اشوک واجپائی ہندی کے نہایت ہی معتبر شاعر ہیں ۔ ایک سارک کانفرنس میں لاہور بھی آ چکے ہیں ۔ اس بد ذات کورونا وائرس کے حوالے سے انہوں نے کئی نظمیں کہی ہیں ۔ شمیم حنفی صاحب نے یہ نظمیں فیس بک پرپوسٹ کر دی ہیں۔ ان میں چند نظمیں تو خاصی طویل ہیں۔ اس لئے ان کا تر جمہ یہاں پیش نہیں کیا جا سکتا؛ البتہ چار پانچ نظمیں مختصرہیں۔ انہی میں سے ایک نظم کا تر جمہ حاضر ہے:
شاید اندھیرے کو
پتہ نہیں ہو تا ہے
کہ اسے بیت جا نا ہے
شاید صبح کے اجالے کوخبر ہو تی ہے
کہ اس کا وقت آئے گا
شاید ہم ہی ہیں
جو بیتنے اور ہو نے کے
بیچ پھنسے ہوئے ہیں
یہ نثری نظم ہے کہ ہندی میں شاعری نثری نظم میں ہی کی جا تی ہے۔ فراق صاحب اس کا بہت مذاق اڑا یا کرتے تھے ‘لیکن دیکھ لیجئے کہ یہ نثری نظم کتنی ہی باوزن نظموں پر بھاری ہے ۔ اندھیرا جا ئے گا۔ اجالا آئے گا ۔ مگر ہم بیتنے اور ہونے کے بیچ ہی پھنسے ہو ئے ہیں اور نہیں جانتے کہ آئندہ ہمارے ساتھ کیا ہو نے والا ہے‘لیکن شاعر ہمیں مایوس بھی نہیں کرتا۔ ہمیں حوصلہ دیتا ہے۔ ہماری ہمت بڑھاتا ہے ۔ سنا ہے ہمارے ہاں بھی اس بارے میں شاعری ہو رہی ہے۔ اور یہ بھی سنا ہے کہ سرمد صہبائی نے بھی اس پر کو ئی نظم لکھی ہے ۔ یہ نظم ہم تک ابھی نہیں پہنچی۔ پہنچ گئی تو ہم وہ بھی آپ تک پہنچادیں گے ۔ یقینا وہ نظم اچھی ہی ہو گی کہ سر مد صہبائی بلاشبہ جدیدشعری ڈکشن اور عصری حسیت کے بہت ہی اچھے شاعر ہیں۔ خیر،ابھی تو ہم انہیں ان کے بھا ئی منظر صہبائی اور ہمارے لاہور کی بہت ہی جانی مانی فن کار ثمینہ احمد کی شادی کی مبار ک باد پیش کر نا چا ہتے ہیں۔ ظاہر ہے، اس عمر میں دونوں کو ہی سہارے کی ضرورت تھی ۔ لیکن یہاں ہم اپنی اس اتھاہ حیرت کا اظہار بھی کرنا چاہتے ہیں کہ یہ جو منظر صہبائی ہیں ،وہ سرمد صہبائی کے کیسے بھا ئی ہیں؟ انہوں نے اپنے بھا ئی سے کچھ بھی نہیں سیکھا؟ ستر سال اپنی عمر یوں ہی گزار دی؟ ایک بھی شادی نہیں کی اور اب خدا خدا کر کے پہلی شادی کی ہے؟ ۔
چلیے ،اب پھر شاعری کی بات ہو جا ئے۔ برطانیہ میں ایک معروف خاتون شاعر ہیں۔ وہ اپنی شاعری کے لئے شاہی اعزاز بھی حاصل کر چکی ہیں۔ انہوں نے باقاعدہ ایک مہم شروع کی ہے۔ وہ اپنے ملک کے تمام شاعروں سے کہہ رہی ہیں کہ اس بلا ئے نا گہانی کا رو نا ہی نہ روتے رہو بلکہ شعروں میں اپنے تاثرات اور اپنے تجربات بھی بیان کرو۔ اس کا مطلب ہے کہ کچھ ہی عرصے میں ایسی انگریزی نظموں کا ایک مجموعہ مرتب ہو جا ئے گا اور ہم پوری ایک کتاب پڑھیں گے۔ ہمارے لکھنے والے بھی سوشل میڈیا پر اپنے تاثرات پیش کر رہے ہیں۔ آصف فرخی نے تو اس بارے میں اب تک کئی ویڈیو بنا ڈالی ہیں۔ حمید شاہد نے اور کچھ نہیں تو اپنا ایک افسانہ ہی پوسٹ کر دیا ہے۔
ہم تو گھر میں بند ہیں اور وہ محاورہ یاد کر رہے ہیں کہ ''خالی بنیا کیا کرے اس کوٹھے کے دھان اس کوٹھے میں‘‘۔ ہمارے دھان سوشل میڈیا کی یہی پوسٹ اور کتابیں ہیں۔ اب آپ یہ نہ کہہ دیجئے کہ ہم اپنے کتابیں پڑھنے کا ذکر کر کے شیخی مار رہے ہیں اورآپ پر رعب جمانا چاہتے ہیں۔ ہم تو یہ عرض کرنا چاہتے ہیں کہ ان دنوں فیس بک کی یہ پوسٹ اور کتابیں ہماری مجبوری بن گئی ہیں۔ ہم تو آپ سب سے یہی کہنا چاہتے ہیں کہ اگر آپ بھی ہماری طرح گھر بند ہیں تو ہماری نقالی ہی کریں۔ کتابیں ہم پہلے بھی پڑھتے تھے لیکن اب ان کی تعداد میں اضافہ ہو گیا ہے۔ کئی کتابیں ہم نے دوبارہ پڑھ ڈالی ہیں۔ ایک کتاب ختم کرتے ہیں تو دوسری کتاب پڑھنے کیلئے تیار ہوتی ہے۔ ابھی ہم اردو اور پنجابی کے مشہور شاعر سلیم کوثر کا چھوٹا سا ناول ''پلوتا‘‘ پڑھ کر فارغ ہوئے ہیں۔ یہ ان کے سرائیکی ناول کا اردو ترجمہ ہے۔ ترجمہ نجم الدین احمد نے کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں، سرائیکی زبان میں ''پلوتا‘‘ کا مطلب ہے بد دعا۔ یہ ہمارے لئے نیا لفظ ہے اور ہم نئے لفظوں اور نئی ترکیبوں کے شیدائی ہیں۔ لیکن یہ ناول کچھ زیادہ ہی علامتی ہو گیا ہے۔ اب ہم کچھ سمجھے،کچھ نہ سمجھے۔ لیکن جی کڑا کر کے ہم نے وہ ناول پڑھ ہی ڈالا۔
اور ہاں، ہم آپ کو یہ بھی بتا دیں کہ ہندوستانی مقبوضہ کشمیر کے علاقے جموں کے ایک شہر سو پور سے ایک نہایت ہی اعلیٰ پائے کا ادبی جریدہ شائع ہوتا ہے۔ نام ہے اس کا ''تفہیم‘‘۔ عمر فرحت اس کے ایڈیٹر ہیں۔ عمر فرحت خود بھی اچھے شاعر ہیں۔ ان کی غزلوں کا پہلا مجموعہ حال ہی میں شائع ہوا ہے۔ نام ہے اس کا ''زمیں زاد‘‘ اس پر ہمیں انگریزی کے ایک ناول نگار ''آدم زمیں زاد‘‘ یاد آ گئے۔ رہنے والے تو پاکستان یا ہندوستان کے تھے لیکن ساری عمر انگلستان میں گزاری۔ بہرحال، جب تک ہندوستان اور پاکستان کے درمیان کتابوں اور رسالوں کی آمدورفت جاری رہی اس وقت تک عمر فرحت کا یہ رسالہ ڈاک سے پاکستان پہنچتا رہا‘ لیکن جب سے یہ سلسلہ بند ہوا ہے اس کے بعد سے ہندوستان کا کوئی بھی رسالہ یا کتاب پاکستان نہیں آ رہی ہے۔ لیکن سلامت رہے نئی ٹیکنالوجی۔ ایک راستہ بند ہوا ہے تو اس نے دوسرا راستہ کھول دیا ہے۔ اب پی ڈی ایف فائل بنا کر کوئی بھی کتاب یا رسالہ ایک ملک سے دوسرے ملک بھیجا جا سکتا ہے اور اس پر کوئی پیسہ بھی خرچ نہیں ہوتا؛ البتہ عمر فرحت نے ہمارے ساتھ ایک اور مہربانی کی ہے کہ ''تفہیم‘‘ کا تازہ شمارہ ہمارے ای میل ایڈریس پر بھیج دیا ہے۔ اب ہمارے پڑھنے کے لئے تین چار سو صفحے کا ایک اور جریدہ مل گیا ہے۔ اب ہم آپ کو کیا بتائیں کہ یہ رسالہ کیسا ہے؟ آپ ہندوستان اور پاکستان کے کسی بھی ایسے نقاد یا افسانہ اور ناول نگارکا نام لیجئے، جسے آپ پڑھنا پسند کرتے ہیں‘ ان کی تخلیق آپ کو اس رسالے میں مل جائے گی۔ بعض ایسے نام بھی ہیں جنہیں ہم نہیں جانتے تھے اور وہ پاکستان سے تعلق رکھتے ہیں؛ البتہ ہمیں جس تحریر نے سب سے زیادہ متاثر کیا ہے وہ مشرف عالم ذوقی کا ناولٹ ''اندھیرا، موت اور مسیح سپرا‘‘ ہے۔ یہ ناولٹ نہیں ہے بلکہ ناولٹ کی شکل میں نئے ہندوستان کی نئی تاریخ ہے۔ وہ بدلتا ہوا ہندوستان جہاں اب کسی بھی انسان کو اس کے مذہب، اس کے عقیدے اور اس کی زبان سے ہی پہچانا جا تا ہے۔ اس ناولٹ میں آپ کو وہ چہرے بھی نظر آتے ہیں جنہوں نے بابری مسجد منہدم کرانے میں اصل کردار ادا کیا تھا۔ لیکن تاریخ میں ان کا نام کہیں بھی نہیں آتا۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے ہندو مسلم تفرقہ پیدا کیا۔ جنہوں نے تاریخ کا چہرہ ہی مسخ کر دیا۔ جنہوں نے پندرہ بیس کروڑ کی اقلیت کو بے زبان اور بے آسرا کر دیا۔ گاندھی جی کے تین بندر مشہور ہیں۔ ایک بندر نے آنکھوں پر دونوں ہاتھ رکھے ہوئے ہیں کہ ''برا نہ دیکھو‘‘۔ دوسرے بندر نے دونوں ہاتھوں سے اپنے کان بند کر رکھے ہیں کہ ''برا نہ سنو‘‘۔ اور تیسرے بندر نے دونوں ہاتھوں سے اپنا منہ بند کیا ہوا ہے کہ ''برا نہ کہو‘‘۔ مگر آج یہ ناولٹ گاندھی جی کی ان ہدایات کی کچھ اور ہی تعبیر کرتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ اس ملک میں زندہ رہنا ہے تو آنکھیں بند رکھو، کان بند رکھو اور منہ بھی بند رکھو۔ اگر ایسا نہیں کرو گے تو تمہارا حشر بھی وہی ہو گا جو اسی رسالے کے ایک اور افسانے میں ہندو دیوی دیوتائوں کی مورتیاں بنانے والے ایک مسلمان کے ساتھ ہوا تھا۔ اس کی گائے کہیں چلی گئی تو اسے مار مار کر ادھ موا کر دیا گیا کہ تم نے گائے ذبح کرکے اس کا گوشت کھا لیا ہے۔
خیر، ابھی تو یہ نا گہانی وبا ہمارے سروں پر سوار ہے بلکہ اب ہم جو کچھ کر رہے ہیں اس سے تو یہ خطرہ پیدا ہو گیا ہے کہ خدانخواستہ اگلے مہینے تک یہ وبا کہیں اور بھی نہ پھیل جائے۔ ہم دوسرے مذہبی معاملوں میں تو سعودی عرب کی تقلید کرتے ہیں، مگر رمضان میں ہم وہ نہیں کریں گے جو حرمین شریفین میں کیا جا رہا ہے۔