اس سال اکادمی ادبیات پاکستان کا ''کمال فن انعام‘‘ منیر احمد بادینی کو دیا گیا ہے۔ اب آپ پوچھیں گے، یہ منیر احمد بادینی کون ہیں؟ آپ یہ سوال کرنے میں حق بجانب ہوں گے کیونکہ ہم اردو، پنجابی اور سندھی جیسی زیادہ بولی جانے والی زبانوں کے ادیبوں کے سوا دوسری پاکستانی زبانوں کے ادیبوں کے نام تک سے واقف نہیں ہیں۔ منیر احمد بادینی بلوچی زبان کے ناول نگار ہیں اور آپ یہ پڑھ کر بیہوش نہ ہو جانا کہ بادینی صاحب نے بلوچی زبان میں تین سو کے قریب ناول لکھے ہیں۔ ہمیں تو یہاں انتظار حسین یاد آ رہے ہیں۔ یہ کئی سال پہلے کی بات ہے‘ جب انتظار حسین ہمارے درمیان موجود تھے۔ ایک بار منیر احمد بادینی کا ان سے تعارف کرایا گیا‘ اور انہیں بتایا گیا کہ اس بلوچی ادیب نے اب تک ایک سو ناول لکھے ہیں تو وہ واقعی حیرت میں ڈوب گئے تھے‘ اور اس پر انہوں نے کالم بھی لکھا تھا۔ اس وقت بادینی صاحب نے ایک سو ناول ہی لکھے تھے۔ اس کے بعد ان کا زرخیز قلم ناول پر ناول لکھتا گیا‘ اور اب بتایا گیا ہے کہ ا ن کی تعداد تین سو سے زیادہ ہو گئی ہے‘ اور بلوچی زبان و ادب کے اساتذہ اور ناقدین تصدیق کرتے ہیں کہ بادینی صاحب کے یہ ناول ادبی معیار کے لحاظ سے کسی بھی زبان کے اچھے ناول سے کم نہیں ہیں۔ اب بدقسمتی یہ ہے کہ ہم بلوچی زبان نہیں جانتے‘ اس لئے ہمیں ان میں سے ایک بھی ناول پڑھنے کا مو قع نہیں ملا؛ البتہ ان چھپے ہوئے ناولوں کی شکل ہم نے دیکھی ہے۔ منیر احمد بادینی نے ایک ظلم یہ کیا ہے کہ اپنے ایک آدھ ناول کا انگریزی میں ترجمہ کر دیا ہے‘ مگر اردو ترجمے کی طرف ان کا دھیان ہی نہیں گیا حالانکہ انہوں نے پنجاب یونیورسٹی سے فلسفے میں ماسٹرز کر رکھا ہے اور ہمارے دوست قاضی جاوید (جو آج کل ادارہ ثقافت اسلامیہ کے سربراہ ہیں) کے شاگرد رہ چکے ہیں۔ وہ بہت اچھی اردو جانتے ہیں۔ بہرحال، نقصان ہم اردو پڑھنے والوں کا ہے کہ ہمارے کسی ادارے نے ان کے کسی بھی ناول کو اردو میں منتقل نہیں کیا۔
اب آپ یہ بھی تو پڑھ لیجئے کہ اس سال کمالِ فن انعام کا فیصلہ کرنے کے لئے اکادمی ادبیات پاکستان کے سربراہ ڈاکٹر یوسف خشک نے پاکستان کی تمام زبانوں کے نامور ادیب و شاعر کس طرح یکجا کئے، اور کس طرح اتفاق رائے سے منیر احمد بادینی کا نام اس انعام کے لئے منتخب کیا گیا۔ سلامت رہیں سائنسی ایجادات۔ دیکھ لیجئے انہوں نے ہمیں کیسی کیسی اور کہاں کہاں سہولتیں فراہم کی ہیں۔ ان میں ایک سہولت آن لائن اجتماع کی ہے۔ اس سے پہلے ''زوم‘‘ کے توسط سے ہی آصف فرخی (جسے مرحوم کہتے ہمارا جی کٹتا ہے) کا ریفرنس ہوا تھا۔ اس میں بھی پاکستان بھر کے ادیبوں نے حصہ لیا تھا۔ اس مرتبہ پھر اس زوم کا ہی سہارا لیا گیا اور پاکستان کی تمام زبانوں کے ادیبوں اور ناقدوں کو اکٹھا کیا گیا۔ انہوں نے اپنے اپنے شہروں میں بیٹھ کر اس انعام کے لئے اپنی اپنی پسند کے ادیبوں کے نام تجویز کئے۔ پھر ان ناموں پر کھل کر باتیں ہوئیں۔ اب اس کا سہرا ہمارے اردو اور انگریزی کے شاعر حارث خلیق کے سر جاتا ہے کہ انہوں نے اتنی دور دور بیٹھے ادیبوں کی رائے دوسرے ادیبوں تک پہنچائی‘ اور انہیں آپس میں بات چیت کا موقع فراہم کیا۔ چونکہ ہم اس سے پہلے بھی کئی سال اس انعام کی جیوری میں شامل رہے ہیں، اس لئے یہ آن لائن بات چیت ہمارے لئے ایک نہایت ہی کار آمد تجربہ ثابت ہوئی۔ ایسا نہیں ہے کہ اس میں بحث مباحثے نہیں ہوئے لیکن خوشی کی بات یہ ہے کہ آخر کار ایک ہی نام پر سب متفق ہو گئے۔
اب اپنی وہ بات پھر دہرا دیں جو ہم ہر سال پیش کرتے آ رہے ہیں۔ کمال فن انعام ہر سال پاکستان کی کسی بھی زبان کے اس ادیب کو دیا جاتا ہے‘ جس نے اپنی ساری زندگی اعلیٰ معیار کا ادب تخلیق کرنے میں صرف کی ہو۔ عام طور پر ہوتا یوں ہے کہ یہ انعام اردو کے کسی ادیب کو ہی مل جاتا ہے۔ وجہ ظاہر ہے۔ اردو میں زیادہ کام ہو رہا ہے اور ہر جگہ ہو رہا ہے۔ اس طرح پاکستان کی دوسری زبانیں اپنے حق سے محروم ہو جاتی ہیں۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ 1997 میں یہ انعام شروع کیا گیا تھا‘ اور اس وقت سے اب تک پنجابی، سندھی، پشتو اور بلوچی کے صرف پانچ ادیبوں کو یہ انعام ملا ہے۔ باقی انعام حاصل کرنے والے سب اردو کے ادیب ہی ہیں۔ ہماری گزارش یہ ہے: کیا ایسا نہیں ہو سکتا کہ ہر زبان کے لئے الگ الگ انعام مقرر کئے جائیں اور یہ جو دس لاکھ روپے کا ایک انعام ہے اسے تقسیم کر دیا جائے؟ ہمارا خیال ہے اس پر اردو والوں کو بھی کوئی اعتراض نہیں ہو گا۔ آج کل تو ہر سال یہ احساس ہوتا ہے کہ فلاں زبان کا حق مارا گیا‘ حتیٰ کہ اردو کا حق مارنے کی بات بھی کی جاتی ہے۔ ہم یہ تجویز کئی سال سے پیش کر رہے ہیں‘ تو کیا اب اس پر سنجیدگی کے ساتھ ٹھنڈے دل سے غور کیا جا سکتا ہے؟
اب آ خر میں ہم منیر احمد بادینی کو ''کمال فن انعام‘‘ حاصل کرنے پر مبارک باد پیش کرتے ہیں۔ ہمیں بھی ان کے ساتھ چند دن گزارنے کا موقع ملا ہے۔ اکادمی ادبیات کے اس وقت کے سر براہ فخر زماں ایک وفد کے ساتھ ہمیں چین لے گئے تھے۔ وہاں ہمیں منیر احمد بادینی کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ نہایت شائستہ اور نفیس انسان ہیں۔ کتا بیں پڑھنے کا بہت شوق ہے۔ ہم نے دیکھا کہ وفد کے باقی ارکان جہاں مختلف گھریلو چیزیں خرید رہے تھے وہاں بادینی صاحب کتابوں کے پلندے کے پلندے خرید کر اکٹھے کر رہے تھے۔ اب اکادمی ادبیات کو چاہئے کہ ان کے منتخب ناولوں کا اردو میں ترجمہ کرائے۔ اردو میں ترجمے کا مطلب ہو گا کہ سارا پاکستان ان کا کوئی ناول پڑھ سکے گا۔
اور ہاں، اکادمی کی طرف سے ہر سال اردو کی بہترین کتاب پر جو انعام دیا جاتا ہے، اس سال وہ انعام محترمہ زہرا نگاہ کے نئے مجموعہ کلام ''گل چمنی‘‘ پر دیا گیا ہے۔ ان کے مجموعے ''فراق‘‘ کے بعد اب یہ مجموعہ چھپا ہے۔ ہم انہیں بھی مبارک باد پیش کرتے ہیں۔ آخر ان کا حق بھی تسلیم کر لیا گیا۔ ان کے دو شعر آپ بھی پڑھ لیجئے:
اس راہ شکستہ پر، ایوان حکومت کیا
ٹکڑوں کی ہے کیا قیمت، ملبے کی ہے وسعت کیا
کاسہ لئے بیٹھے ہوں، مانگے پہ گزر ہو تو
یہ نازِ شجاعت کیوں، یہ زعم حفاظت کیا
اب آ خر میں ہم آ پ کو یہ بھی اطلاع کر دیں کہ کل رات بارہ بجے سے ہم ''سر بمہر‘‘ کر دیئے گئے ہیں‘ یعنی ہمارا پورا علاقہ ''سیل‘‘ کر دیا گیا ہے۔ سیل یا سیلڈ کرنے کا مطلب سر بمہر کرنا ہی ہوا ناں؟ لاہور کے جو علاقے کورونا کی نحوست سے بچانے کے لئے سر بمہر کئے گئے ہیں، ان میں ہمارا علاقہ بھی شامل ہے اور یہ بہت بڑا علاقہ ہے۔ کئی سیکٹر اس میں شامل ہیں۔ اب ہم یہ معلوم کرنے کی کوشش کر رہے کہ یہ سر بمہر کرنے کا مطلب کیا ہو گا؟ یہ تو سمجھ میں آتا ہے کہ اس پورے علاقے کی تمام دکانیں بند کر دی جائیں گی لیکن کیا آنے جانے پر بھی پابندی لگا دی جائے گی؟ اور کیا ہماری صبح شام کی سیر بھی بند ہو جائے گی؟ یہ سیر کرنے والے ہم اکیلے نہیں ہیں بلکہ پورا علاقہ ہی ہے۔ تو کیا فرماتے ہیں ہمیں موذی کورونا سے محفوظ رکھنے کی کوشش کرنے والے؟ ہم تو پہلے ہی گھر میں بند ہیں۔ باہر کی دنیا سے ہمارا واسطہ صرف سائنسی ایجادات پر ہی ہے۔ گویا ہم پہلے ہی آن لائن زندگی گزار رہے ہیں۔