ہمارے عمران خاں صاحب نے جہاں اور سنہری خواب دیکھے اور دکھائے‘ وہاں ایک خواب یہ بھی ہے کہ ملک میں سیاحت کو فروغ دیا جائے۔ اس مقصد کے لئے ایک نیشنل کوآرڈی نیشن کمیٹی بنائی گئی ہے۔ اس کمیٹی کے سربراہ عمران خاں کے دوست اور ان کے معاون خصوصی ذوالفقار بخاری ہیں۔ ہماری تو دعا ہے کہ کم سے کم یہ خواب ہی اپنی تعبیر حاصل کر لے۔ کہا گیا ہے کہ بخاری صاحب سیاحت کے لئے ایک حکمت عملی تیار کریں گے اور ہر پندرہ دن بعد وزیر اعظم کو یہ بتایا کریں گے کہ وہ اپنے مقصد میں کتنا کامیاب ہوئے ہیں۔ اب ہمیں یہ تو معلوم نہیں کہ بخاری صاحب نے اس مقصد کے لئے کیا حکمت عملی تیار کی ہے اور وہ حکمت عملی کتنی موثر ہے‘ لیکن ہماری اولاد پچھلے ہفتے ہمیں پہاڑوں کی سیر کرانے لے گئی۔ یہ وہ پہاڑ ہیں جہاں ہم پہلے بھی آ چکے ہیں۔ اس بار ہم نے اپنے چاروں طرف دیکھنے کی کوشش کی کہ نئی حکمت عملی نے یہاں کیا گل کھلائے ہیں؟ اب یہ ہماری اپنی آنکھوں کا قصور ہے یا یہی حقیقت ہے کہ ہمیں تو وہاں ذرا سی بھی تبدیلی نظر نہیں آئی۔ وہی تنگ گلیاں، وہی بازار اور وہی عجیب و غریب چیزوں سے بھری ہوئی دکانیں؛ البتہ جو تبدیلی نظر آئی وہ یہ تھی کہ وہاں دائیں بائیں دکانیں تو تھیں، مگر ان دکانوں پر کوئی گاہک نظر نہیں آتا تھا۔ ادھر ادھر ڈھابے نما جو ہوٹل تھے وہ بھی خالی نظر آ تے تھے۔ پوچھنے پر معلوم ہوا کہ جب سے منحوس کورونا کا زور ہوا ہے، اس وقت سے ارد گرد کے شہروں سے آنے والوں کی کمی بھی ہو گئی ہے۔ ان سیر سپاٹا کرنے والوں کی کمی کیا ہوئی کہ سارے کاروبار ہی ٹھپ ہو گئے۔ اب سب ہاتھ پر ہاتھ رکھے بیٹھے ہیں۔
وہاں ہمیں بتایا گیا کہ اس وبا سے سب سے زیادہ متاثر بندر ہوئے ہیں۔ جی ہاں، ان پہاڑوں پر رہنے والے بندر۔ ان کا پیٹ بھرنے کا بندوبست شہروں سے آنے والے سیاح ہی کرتے تھے۔ سیاحوں کی آمد کم ہوئی اور وہ بندر بھوکے مرنے لگے۔ یہ بندر مکئی کے بھنے ہوئے بھٹے (چھلیاں) اور کیلے کھاتے ہیں۔ اب انہیں یہ چھلیاں اور کیلے کون کھلائے؟ ایک دو جگہ لڑکوں نے مکئی کے بھٹے بھوننے کے لئے کوئلے دہکائے ہوئے تھے‘ لیکن ان کے پاس کوئی گاہک نظر نہیں آ رہا تھا‘ اور کیلوں کے خریدار تو شاذ و نادر ہی نظر آ تے تھے۔ ہمیں ان بندروں پر بہت ترس آیا۔ ہم نے تو ہندوستان کے مختلف شہروں میں ان بندروں کی جو آئو بھگت دیکھی تھی‘ وہ آج تک نہیں بھلائی جا سکی۔ وہاں بندر ایک گلی سے دوسری گلی تک، اور ایک گھر سے دوسرے گھر تک ایسے چھلانگیں مارتے پھرتے ہیں جیسے ہر طرف انہی کا راج ہو۔ انہیں مارنا تو کجا کوئی انہیں تکلیف پہنچانے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ دلی میں ہمارے بھائی کے گھر ایک لمبا سا بانس رکھا ہوا ہے، جب بھی کوئی بندر ادھر آتا ہے تو اسے وہ بانس دکھا کر بھگا دیا جاتا ہے۔ یہ بندر کسی سے ڈرتے بھی نہیں، وہ آنکھ بچا کر گھر میں گھس جاتے ہیں، اور فریج تک کھول کر کھانے پینے کی چیزیں لے جاتے ہیں۔ خیر، بھارتی بندروں کے بارے میں تو کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ ہندوئوں کے نزدیک بندر ہنومان کا درجہ رکھتا ہے۔ وہ ہنومان جس نے اپنی دم سے لنکا میں آگ لگا دی تھی اور رام چندر کی بیگم سیتا کو وہاں سے رہائی دلائی تھی۔ یہ اور بات کہ ایک دھوبی کے کہنے پر سیتا کو اپنی پاکیزگی ثابت کرنے کے لئے جلتی ہوئی آگ پر بیٹھنا پڑ گیا تھا۔
معاف کیجئے ہم کہاں سے کہاں نکل گئے۔ ہم تو اپنے بندروں کا ذکر کر رہے تھے کہ ہمارے لئے بندر مقدس نہیں‘ بلکہ دوسرے جانوروں کی طرح ایک جانور ہی ہے‘ بہرحال وہ بھوکا ہے اور جب تک وہاں سیاحوں، یعنی پاکستانی سیاحوں کی آمدورفت تیز نہیں ہو گی، یہ بندر اسی طرح بھوکے رہیں گے۔ ہمارے ذوالفقار علی بخاری انگلستان کے رہنے والے ہیں۔ ظاہر ہے انہیں ہماری روایات کا کیا پتہ ہو گا۔ سیاحت کیلئے حکمت عملی تو بنتی رہے گی، کیا وہ ان بھوکے بندروں کا کوئی بندوبست کر سکتے ہیں؟
اب ہم یہ بھی بتا دیں کہ ہم چھانگلا گلی میں ایک ایسے ہوٹل میں ٹھہرے تھے جسے کم سے کم چار ستاروں والا ہوٹل ہی کہا جا سکتا ہے۔ کمرہ آرام دہ تھا۔ ماحول بھی اچھا ہی تھا‘ لیکن یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ وہاں ہمارے اپنے خاندان کے سوا ایک دو اور خاندان ہی ٹھہرے ہوئے تھے۔ بتایا گیا کہ جمعہ سے اتوار تک وہاں سیاحوں کا ہجوم ہو جاتا ہے۔ ارد گرد کے شہروں سے سیر سپاٹے کے شوقین انہی دنوں میں ادھر کا رخ کرتے ہیں۔ ہم نے چھانگلا گلی کو اپنا مرکز بنایا تھا۔ وہیں سے ہم دوسرے پہاڑی علاقوں تک جاتے تھے۔ اب یہ کہنے کی تو ضرورت نہیں کہ ہمارے یہ علاقے اپنی خوبصورتی اور دلکشی میں دنیا کے دوسرے دلکش علاقوں کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔ گھنے جنگل، اونچے اونچے سرسبز پیڑ‘ اور دور تک پھیلی وادیاں‘ یہاں کیا کچھ نہیں ہے؛ البتہ اگر یہاں کمی ہے تو غیر ملکی سیاحوں کی۔ وہاں ہمیں اپنے ہی جیسے چہرے نظر آتے ہیں۔ دوسری قوم یا دوسری شکل کا ایک آدمی بھی نظر نہیں آتا۔
اب ہمارے ذوالفقار بخاری صاحب غیرملکی سیاحوں کو اس طرف راغب کرنے کیلئے کیا حکمت عملی بنا رہے ہیں‘ ابھی تک تو ہمیں معلوم نہیں ہو سکا۔ اصل میں سیاحت کا فروغ تو اسی وقت ہو گا‘ جب دوسرے ملکوں کے سیاح ہماری طرف توجہ کریں گے۔ ہندوستان کو تو جا نے دیجئے ہم نے انڈونیشیا کے مختلف شہروں میں دیکھاکہ وہاں کے ہوٹل غیرملکی سیاحوں سے بھرے ہوتے ہیں۔ جزیرہ بالی میں تو حالت یہ ہے کہ لوگ اپنے گھروں میں ان سیاحوں کو ٹھہراتے ہیں۔ انڈونیشیا ہماری طرح مسلمان ملک ہے لیکن وہاں کسی چیز کی پابندی نہیں ہے۔ وہاں سب کچھ ملتا ہے۔ ہمارے ہاں تو پابندیاں اتنی ہیں کہ باہر کے سیاح یہاں آتے گھبراتے ہیں۔ جب کوئی سیاح اپنے گھر سے نکلتا ہے تو اس کا مقصد آرام اور تفریح ہوتا ہے۔ اپنی روزمرہ زندگی کی آلائشوں سے دور بھاگنا ہوتا ہے۔ تو کیا ان سیاحوں کو یہاں مناسب آسائشیں ملی سکیں گی؟ جس ہوٹل میں ہم ٹھہرے تھے وہاں میوزیکل نائٹ کا اشتہار لگا تھا۔ ہم اچھی طرح جانتے تھے کہ یہ میوزیکل نائٹ کیا ہو گی‘ اس لئے ہم نے ادھر توجہ ہی نہیں دی۔ اب سوچ لیجئے کہ اگر ہم اس میوزیکل نائٹ سے دور بھاگے تھے، تو کوئی غیرملکی سیاح ادھر توجہ کیوں کرے گا؟
اب پھر اپنے بندروں کی طرف آ جائیے۔ پورے پاکستان میں یہ بندر ان پہاڑی علاقوں میں ہی نظر آتے ہیں۔ ان کی غذا کا دارومدار ان پاکستانی سیر سپاٹا کرنے والوں پر ہے جو صرف ہفتے کے تین چار دن وہاں آتے ہیں۔ یہ بندر باقی دن کس طرح گزارتے ہیں؟ یہ اللہ ہی جانتا ہے۔ ہم تو عمران خاں اور ذوالفقار بخاری صاحب ہی سے گزارش کر سکتے ہیں کہ سیاحت کی حکمت عملی تیار کرتے وقت ان بھوکے بندروں کو نہ بھولیں۔ ان بندروں سے ان لڑکوں اور ان پھل فروشوں کا کاروبار بھی وابستہ ہے جو کوئلوں کے انگاروں پر مکئی کی چھلیاں بھونتے ہیں‘ اور ان بندروں کیلئے کیلوں کا بندوبست کرتے ہیں۔ بہرحال ابھی تک ذوالفقار علی بخاری کی حکمت عملی ہمارے سامنے نہیں آئی ہے اور یہ بھی معلوم نہیں ہو سکا کہ وہ ہر پندرہ دن بعد اس بارے میں عمران خاں کو کیا رپورٹ دیتے ہیں۔ اب ہمیں یہ بھی ڈر لگ رہا ہے کہ کہیں عمران خاں کے دوسرے سنہری خوابوں کی طرح یہ بھی ایک خواب ہی ثابت نہ ہو۔ ابھی تک تو اتنا ہی علم ہو سکا ہے کہ عمران خاں کی حکومت نے پاکستان ٹورازم کارپوریشن کے ملازموں کو نوکری سے نکال دیا ہے۔