"MAC" (space) message & send to 7575

وبا کے دن اور ہمارا ادب

ادبی جریدے ''دنیا زاد ‘‘ کا تازہ شمارہ دیکھا تو ایسا لگا جیسے آصف فرخی ہمارے ساتھ ہی بیٹھے ہیں۔ کورونا وبا کے حوالے سے یہ شمارہ انہوں نے خود ہی تو مرتب کیا تھا۔ انہیں خود یا ہم میں سے کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ ان کا مرتب کیا ہوا یہ شمارہ ان کی زندگی میں شائع نہیں ہو پائے گا‘ اور یہ فریضہ ان کی صاحبزادی غزل کو ادا کرنا پڑے گا۔ آصف کو تو ہم اب بھی اپنی دنیا سے دور تصور نہیں کر سکتے۔ ہمارا حال تو یہ ہے کہ آج بھی جب کسی کتاب یا غیر ملک کے کسی ادیب کی تحریر کے بارے میں کچھ معلوم کرنا ہو تو ہمارا ہاتھ فوراً موبائل فون کی طرف لپکتا ہے کہ ابھی ہم آصف فرخی سے معلوم کئے لیتے ہیں۔ آصف نے اپنی زندگی میں ہی ''دنیا زاد‘‘ کا یہ شمارہ مرتب کر لیا تھا۔ کورونا جیسی موذی وبا کے بارے میں دنیا بھر میں جو کچھ لکھا گیا ہے قریب قریب وہ سب ہی آصف نے جمع کر لیا تھا‘ بلکہ اس کا اردو میں ترجمہ بھی کرا لیا تھا۔ اب رہے پاکستان کے لکھنے والے تو اس نے ہر لکھنے والے سے اصرار کیا تھاکہ وہ اس وبا کے بارے میں لکھے۔ وہ لکھے کہ اس وبا کے دنوں میں، جب ساری دنیا کے ساتھ آپ بھی اپنے گھر میں بند ہو گئے ہیں تو اب آپ کے احساسا ت کیا ہیں؟ آپ اپنی تنہائی کی زندگی کیسے گزار رہے ہیں؟ اب ظاہر ہے آصف فرمائش کرتے اور کوئی ان کی فرمائش پوری نہ کرتا، یہ تو ہو ہی نہیں سکتا تھا؛ چنانچہ محمد حمید شاہد نے تو ایک کے بجائے تین مضمون لکھ ڈالے۔ انہوں نے بتایا ہے کہ اس وبا سے بچنے کے لئے انہوں نے جو تنہائی اختیار کی‘ وہاں وہ زندگی کیسے گزار رہے ہیں۔ گویا اپنے صبح شام کی مصروفیت انہوں نے ہمارے سامنے رکھ دی ہے۔ مصروفیت نہیں بلکہ جبری مصروفیت‘ لیکن ناصر عباس نیر نے اس مصروفیت کو علامتی افسانے کی شکل دے دی۔ ان کے اس افسانے کا عنوان ہے ''مرگ عام نعمت ہے‘‘ گویا ہم کہہ سکیں گے کہ کورونا کے حوالے سے اردو میں ایک افسانہ بھی ہمارے سامنے آ گیا ہے۔ اب معلوم نہیں اپنے ناصر عباس نیر اسے کیا کہیں گے۔ اسے مضمون کہیں گے یا افسانہ؟ ہم نے تو اسے افسانہ سمجھ کر ہی پڑھا۔
ہمیں تو حیرت، بلکہ خوشگوار حیرت فرح ضیا کا مضمون دیکھ کر ہوئی۔ فرح انگریزی کی لکھنے والی ہیں۔ ایک انگریزی اخبار میں وہ ہفتہ وار ایڈیشن بھی مرتب کرتی رہی ہیں‘ اور ان کے انگریزی مضامین اس اخبار میں برابر شائع ہوتے رہے ہیں بلکہ اب بھی شائع ہوتے ہیں۔ آج کل وہ ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے ساتھ منسلک ہیں۔ ہم نے ان کی اردو تحریر کبھی نہیں دیکھی تھی۔ اس کا مطلب ہے کہ آصف فرخی نے اصرار کرکے ان سے یہ اردو مضمون لکھوایا ہو گا۔ فرح کے مضمون کا عنوان ہے ''دنیا میں کچھ گڑبڑ ہے‘‘ اور وہ اپنے مضمون کا اختتام اس طرح کرتی ہیں ''یہ فرض کیا جا رہا ہے کہ جلد ہی یہ سب ختم ہو جائے گا اور زندگی واپس معمول پر لوٹ جائے گی۔ کیا ایسا ہو سکتا ہے؟ یا ہم خود اپنے آپ کو نئے معمول کا عادی بنا لیں گے؟‘‘ اس کے بعد وہ لکھتی ہیں کہ ایک بار جب یہ سب کچھ ختم ہو جائے گا تو بطور تہذیب ہم جو سبق سیکھ چکے ہوں گے وہ نہایت اہمیت کے حامل ہوں گے۔ یہ ایک نادر موقع ہے جو یہ تنہائی ہمیں فراہم کر رہی ہے‘‘۔ یہ تو فرح ضیا کا مضمون ہے۔ اسی موضوع پر دنیا کے بڑے ناول نگاروں کی تحریروں کا ترجمہ بھی اسی شمارے میں موجود ہے۔ گویا ہمارے سامنے دنیا بھر کے وہ ادیب و شاعر موجود ہیں جو اس بارے میں غوروخوض کر رہے ہیں۔ اب یہاں ہم کس کس کا نام لیں۔ قریب قریب سب ہی تو یہاں موجود ہیں۔ نثری مضامین کے علاوہ اس بارے میں دنیا بھر میں جو نظمیں لکھی جا رہی ہیں تنویر انجم، انعام ندیم اور دانیال شیرازی نے ان کا اردو ترجمہ کیا ہے۔ دنیا کے دوسرے خطوں میں اس منحوس وبا کے بارے میں جو سوچا اور جو لکھا جا رہا ہے ان نظموں کے ذریعے ہم اس تک رسائی حاصل کر لیتے ہیں۔ مضامین کے ترجمے سید کاشف رضا، نجم الدین احمد‘ شہلا نقوی اور سعید نقوی نے کئے ہیں‘ لیکن اس شمارے میں صرف کورونا کے حوالے سے ہی مضامین اور نظمیں شامل نہیں ہیں بلکہ دوسرے افسانے اور نظمیں بھی موجود ہیں۔ کشور ناہید نے تو اپنی طویل نظم میں ہمارے معاشرے کی موجودہ صورتحال پر اپنے دل کی بھڑاس خوب نکالی ہے۔ اسی طرح فاطمہ حسن اور عشرت آفریں کی نظمیں ہیں۔ اس لئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ آصف فرخی نے یہ شمارہ مرتب کرتے وقت اپنے تمام پڑھنے والوں کا خیال رکھا تھا۔ اب یہاں خیال آ رہا ہے کہ آصف فرخی نے اپنے رسالے کو صرف اپنے ملک میں ہی نہیں بلکہ دنیا بھر کے معاشروں میں ہو نے والی تبدیلیوں کے ساتھ منسلک کر رکھا تھا۔ آصف فرخی کے نزدیک ادب بھی اس معاشرے کا ہی حصہ ہے‘ بلکہ ہر معاشرے کا ادب اس معاشرے کے بیرونی اور اندرونی احساسات کی ترجمانی ہی کرتا ہے۔ آصف اپنے رسالے ''دنیا زاد‘‘ کے ہر شمارے کو کسی قومی یا عالمی مسئلے کے حوالے سے مرتب کرتے تھے اور ہر شمارہ کسی انسانی مسئلے کے نام سے منسوب ہوتا تھا۔ یہ مسئلہ فلسطین کا بھی ہو سکتا تھا اور ہمارے اپنے ملک میں ہونے والی دہشتگردی سے متعلق بھی۔ اس کے علاوہ اپنے ادیبوں اور شاعروں کے حوالے سے بھی ان کے رسالے کے شمارے مرتب ہوتے تھے۔ ان کی زندگی میں جو آخری شمارہ شائع ہوا‘ اس کا عنوان تھا ''کتاب الوداع‘‘۔ یہ شمارہ ان ادیبوں اور شاعروں کے بارے میں ہے جو انہی دنوں اس دنیا سے رخصت ہوئے تھے۔ ان میں فہمیدہ ریاض، خالدہ حسیں، الطاف فاطمہ، اقبال مجید، اکبر معصوم اور انور سجاد شامل ہیں۔
اب پھر آ جائیے کورونا جیسی موذی وبا کی طرف۔ یہ کورونا وائرس ہماری دنیا میں پہلی وبا نہیں ہے۔ اس سے پہلے طاعون اور سپینش فلو کی وبا بھی اسی دنیا میں پھیل چکی ہے۔ یہ ہماری یادداشت سے پہلے کی بات ہے۔ یہ صرف ہم نے سنا ہے‘ دیکھا نہیں‘ لیکن ان وبائوں نے بھی عالمی ادب کو بہت کچھ دیا۔ طاعون کی وبا نے کامیو سے جو ناول لکھوایا وہ دنیا بھر کے ادب کا شاہکار بن چکا ہے۔ اس کا حوالہ ''دنیا زاد‘‘ کے تازہ شمارے میں انتظار حسین کے مضمون سے مل جاتا ہے۔ ہمارے زمانے میں کورونا کی اس منحوس وبا کو شروع ہوئے ابھی ایک سال بھی نہیں ہوا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ یہ وبا ہمارے ادب میں کس طرح ظاہر ہوتی ہے۔ کیا ہمارے لکھنے والے صرف یہی لکھ کر فارغ ہو جائیں گے کہ اس موذی وبا میں ان کے دن رات کیسے گزر رہے ہیں، یا اس واردات کو افسانے اور ناول کی شکل بھی دے سکیں گے؟ کہا جا سکتا ہے کہ ابھی سے کسی ناول نگار یا افسانہ نویس سے یہ تقاضا نہیں کیا جا سکتا کہ تم کورونا وبا کے موضوع پرکوئی افسانہ یا ناول لکھو۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ اس وبا کے نتائج کو لکھنے والوں کے خون کا حصہ تو بننے دو۔ اس کے بعد ان سے کسی قسم کا تقاضا کیا جا سکتا ہے‘ ورنہ وہی ہوگا جو ہمارے ادب میں دہشتگردی یا امریکہ کے نائن الیون کے واقعے کے حوالے سے سامنے آیا ہے۔ کیا ہم اسے واقعی فکشن کہہ سکتے ہیں؟ یہ سوال ہمارے سامنے منہ پھاڑے کھڑا ہے۔ اسی لئے ہم کسی سے بھی نہیں کہتے کہ آج کی اس منحوس وبا کے حوالے سے افسانے یا ناول لکھو۔ ابھی صبر کرو۔ جہاں تک ہمارے اپنے ملک کا تعلق ہے، اس کے اپنے اتنے سنگین مسائل ہیں، پہلے ہم ان سے تو نمٹ لیں، اس کے بعد دوسری طرف دیکھیں گے۔ ہم جس قسم کے معاشرے میں زندگی گزار رہے ہیں وہاں سب سے بڑا مسئلہ تو سوچنے سمجھنے اور آزادی کے ساتھ اس کا اظہار کرنے کا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں