وسوسے تو ہیں اور ہزاروں ہی وسوسے ہیں‘ لیکن کیا کیا جائے۔ کس سے کہا جائے اور کس کی سنی جائے؟ ہمارے شہر کے ایک بہت ہی بڑے ہسپتال کے باہر ایک صاحب کھڑے شور مچا ر ہے تھے کہ ایک جگہ سے میرا ٹیسٹ پازیٹو آیا ہے اور دوسری جگہ سے نیگٹیو۔ انہوں نے اپنے گرد ایک مجمع اکٹھا کر رکھا تھا۔ ہم لڑکپن میں تو ایسے مجمع میں بڑے شوق سے پہنچ جایا کرتے تھے، لیکن اس عمر میں ایسا کرتے عجیب سا لگتا ہے۔ اس لئے ہم نے ان صاحب کی بات نہیں سنی، اور آگے بڑھ گئے۔ ہمیں اپنی ہی پڑی تھی۔ میر صاحب نے تو استعارے کے طور پر کہا تھا ''وہ ہاتھ سو گیا ہے سرہانے رکھے رکھے‘‘ اس کورونا کی گھر بندی میں ہمیں یہ بھی یاد نہیں رہا کہ میر جی نے سرہانے رکھے ر کھے کہا تھا یا سرہانے دھرے دھرے؟ لیکن یہاں سچ مچ ہی ہمارا ایک ہاتھ سرہانے رکھے رکھے تقریباً بے جان ہو گیا تھا۔ ہم ڈر گئے کہ کہیں ساری دنیا میں ہی دایاں بازو کمزور نہ ہو گیا ہو۔ ادھر پاکستان ٹائمز کے جی دار ایڈیٹر مظہر علی خاں کے صاحب زادے، اور دنیا بھر میں بائیں بازو کی سیاست کے بلند و بالا ستون طارق علی خاں لاہور آئے تو ہمارے بائیں بازو کے یار دوستوں نے انہیں گھیر لیا۔ انہوں نے طارق علی خاں پر سوالوں کی بوچھاڑ کر دی۔ سوال یہ تھے کہ آخر سارے جہان میں بائیں بازو کو کیا ہو گیا ہے؟ وہ کہیں بھی نظر نہیں آتا؟ اب طارق علی خاں نے جو کہا وہ یہاں بیان کر کے ہم آپ کو پریشان کرنا نہیں چاہتے۔ ساری دنیا میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ آپ کے سامنے ہے، لیکن ایک اور نوجوان دانش مند یووال نوح حراری نے اپنی چار کتابوں سے پوری دنیا میں جو تہلکہ مچا رکھا ہے ہم اس کا ذکر ضرور کرنا چاہتے ہیں۔ ہمیں تو حیرت اس بات پر ہوتی ہے کہ یہ کتابیں ہمارے اپنے وطن عزیز میں بھی خوب پڑھی گئی ہیں۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگا لیجئے کہ انگریزی زبان میں تو یہ کتا بیں انگریزی محاورے کے مطابق گرماگرم کیک کی طرح دھڑادھڑ فروخت ہوئیں تو ہوئیں، لیکن فوراً ہی ان کی دو کتابوں کا اردو میں ترجمہ بھی ہو گیا۔ تو کیا ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ کتابیں ہمارے بائیں بازو کی فکر کو تقویت پہنچا تی ہیں؟ بظا ہر تو ایسا ہی لگتا ہے۔ لیکن ہم نے حراری کی پہلی ہی کتاب sapiens پر ایک عالم فاضل کالم نگار کا تبصرہ پڑھا تو اپنے فلسفے کے استاد یاد آ گئے۔ وہ کہتے تھے کہ دو آدمی ایک ہی قضیہ پر تقریباً ایک ہی قسم کے دلائل پیش کرتے ہیں، لیکن وہ دونوں اس سے مختلف نتائج اخذ کرتے ہیں۔ اس لئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ حراری کی کتابیں ہر ایک نے اپنے اپنے نقطہ نظر سے پڑھی ہیں۔ یہی بات شاید ہم رچرڈ ڈاکنز کے بارے میں بھی کہہ سکتے ہیں۔ پاکستان میں کتابوں کی دکانوں پر اس کی کتابیں بھی نظر آ جاتی ہیں لیکن ان کتابوں نے ہماری فکر پر بھی کوئی اثر چھوڑا؟ ہمیں تو نظر نہیں آتا۔ تو پھر ان کے واقعی پڑھنے والے کہاں جاتے ہیں؟ ہمارے اس سوال پر ہمیں جواب ملا: یہاں ایک دو دیوانے بھی موجود ہیں‘ لیکن ایک چنا کیا بھاڑ پھوڑے گا؟
معاف کیجئے‘ ہم چلے تھے اپنے سیدھے، یعنی دائیں ہاتھ کی تکلیف بیان کرنے اور پہنچ گئے بائیں بازو کی کمزوری تک۔ اسے ہمارے ادبی نقاد تلازمۂ خیال کہتے ہیں۔ بات سے بات نکالنا اور نکالتے ہی چلے جانا۔ ہوا یوں کہ ایک صبح ہم سو کر ا ٹھے تو محسوس ہوا کہ ہمارا دایاں ہاتھ بے قابو ہو گیا ہے۔ اب وہ ہمارے قابو میں نہیں رہا، اسے بائیں جانب لے جانے کی کوشش کی تو وہ کسی اور جانب لڑھک گیا۔ ہم نے سوچا کہ اب تک تو یہ افتاد بائیں بازو پر پڑتی تھی اب دایاں بازو اس کی زد میں کیسے آ گیا؟ انہی دنوں ہم نے پاکستان ٹائمز کے ایک مرحوم رپورٹر اور پنجاب یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر مجاہد کامران کے والد سید شبیر حسین شاہ کی آپ بیتی ''میرے شب و روز‘‘ پڑھی تھی‘ اور ہم دائیں بازو کی طاقت کے قائل ہو گئے تھے۔ شاہ صاحب اس اخبار میں رہتے ہوئے ساری عمر وہاں موجود بائیں بازو کا رجحان رکھنے والے ایڈیٹروں اور دوسر ے صحافیوں سے دو دو ہاتھ کرتے رہے حتیٰ کہ انہو ں نے ذوالفقار علی بھٹو کو بھی نہیں بخشا۔ پاکستان کی سیاست میں ہونے والے سار ے کردہ، اور ناکردہ گناہ ان کے سر ہی منڈھ دیئے ہیں۔ اب بھلا اس صورت میں دائیں بازو پر کوئی افتاد کیسے پڑ سکتی ہے۔ ہمارا دایاں ہاتھ ہمارے قابو سے باہر کیوں ہو گیا؟
اب ہم کورونا کی پابندیوں کے باوجود ڈاکٹرز کی طرف دوڑے۔ اول تو یہ دیکھ کر ہم حیران رہ گئے کہ وہ ہسپتال مریضوں سے بھرا ہوا تھا۔ یہ مریض صرف اس وبا سے ہی متاثر نہیں تھے بلکہ دو دوسری بیماریوں میں بھی مبتلا تھے۔ اکثر تو منہ پر ڈھاٹا لگائے ہوئے تھے لیکن کچھ اس سے آزاد بھی تھے۔ ہم نے یہ معلوم کرنے کی کوشش کی کہ کورونا کے ایک مریض کے علاج پر کتنا خرچ ہو جاتا ہے؟ ہمیں لاکھوں میں جو خرچ بتایا گیا‘ اسے سن کر جامعہ ملیہ کے ایک استاد سید عابد حسین کا افسانہ یا ڈرامہ یاد آ گیا۔ ایک بیمار ساہوکار اپنے بیٹے سے پوچھتا ہے کہ میرے علاج پر زیادہ خرچ ہو گا یا میرے کریا کرم پر؟ اور جب اسے معلوم ہوتا ہے کہ علاج پر زیادہ خرچ ہو گا تو وہ کہتا ہے: میرے کریا کرم کا انتظام ہی کر لو۔ ہم نے اس سے سبق حاصل کیا کہ اس موذی وبا سے بچنے کے لئے وہ احتیاط کرنا ہی ضروری ہے جو ہماری حکومت کے مشیر صحت اور ڈاکٹر ہمیں بتاتے ہیں۔
لیکن اس سے ہمیں کورونا کی پابندیوں میں وہ نرمی یاد آ گئی جس کا تماشا ہم چار پانچ دن سے دیکھ رہے ہیں۔ نرمی کا سنتے ہی عورتوں، مردوں اور بچوں کا ہجوم چھوٹے بڑ ے بازاروں پر ایسے ٹوٹ پڑا جیسے برسوں کی قید کے بعد انہیں رہائی ملی ہو۔ ہم نے ٹیلی ویژن پر یہ نظارے دیکھے تو پریشان ہو گئے۔ یہ کیا ہو رہا ہے؟ حکومت نے تو کاروباری لوگوں کی سہولت کے لیے یہ نرمی کی ہے۔ کئی ہفتے سے ان کا کاروبار ٹھپ پڑا تھا۔ وہ اپنے ملازموں کو تنخواہ بھی نہیں دے سکتے تھے۔ دیہاڑی دار مزدور فاقوں پر آ گئے تھے۔ حکومت اور دوسرے فلاحی اداروں نے اپنے طور پر ان غریبوں کی مالی مدد کرنے کی بہت کوشش کی‘ مگر وہ بھی کہاں تک اور کب تک یہ مدد کر سکتے ہیں۔ اس شیطانی وبا کے بارے میں تو کوئی بھی نہیں کہہ سکتا کہ وہ کب تک ہمارے سر پر سوار رہے گی؟ لگتا تو یہ ہے کہ کافی عرصہ ہمیں اس کے ساتھ ہی زندگی گزارنا پڑے گی‘ اس لئے حکومت نے یہ نرمی کر دی ہے۔ اب یہ ہمارا، یعنی عام عوام کا فرض ہے کہ وہ خود ہی ان بازاروں میں پوری طرح احتیاط کریں۔ اب عید آ رہی ہے۔ اس کے لیے بھی خریداریاں ضروری ہیں۔ اب اگر آپ کی اس بے احتیاطی سے حکومت دوبارہ سخت پابندی لگانے پر مجبور ہو گئی تو آپ کیا کریں گے؟ پھر کیسی عید کہاں کی عید؟ یہ بات ہمیں لوگوں کو سمجھانا پڑے گی۔ یہ کون سمجھائے گا؟ ہم اور آپ۔ جن کے پاس میڈیا کے ذریعے عام آدمی تک پہنچنے کی سہولت موجود ہے۔
اچھا تو ہمارے دائیں بازو کا کیا بنا؟ ڈاکٹر نے کہا: اسے کچھ نہیں ہوا‘ رات کو سوتے میں اس کی ایک رگ دب گئی ہے۔ ٹھیک ہو جائے گا۔ اب ہمیں اطمینان ہوا کہ ساری دنیا میں دائیں بازو کو کچھ نہیں ہو گا۔ امریکہ میں ٹرمپ کی حکمرانی رہے گی۔ انگلستان میں جانسن اپنے سنہرے بال لہراتے رہیں گے۔ ہندوستان میں نریندر مودی براجمان رہیں گے اور ہمار ے ہاں عمران خاں ہی سلامت رہیں گے۔ اور ہم یہی کہتے رہیں گے‘ مرے دل میں ہزاروں وسوسے ہیں۔