"MAC" (space) message & send to 7575

مادھو سے زاہد ڈار تک

یہ بات کہتے ڈر لگتا ہے مگر کہے بنا رہا بھی نہیں جاتا۔ انتظار حسین کو اپنے کالموں کے لئے عجیب و غریب کرداروں کی تلاش رہتی تھی‘ اور انہی کرداروں میں زاہد ڈار انہیں مل گیا تھا۔ پھر کیا تھا۔ اب تو زاہد ڈار تھا اور انتظار صاحب کے کالم۔ زاہد ڈار کوئی انوکھی بات کہتا اور وہ ان کے کالم کا حصہ بن جاتی۔ وہ ذرا سا بیمار ہوا تو انتظار حسین نے ڈاکٹر انور سجاد اور زاہد ڈار کے مابین ہونے والے مکالموں میں نمک مرچ لگا کر کالم میں شامل کر لیا کہ پوری کہانی بن گئی۔ گویا شروع شروع میں ہم زاہد ڈار کو ایک نئے اور انوکھے شاعر کے بجائے انتظار حسین کے انوکھے کرداروں کے طور پر جانتے تھے۔ ہمیں علم ہی نہیں تھا کہ ہمارے درمیان ایک شاعر بھی پنپ رہا ہے۔ صفدر میر نے اس شاعر کو پہچانا اور وہ شاعر اور اس کی شاعری کو لے کر انتظار حسین کے پاس پہنچے۔ اس شاعری نے انتظار حسین کو بھی چونکا دیا۔ انہوں نے یہ نظمیں حسن عسکری کو بھیج دیں‘ اور وہ ان کے رسالے میں چھپ گئیں۔ اس انوکھی شاعری نے اردو دنیا میں تہلکہ مچا دیا‘ لیکن اس وقت یہ نظمیں ''مادھو‘‘ کے نام سے لکھی جا رہی تھیں۔ کافی عرصہ لوگ ایک دوسرے سے پوچھتے رہے کہ یہ مادھو کون ہے؟ لگتا ہے کہ انتظار حسین نے ہی شاعر کا نام مادھو رکھا ہو گا۔ بعد میں زاہد ڈار نے خود ہی اپنا نام ظاہر کر دیا۔ اب وہ زاہد ڈار کے نام سے ظاہر ہوا۔ اس کے بعد یہ نظمیں کتابی شکل میں بھی چھپیں۔ کھلی ڈُلی شاعری۔ بے باک‘ بے خوف۔ اس شاعری کی پہچان۔ اس میں ایک نظم ایسی تھی جو چھپ تو گئی تھی‘ لیکن بعد اس سے چھاپنے والے کو ڈر لگا، یا کسی نے اسے ڈرایا اور کتاب کے کئی صفحے کتاب سے ہی نکال دیئے گئے۔ اس کے بعد زاہد ڈار کی نظموں کے خوب چرچے رہے۔ بعد ازاں زاہد ڈار کی شاعری کہیں غائب ہوگئی۔ پھر یوں ہواکہ ہم زاہد ڈار کی نظموں کو تو بھول گئے لیکن انتظار حسین کے کالموں والے زاہد ڈار کو یاد رکھا۔ کالموں والا زاہد ڈار اتنا مشہور ہو گیا کہ اس کا شاعر غائب ہو گیا تھا۔ اب وہ اپنے شعر سنانے سے ہی کترانے لگا۔ یہ بات کسی کی سمجھ میں نہیں آئی۔ پھر زاہد ڈار نے کتاب پکڑ لی۔ حالت یہ تھی کہ زاہد ڈار تھا اور کتاب۔ پاک ٹی ہائوس میں بیٹھے ہیں یا ٹی ہائوس کے باہر کھڑے ہیں۔ ہونٹوں میں سگریٹ دبا ہے اور آنکھوں کے سامنے کتاب۔ اب یہ ان کی پہچان بن گئی۔ ٹی ہائوس میں ان کی میز مخصوص تھی۔ یہاں انتظار حسین، شاہد حمید وغیرہ ہی بیٹھ سکتے تھے، ہمیں بھی وہاں بیٹھنے کی اجازت تھی‘ باقی کسی کے ادھر پھٹکنے کی بھی اجازت نہیں تھی۔ اگر زاہد ڈار کا کوئی ناپسندیدہ شخص وہاں آ گیا تو زاہد ڈار وہاں سے اٹھے اور ٹی ہائوس کے باہر جا کر کھڑے ہو گئے۔ 
آزادی سے پہلے اس کے والد کانگریس کے لیڈر تھے۔ وہ اکثر جیل میں رہتے تھے۔ ان سب بہن بھائیوں کو ان کی بڑی بہن نے پالا پوسا‘ اور پڑھایا۔ زاہد ڈار کا مزاج سکولوں کالجوں میں پڑھنے والا نہیں تھا۔ اس نے زیادہ پڑھ کر نہ دیا اور گھر والوں سے کہہ دیا کہ وہ الگ تھلگ اپنی زندگی گزارے گا۔ انہوں نے یہ بھی قبول کر لیا، اور اسے اس کے حال پر چھوڑ دیا۔ اب کچھ عرصے تو اپنے خاندان کے ساتھ اس گھر میں رہا‘ پھر اسے بھی چھوڑ دیا۔ اس کی مدد کرنے والے بے شمار تھے لیکن اس کا رویہ ان کے ساتھ بھی اچھا نہیں ہوتا تھا۔ وہ اپنی مرضی کا مالک تھا۔ جس سے دوستی اس سے دوستی‘ جس سے ناراض اس سے ایسے ناراض کی اس طرف دیکھنا بھی گوارا نہیں۔ ایرج مبارک سے اچھی خاصی دوستی تھی۔ ایک بار آدھی رات کے وقت مجھے فون آیا کہ زاہد ڈار کی طبیعت بہت خراب ہے۔ میں نے اکرام اللہ کو فون کیا۔ اکرام اللہ ہر ایک کی مدد کرنے کو تیار رہتا تھا۔ وہ اسے اٹھا کر ایرج مبارک کے گھر لے گیا۔ خیال تھا کہ وہ کم سے کم ایک رات تو آرام سے گزار لے گا۔ ایرج نے انہیں آرام سے لیٹنے کی جگہ دی اور کہا: یہاں سو جائو‘ لیکن رات گئے انہیں اندازہ ہوا کہ کوئی دروازے کے باہر آوازیں لگا رہا ہے۔ باہر نکلے تو دیکھا زاہد ڈار بجلی کے کھمبے کے ساتھ چمٹا کھڑا ہے، اور کہہ رہا ہے: مجھے یہاں سے نکالو۔ یہ بہت بعد کی بات ہے، میں تو اس سے پہلے کی باتیں کر رہا تھا۔ اس وقت کی جب اس کا اپنے گھر آنا جانا بھی بند ہو گیا تھا۔ انتظار حسین کے گھر کے پاس ہی ہوسٹل قسم کا ایک گھر مل گیا تھا۔ زاہد ڈار نے وہاں رہنا شروع کر دیا۔ یہ سلسلہ انتظار حسین کی زندگی تک رہا۔ اس کے بعد اس نے اپنے ساتھ جو کیا وہ بیان کرنے کے قابل نہیں ہے۔ بظاہر وہ مردم بیزار نظر آتا تھا، لیکن اسے لوگوں میں بیٹھنے کا شوق بھی تھا۔ پاک ٹی ہائوس اجڑا تو اس نے ریڈنگز میں بیٹھنا شروع کر دیا۔ وہاں اسے اپنی مرضی کے نوجوان مل جاتے تھے، کھانے پینے کا انتظام بھی ہو جاتا تھا۔ ان دنوں وہ رہتا کہاں تھا؟ عبداللہ اقبال کے سوا اور کوئی نہیں جانتا تھا۔ بیمار ہوتا تو ہسپتال لے جانے اور اس کا علاج کرانے کی ذمہ داری بھی عبداللہ کی تھی مگر جہاں وہ رہتا تھا وہ جگہ اس نے کسی کو نہیں بتائی تھی‘ اور جن کے ساتھ رہتا تھا‘ ان کا بھی وہ کسی کو نہیں بتاتا تھا۔ وہ کون لوگ تھے؟ کسی کو علم نہیں۔ وہ ان تک کیسے پہنچا؟ یہ بھی کوئی نہ جان سکا۔ عبداللہ نے کسی طرح وہ جگہ معلوم کر لی تھی۔ اسی جگہ اس کا انتقال ہوا۔ کیسے اور کس حال میں ہوا۔ وہ اگر نہ بتایا جائے تو بہتر ہے۔
اب میں پھر ابتدا کی طرف آ تا ہوں۔ اگر وہ نارمل زندگی گزارتا تو کیا آخری عمر میں وہ اس حال کو پہنچتا؟ یہ اس کا اپنا انتخاب تھا۔ اس نے اپنے گھر اور گھر والوں سے اپنے آپ کو علیحدہ رکھا۔ یہاں کوئی کیا کر سکتا تھا۔ میں نے شروع میں اس کی ساری ذمہ داری انتظار حسین اور اس کے کالموں پر ڈال دی ہے‘ لیکن اب سوچ رہا ہوں اگر وہاں انتظار حسین کی جگہ کوئی اور ہوتا تب بھی یہی ہوتا۔ اس کا مزاج ہی ایسا تھا۔ یہ اس کی سرشت تھی۔ وہ بظاہر یہ سمجھتا تھاکہ اپنی الگ تھلگ زندگی سنوارنے کی کوشش کر رہا ہے مگر دراصل وہ اپنے آپ کو تباہ کر رہا تھا۔
اس نے شاعری کے علاوہ بھی بہت کچھ لکھا۔ ہم جب بھی اس سے پوچھتے: کیا لکھ رہے ہو؟ جواب دیتا: اپنی ڈائری لکھ رہا ہوں۔ اس سے کہا: ہمیں بھی کچھ دکھا دو‘ لیکن اس نے اس کی ہوا تک لگنے نہ دی۔ اب معلوم ہوا ہے کہ کسی دوست کے پاس وہ ڈائریاں ہیں۔ پوری 32 ڈائریاں۔ وہ ڈائریاں ان کے پاس کہاں سے آئیں؟ یہ تو وہ صاحب ہی بتا سکتے ہیں۔ ظاہر ہے ان ڈائریوں میں بہت کچھ ہو گا بلکہ زاہد ڈار کے مزاج کے مطابق ایسا بھی ہو گا جنہیں چھاپنے کے لئے دل گردہ چاہئے۔ جن دوست کے پاس وہ ڈائریاں ہیں سنا ہے وہ انہیں ایڈٹ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ میرا خیال ہے یہ کام کسی ایک شخص کو نہیں کرنا چاہئے بلکہ اس کے لئے اس کے قریبی دوستوں کا ایک بورڈ بنانا چاہئے تاکہ وہ اسے چھاپنے کے قابل بنا سکے۔ پہلے تو یہ طے ہونا چاہئے کہ کہ وا قعی اسی کی ڈائریاں ہیں، پھر ان کی ضروری ایڈیٹنگ ہونا چاہئے‘ اور یہ کسی ایک آدمی کا کام نہیں ہے۔
آخر میں عورتوں کی ایک کہاوت یاد آ رہی ہے۔ وہ آوارہ لڑکیوں کے بارے میں کہا کرتی تھیں: جو ایک بار جس گھر سے نکل گئی وہ پھر کہیں کی نہیں رہتی‘ مگر زاہد ڈار کے بارے میں یہ نہیں کہا جا سکتا۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں