا ہے۔ لیکن اب سوال یہ ہے کہ حقیقی ضرورت مندوں کو تلاش کیسے کیا جائے تاکہ انہیں ان کی ضرورت کا سامان فراہم کیا جا سکے؟ یہ ذمہ داری وہ اپنے ان نوجوانوں کے سپرد کرنا چاہتے ہیں جنہیں وہ ٹائیگر فورس کہتے ہیں اور ظاہر ہے یہ نوجوان ان کی اپنی جماعت سے ہی تعلق رکھتے ہوں گے۔
بظاہر اپنی جماعت کے نوجوانوں کو ہی یہ فریضہ سونپنے پر کسی کو اعتراض نہیں ہونا چاہیے لیکن اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ وہ شاید دوسری جماعتوں یا دوسری رضا کار تنظیموں پر بھروسہ نہیں کرتے حالانکہ ہمارے ملک میں کئی ایسی رضاکار تنظیمیں ہیں جو پہلے ہی یہ نیک کام کر رہی ہیں اور دوسری سیاسی جماعتیں بھی اس کار خیر میں حصہ لینے کو تیار ہیں۔ تو کیا انہیں اس کام میں شامل نہیں کیا جا سکتا؟ بلکہ اس سلسلے میں جو بہترین تجویز سامنے آئی ہے، وہ ہے محلہ کمیٹیوں کا قیام۔ ہمارے ہاں یونین کونسلیں پہلے ہی موجود ہیں۔ ان کی بنیاد پر محلہ کمیٹیاں قائم کی جا سکتی ہیں۔ ٹائیگر فورس کو تو محلے محلے جا کر ضرورت مند خاندان تلاش کرنا پڑیں گے‘ مگر مقامی یونین کونسلیں اپنے علاقے کے ہر خاندان کو اچھی طرح جانتی ہیں۔ یہ یونین کونسلیں ہی محلہ کمیٹیاں بنا سکتی ہیں۔ یہ کمیٹیاں پہلے اپنے محلے کے ضرورت مند خاندانوں کے اعداد و شمار جمع کریں گی۔ اس کے بعد انہیں ضروری سامان فراہم کرنے کا بندوبست کریں گی۔ کئی جگہ یہ کام شروع بھی ہو چکا ہے۔ میرے خیال میں نئی ٹائیگر فورس شاید تنہا یہ کام نہیں کر سکتی؛ البتہ یہ ٹائیگر فورس محلہ کمیٹیوں کی مدد کر سکتی ہے‘ اور کسی حد تک ان کی نگرانی بھی کر سکتی ہے۔ پہلے ہی کافی وقت ضائع ہو چکا ہے۔ اب جتنی جلد ہو سکے یہ کام شروع کر دینا چاہیے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اس کارآمد تجویز کو عمل درآمد کے قابل سمجھا جائے گا؟ حکمرانوں کو یہ احساس کرنا ہو گا کہ یہ ناگہانی وبا پھیلتی ہی چلی جا رہی ہے۔ اور بے روزگاروں کی تعداد میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ اس لئے یہ سوال کرنا نامناسب نہ ہو گا کہ دوسری جماعتوں کا تعاون حاصل کرنے میں کیا مضائقہ ہے؟ اور یہ کہ غریبوں کی مدد کے لئے محلہ کمیٹیاں بھی تو کارگر ثابت ہو سکتی ہیں۔ اس وقت تو بے روزگاروں کی مدد کیلئے یہی ایک تجویز کارآمد نظر آتی ہے۔ میرے خیال میں تو محلہ کمیٹیاں گلی محلے دکانوں کا جائزہ لے کر اور اشیائے صرف کی قیمتوں کے بارے میں معلومات حاصل کرکے مہنگائی پر قابو پانے کے سلسلے میں بھی ممد ثابت ہو سکتی ہیں۔
بہرحال ثابت ہوا کہ ہم واقعی کافی ذمہ دار لوگ ہیں۔ اگر کسی کام کے بارے میں پوری طرح یقین دلا دیا جائے تو ہم اس سے متعلق ضروری ہدایات پر عمل کرتے ہیں اور اپنی صحت کا خیال بھی رکھتے ہیں۔ یہ ہم اپنے علاقے کی بات کر رہے ہیں۔ باقی علاقوں میں کیا حال ہے؟ وہاں سرکاری ہدایات پر عمل کیا جا رہا ہے یا نہیں؟ اس کے بارے میں ہم کچھ نہیں کہہ سکتے۔