"MAC" (space) message & send to 7575

یہ چیلیں اور یہ نام کہاں سے آ گئے؟

ہم نظر بند کی طرح گھر بند ہیں اور شام پڑتے ہی دیکھ رہے ہیں وہ چیلیں، جو ہمارے سامنے والے گھر پر منڈلا رہی ہیں۔ سڑک پار ہمارے گھر کے سامنے جو اونچا سا مکان ہے اس کے ساتھ ایک بہت ہی پرانا پیڑ تھا۔ پیڑ بہت پرانا تھا اس لئے بلند و بالا بھی بہت تھا۔ اس پیڑ پر چیلوں نے گھونسلے بنا رکھے تھے۔ آپ جانتے ہیں کہ چیلیں اور گدھ ہمیشہ اونچے پیڑوں پر ہی گھونسلے بناتے ہیں۔ سال ڈیڑھ سال ہوا مقامی انتظامیہ نے سڑک کے ارد گرد کا سر سبز علاقہ کشادہ کر نے کے لئے وہ پیڑ کاٹ دیا‘ اور چیلیں بے گھر ہو گئیں۔ اس کے بعد ان چیلوں نے اپنے گھونسلے کہاں بنائے؟ یہ تو ہمیں معلوم نہیں لیکن آج بھی وہ چیلیں شام کو سورج ڈوبنے سے پہلے اس مکان کا چکر ضرور لگاتی ہیں۔ گویا سال ڈیڑھ سال بعد بھی انہیں اپنا گھر یاد ہے۔ وہ گھر جہاں آپ پیدا ہوئے، اسے آپ کبھی نہیں بھولتے اور یہ چیلیں اسی پیڑ پر انڈوں سے باہر آئی تھیں۔ ہم سوچ رہے ہیں کہ شاید یہ چیلیں اس مکان کی چھت پر بیٹھ جائیں‘ لیکن وہ بیٹھتی نہیں، بس چکر لگاتی رہتی ہیں‘ اور پھر اپنے پروں کو جنبش دیئے بغیر فضا میں ایسے تیرتی چلی جاتی ہیں جیسے پانی میں تیر رہی ہوں۔ ہم حجاب امتیاز علی تاج کے بقول اپنے پائیں باغ میں بیٹھے ہیں اور دیکھ رہے ہیں کہ سورج ڈھلنے سے پہلے کوے‘ چڑیاں اور دوسرے پرندے ہمارے پیڑوں پر اکٹھے ہو جاتے ہیں اور اتنا شور مچاتے ہیں کہ اس وقت ہمیں اور کوئی آواز سنائی نہیں دیتی۔ اب ڈاکٹر مبشر حسن تو ہمارے درمیان رہے نہیں، ورنہ ان سے پوچھتے کہ یہ پرندے شام کو اپنے اپنے گھونسلوں میں جانے سے پہلے کسی پیڑ پر اکٹھے ہو کر شور کیوں مچاتے ہیں؟ اس شور میں ہمیں ایک چڑا بھی نظر آتا ہے۔ وہ چڑا ہمارے باہر والے پیڑ کی شاخ پر بیٹھا چوں چوں نہیں کرتا بلکہ ''چروں چروں‘ چراں‘ کی سی آواز نکالتا ہے اور ہم اپنے گھر والوں کو سمجھاتے ہیں کہ یہ اپنی مادہ کو بلا رہا ہے۔ یہ چڑا ہر شام پیڑ کی اسی شاخ پر بیٹھ کر یہی آواز نکا لتا ہے۔ ڈاکٹر مبشر حسن نے پاکستانی پرندوں پر ریسرچ کی تھی اور ان پر ایک کتاب بھی لکھی تھی۔ ان رنگ برنگے پرندوں کی تصویریں ان کے ڈرائنگ روم میں سجی ہوئی ہیں۔ اگر وہ ہوتے تو ہم ان پرندوں کی زبان بھی سمجھ لیتے۔
اب آپ یہ نہ کہہ دیجئے کہ تم یہ کیا طوطا کہانی لے بیٹھے۔ یہ وقت طوطا مینا کی کہانی سنانے کا تو نہیں ہے۔ لیکن بات یہ ہے کہ ہم اپنی فیس بک اور ٹویٹر پر معروف اور غیر معروف لوگوں کی یہ ویڈیو دیکھتے ہیں کہ آج کل گھر بندی کے زمانے میں وہ اپنا وقت کیسے گزارتے ہیں، تو شوق چراتا ہے کہ ہم بھی اپنے احباب کو بتائیں کہ گھر کے اندر اپنا وقت ہم کیسے گزارتے ہیں۔ اب آپ نے یہ تو دیکھ لیا کہ ہماری سہ پہر اور ہماری شام کیسے گزرتی ہے۔ چیلیں، کوے اور رنگا رنگ چڑیاں ہمیں کیسے مصروف رکھتی ہیں۔ رات کے بارے میں ہم پہلے ہی بتا چکے ہیں کہ اپنے گھر والوں کے ساتھ فلمیں دیکھ کر اور پرانے گانے سن کر وقت کاٹ لیتے ہیں۔ اس میں اتنا اضافہ اور کر لیجئے کہ اگر کسی ٹیلی وژن چینل پر کوئی اچھی گفتگو ہو رہی ہو تو ہم وہ بھی دیکھ لیتے ہیں۔ صبح کا وقت ہمارے اخبار اور کتاب پڑھنے کا ہے۔ کتاب رات کو سونے سے پہلے بھی پڑھتے ہیں کہ اس کے بغیر نیند نہیں آتی۔ آج کل ہم دنیا کے بڑے بڑے ادیبوں کی تخلیقات کا اردو ترجمہ پڑھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ابھی ابھی ہم سیموں دا بوار کی ایک چھوٹی سی کتاب کا اردو ترجمہ پڑھ کر فارغ ہوئے ہیں۔ ترجمہ رضی مجتبیٰ نے کیا ہے۔ حالانکہ وہ فرانسیسی زبان جانتے ہیں کہ کافی عرصے فرانس میں رہے ہیں لیکن انہوں نے اس کتاب کا فرانسیسی نام نہیں لکھا ہے؛ البتہ اردو میں اس کا نام ''ایک پُر سکون موت‘‘ رکھا ہے۔ وہ اسے ناول کہتے ہیں‘ لیکن ہمارے خیال میں یہ دا بوار کی اپنی کئی سرگزشتوں میں سے ایک سرگزشت ہے۔ ماں کی آخری بیماری، ہسپتال میں ان کا علاج اور پھر ان کا انتقال۔ جس دل سوزی سے یہ سب کچھ بیان کیا گیا ہے، وہ اسے ایک کامیاب ناول بھی بنا دیتی ہے۔ ترجمہ ہمیں اچھا لگا۔
اور آج کل ہم نے جو کتاب پڑھنا شروع کی ہے‘ وہ میلان کنڈیرا کے ناول IMMORTALITY کا اردو ترجمہ ہے۔ اس کا اردو ترجمہ ڈاکٹر ارشد وحید نے کیا ہے۔ انہوں نے اس کا نام رکھا ہے ''بقائے دوام‘‘۔ انگریزی میں بھی یہ خاصا مشکل ناول ہے لیکن ہم نے اب تک جتنا پڑھا ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ڈاکٹر ارشد وحید نے اپنے ترجمے میں یہ مشکل آسان بنا دی ہے۔ اگر آپ کنڈیرا کو جانتے ہیں توآپ یہ بھی جانتے ہوں گے کہ وہ کتنا مشکل پسند ناول نگار ہے۔ اس کے کسی بھی ناول کو پڑھنا‘ اور اسے بخوبی سمجھنا کتنا مشکل کام ہے۔ اس کا ترجمہ کرنا تو ظاہر ہے ہفت خواں سر کرنے کے مترادف ہے۔ ہم تو ترجمہ کرنے والے کو داد دینا چاہتے ہیں کہ انہوں نے کس مشکل کام پر ہاتھ ڈالا ہے۔ 
اب ہم اپنے ان دوستوں کا شکریہ ادا کرنا چا ہتے ہیں جو صبح سے رات گئے تک دنیا بھر کی ویڈیو ہمیں بھیجتے رہتے ہیں۔ یہ ویڈیو پاکستان سے بھی ہوتی ہیں اور ہندوستان سے بھی۔ ہندوستان سے ملنے والی ایک ویڈیو نے ہمیں بہت متاثر کیا۔ ایک لڑکی اپنے ملک کے لوگوں کو سمجھا رہی ہے کہ تم بہت شور مچاتے تھے کہ ہمارے مذہب اور ہماری روایات الگ الگ ہیں۔ اور دوسروں کو سناتے تھے کہ تم ہم میں سے نہیں ہو۔ اب دیکھ لو، قدرت نے ایک ہی جھٹکے میں تم سب کو ایک کر دیا ہے۔ یہ نا گہانی بلا کسی ایک مذہب یا کسی ایک ملک پر ہی نازل نہیں ہوئی ہے بلکہ اس نے ساری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ جس متاثر کن انداز میں وہ لڑکی باتیں کر رہی ہے‘ ہم یہاں اس انداز میں وہ بیان نہیں کر سکتے۔ اور یہ ساری باتیں وہ ہنسی ہنسی میں کر رہی ہے۔ ہندوستان سے چند اور ویڈیو بھی ملی ہیں جن میں ایسے گانے ہیں جیسے دعا مانگی جا رہی ہو۔ اور پھر اپنی صنم ماروی کی ویڈیو ہے ''جی چاہے تو شیشہ بن جا، جی چاہے پیمانہ بن جا‘‘۔ آپ سنتے رہیے اور سر دھنتے رہیے۔ ہمارے اوپر یہ احسان سید قاسم جعفری کرتے رہتے ہیں۔
اب ہم اپنی حیرت، بلکہ خوش گوار حیرت بھی آپ تک پہنچا دیں۔ پہلے ہم آپ کو یہ بتا دیں کہ ہم اچھی زبان اور شستہ و شائستہ الفاظ کے شیدائی ہیں۔ اگر کہیں بھی ہمیں ایسی نفیس زبان سننے یا پڑھنے کو ملتی ہے تو ہم اس شخص کی تلاش میں نکل کھڑے ہوتے ہیں جس نے یہ زبان استعمال کی ہوتی ہے۔ اب آپ یہاں سیاست کو بالائے طاق رکھ دیجئے اور ہمیں یہ بتا دیجئے کہ یہ جو ملتان یا جنوبی پنجاب کے دو سیاسی بھائی ہیں، ان کے نام کس نے رکھے ہیں؟ خسرو بختیار اور ہاشم جواں بخت؟ یہاں بختیار کو آپ ایسے نہ لکھئے جیسے عام طور پر لکھا جاتا ہے بلکہ اسے ''بخت یار‘‘ کے طور پر لکھیے۔ قسمت کا یار، یا قسمت جس کی یار دوست ہو۔ اور پھر ہاشم جواں بخت تو اپنے منہ سے کہہ رہا ہے کہ جب تک کسی کو اردو اور فارسی ادب کا بہت ہی اچھا ذوق نہ ہو اس وقت تک ایسا نام اسے سوجھ ہی نہیں سکتا۔ ظاہر ہے ان دونوں بھائیوں کے نام ان کے والد صاحب نے ہی رکھے ہوں گے۔ اب ہم یہ معلوم کرنا چاہیں گے کہ ان کے والد کون ہیں؟ اور انہیں اردو اور فارسی زبان و ادب کا اتنا شائستہ اور اتنا نفیس ذوق کہاں سے ملا ہے؟ کیا یہ ان کی خاندانی روایت ہے؟ اور اگر یہ ان کی خاندانی روایت ہے تو وہ خاندان کہاں سے تعلق رکھتا ہے؟ اب ہم سوچ رہے ہیں کہ یہ تمام معلومات حاصل کرنے کے لئے کس سے مدد مانگیں؟ لے دے کے ہماری نظر ڈاکٹر انوار احمد کی طرف ہی جاتی ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ وہ ہمیں پسند نہیں کرتے، مگر ہمیں اتنا بھروسہ ہے کہ وہ ہماری مدد ضرور کریں گے۔ کیا یہ خاندان ان کی یونیورسٹی کا فارغ التحصیل ہے؟ لیجئے۔ ہم نے اتنا بھاری بھرکم لفظ لکھ دیا۔ ہماری پہنچ تو ''بخت یار‘‘ اور ''جواں بخت‘‘ تک بھی نہیں ہے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں