عمران خاں نے ایک کروڑ نوکریاں دینے اور پچاس لاکھ مکان بنانے کا وعدہ کیا تھا۔ نوکریاں دینے کی باری تو ابھی نہیں آئی؛ البتہ گھر بنانے کی باری آ گئی ہے۔ یہ گھر پچاس لاکھ تو نہیں ہوں گے، ایک لاکھ ہوں گے۔ چلئے، کچھ نہیں تو ایک لاکھ ہی سہی۔ انہوں نے خوش خبری سنائی ہے کہ بالآخر غریبوں کو سر چھپانے کیلئے ان کے اپنے گھر مل جائیں گے اور ہمارے وزیر اطلاعات شبلی فراز نے بڑے فخر سے اعلان کیا ہے کہ پیپلز پارٹی تو روٹی کپڑا اور مکان دینے کے نعرے ہی لگاتی رہی، اب ہم واقعی غریبوں کو یہ سب چیزیں فراہم کر رہے ہیں۔ ظاہر ہے یہ خوشی کی بات ہے اور اسے بہرحال سراہنا چاہئے۔ حکومت نے تمام بینکوں کو حکم دیا ہے کہ وہ صرف پانچ فیصد منافع پر عام آدمی کو گھر بنانے کے لئے قرضے فراہم کریں۔ اس بارے میں کچھ زیادہ تفصیل تو ہمیں معلوم نہیں ہوئی؛ البتہ ایک سوال بار بار ہمارے دل و دماغ پر کچوکے لگا رہا ہے کہ یہ گھر بنانے کیلئے بینک جو قرضے دیں گے، وہ کس ضمانت یا کس بنیاد پر دیں گے؟ جسے کولیٹرل کہا جاتا ہے‘ وہ کہاں سے آئے گا؟ بینک یونہی تو اٹھا کر ہر ایک کو اتنی بڑی رقم نہیں دے دیں گے۔ ہمیں تو ہائوس بلڈنگ فنانس کارپوریشن کا تجربہ ہے۔ وہاں پہلے یہ دیکھا جاتا ہے کہ آپ کی اپنی زمین ہے؟ اس کے بعد اسی حساب سے قرضہ دیا جاتا ہے۔ لاہور میں ہمیں قرعہ اندازی کے ذریعے زمین ملی تھی۔ اس پر ہائوس بلڈنگ فنانس کارپوریشن کے قرضے سے ہم نے مکان بنایا تھا‘ اور یہ قرضہ قسطوں میں ادا کیا تھا۔ اب ہمارے عمران خاں نے بینکوں سے قرضے لے کر جو غریبوں کو گھر بنا کر دینے کی خوش خبری سنائی ہے، اس کے بارے میں کم سے کم ہمارے سامنے تو کوئی وضاحت نہیں ہے کہ بینک کسی غریب کو یہ قرضے کس ضمانت پر دیں گے۔ اسی لئے لوگوں نے ابھی سے شکوک و شبہات ظاہر کرنا شروع کر دیئے ہیں۔ بعض شکی مزاج لوگوں نے تو ابھی سے یہ کہنا بھی شروع کر دیا ہے کہ اس سے بڑے بڑے بلڈرز ہی فائدہ اٹھائیں گے۔ بہرحال ہم حکومت کی نیت پر شک نہیں کرتے اور اس حکومت کے ماہرین معاشیات کی مہارت پر بھی حرف زنی نہیں کرتے۔ ہو سکتا ہے عمران خاں کے حکم سے تمام بینک کسی نہ کسی طرح غریبوں کو گھر بنانے کے لئے یہ سہولت فراہم کر دیں اور کو ئی ضمانت بھی نہ لیں۔
ہمیں تو یہاں ملتان کے ابن حنیف یاد آ رہے ہیں۔ وہی ابن حنیف جنہوں نے آثار قدیمہ کے ماہر کی حیثیت سے شہرت حاصل کی۔ ان کا قصہ ہم پہلے بھی لکھ چکے ہیں۔ یہاں ایک بار اور سہی۔ یہ ایوب خاں کا زمانہ تھا۔ ان کی حکومت نے چھوٹے تاجروں کو اپنا کاروبار بڑھانے کے لئے بیس ہزار روپے قرض دینے کا اعلان کیا تھا۔ ان دنوں ملتان میں ''دانش کدہ‘‘ کے نام سے ابن حنیف کی کتابوں کی دکان تھی۔ دوسرے لوگوں کی دیکھا دیکھی انہوں نے بھی یہ قرض حاصل کر لیا۔ اب ابن حنیف دکان پر اپنے مطلب کی کتابیں ہی رکھا کرتے تھے۔ ان کے خریدار کم سے کم ملتان میں تو نہیں تھے۔ ہم نے تو جب بھی دیکھا انہیں قدیم مصر یا قدیم ہندوستان پر کوئی کتاب خود ہی پڑھتے دیکھا۔ نتیجہ ظاہر تھا۔ کاروبار ٹھپ ہو گیا اور ابن حنیف کو دکان فرخت کرکے بیس ہزار کا قرضہ ادا کرنا پڑا۔ اس کے بعد وہ روزنامہ امروز میں آ گئے یعنی انہیں ملازمت کرنا پڑ گئی۔
معاف کیجئے ہم حساب کتاب کے معاملے میں ہمیشہ ہی پھسڈی رہے ہیں۔ اس لئے ہو سکتا ہے عمران خاں کے مشیروں نے انہیں جو سمجھایا ہو وہ صحیح ہو اور ہم غلط ہوں۔ ہم تو دعا ہی کر سکتے ہیں کہ پاکستان کے ہر بے گھر کو اس کا اپنا گھر ملے۔ اسے اور اس کے بچوں کو کہیں نہ کہیں سر چھپانے کی جگہ ملے اور ان کا حشر ہمارے ابن حنیف والا نہ ہو۔
خبر سنی کہ حکومت سرکاری ملازمین کی ریٹائرمنٹ کی عمر کم کرنے کے بارے میں غور کر رہی ہے۔ میں نے سوچا‘ تو کیا یہ ایک کروڑ نوکریاں فراہم کرنے کے مسئلے کا حل نکالا گیا ہے کہ اس طرح جو اسامیاں خالی ہوں گی ان پر نئے ملازم بھرتی کئے جائیں گے۔پھر سوچا اس طرح ایک کروڑ اسامیاں پیدا ہوں گی یا چند ہزار؟ تاہم اگلے روز خبر کی تردید آ گئی۔
شبلی فراز پر ہمیں پھر ان کے والد احمد فراز یاد آ گئے۔ آئین کی اٹھارہویں ترمیم کے بارے میں ہم جب عمران خاں کے وزیر اطلاعات شبلی فراز کی بات سنتے ہیں تو ہمیں یقین نہیں آتا کہ یہ احمد فراز کے صاحب زادے بول رہے ہیں۔ ہم نے پہلے بھی عرض کیا تھا کہ احمد فراز عوامی نیشنل پارٹی کا حامی تھا‘ اور آپ جانتے ہیں کہ یہ پارٹی اختیارات کی تقسیم کی علم بردار ہے۔ یہ پارٹی صوبوں کو زیادہ سے زیادہ اختیارات دینے کیلئے جدوجہد کرتی رہی ہے اور پیپلز پارٹی کی حکومت نے اپنے وعدے کے مطابق صوبوں کو ان کے جائز حقوق دے دیئے ہیں‘ لیکن یہ حقوق موجودہ حکومت کو ہضم نہیں ہو رہے ہیں‘ اس لئے کسی نہ کسی بہانے اس کے خلاف بیان بازی ہوتی رہتی ہے۔ اس کی ایک وجہ تو یہ معلوم ہوتی ہے کہ پاکستان کے باقی صوبوں میں تو پی ٹی آئی کی حکومت ہے، صرف سندھ ہی ایسا صوبہ ہے جہاں پیپلز پارٹی برسر اقتدار ہے۔ یہ بات شاید عمران خاں صاحب اور ان کی جماعت کو پسند نہیں آ رہی۔ اسی لئے ہر شام ٹیلی وژن چینلز پر حکومت سندھ کی غلطیاں گنوائی جا تی ہیں‘ اور کوشش کی جاتی ہے کہ اس حکومت کو بدنام کرکے اس کے خلاف کسی قسم کی کارروائی کا بہانہ تلاش کیا جائے۔
اب جہاں تک نوکریاں دینے کا تعلق ہے یہ حکومت پی آئی کے کئی پائلٹ بیروزگار کر چکی ہے۔ ہوابازی کے وزیر نے اپنی ایک تقریر سے ان ہوابازوں کی نوکری چھین لی ہے۔ اس کے علاوہ انہوں نے پاکستان کی قومی ائیرلائن کو جو نقصان پہنچایا ہے وہ الگ۔ خیال تھا عمران خان صاحب کو اس کا احساس ہو گا مگر اس جانب ایسی خاموشی جیسے وہ اپنے وزیر کی بات کو سچ سمجھتے ہیں۔ ایک پائلٹ کی غلطی سے کراچی میں ہوائی جہاز کا حادثہ ہوا اور ہمارے وزیر صاحب نے پی آئی اے کے تمام پائلٹوں کی گردن پر چھری پھیر دی۔ کسی قسم کی تحقیق اور تفتیش کی ضرورت ہی نہیں سمجھی گئی۔ نتیجہ ہمارے سامنے ہے۔ اب سول ایوی ایشن نے اعلان کیا ہے کہ اس کی جانب سے جاری ہونے والا کسی بھی پائلٹ کا لائسنس جعلی نہیں ہے‘ لیکن اس کی کون سنتا ہے۔ عمران خاں بار بار اعلان کرتے ہیں کہ اگر ان کا کوئی وزیر غلطی کرے گا تو وہ اسے معاف نہیں کریں گے‘ لیکن یہاں ایک وزیر نے اتنی بڑی غلطی کر دی ہے کہ پورا پاکستان دنیا بھر میں بدنام ہو گیا ہے، اور عمران خاں صاحب ایسے خاموش ہیں جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔ تو کیا اس کا مطلب یہ لیا جائے کہ ہوا بازی کے وزیر نے ان کی مرضی سے وہ بیان دیا تھا؟ کہتے ہیں اب اس بدنامی کو دور کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے مگر جو نقصان ہونا تھا وہ تو ہو گیا۔ اب پچھتانے سے کیا فائدہ۔ جن پائلٹوں کی روزی روٹی پر آپ نے لات ماری ہے ان کا اور ان کے خاندان کا اب کیا ہو گا۔ سول ایوی ایشن کی تصدیق کے بعد اصولًاتو ہوابازی کے وزیر کو مستعفی ہو جانا چاہئے تھا مگر اپنے کسی ساتھی کی غلطی مان کر اس کے خلاف کوئی کارروائی کون کرے؟ ایک خاموشی سب پر بھاری۔ نزلہ چھوٹے ملازموں پر ہی گرا۔ اسی لئے تو کہتے ہیں جسے پیا چاہے وہی سہاگن۔ اور یہاں ایک نہیں کئی سہاگنیں ہمارے سامنے پھر رہی ہیں۔