دلی سے یہ انتہائی دردناک خبر ملی ہے کہ اردو کے ممتاز نقاد، شاعر‘ ڈرامہ نگار‘ مترجم اور جامعہ ملیہ اسلامیہ کے سابق وائس چانسلر شمیم حنفی بھی کورونا کا شکار ہو گئے۔ ان سے پہلے مشہور و معروف نقاد اور ناول نگار شمس الرحمن فاروقی اسی موذی وبا میں اس دنیا سے چلے گئے تھے۔
زمیں کھا گئی آسماں کیسے کیسے
پاکستان کے ساتھ شمیم حنفی کا اتنا قریبی تعلق تھا کہ جب تک پاکستان اور ہندوستان کے تعلقات بہتر رہے‘ اس وقت تک کراچی اور لاہور میں کوئی ادبی میلہ ایسا نہیں ہوتا تھا‘ جس میں شمیم حنفی شریک نہ ہوتے ہوں۔ دونوں ملکوں میں کشیدگی پیدا ہونے کے بعد بھی کسی نہ کسی طرح حنفی صاحب نے اپنا یہ رشتہ قائم رکھا۔ ہمیں تو ایسا لگتا تھا جیسے شمیم حنفی پاکستان کے ہی ہیں‘ اس لئے کہ لاہور یا کراچی میں کوئی نہ کوئی ادبی تقریب ہوتی ہی رہتی ہے اور ہر تقریب میں ان کی شرکت لازمی ہوتی تھی‘ بلکہ یہ کہہ لیجئے کہ پاکستان میں کوئی بھی ادبی تقریب شمیم حنفی کے بغیر مکمل ہی نہیں ہوتی تھی۔ چونکہ پاکستان اور ہندوستان کے مابین ہوائی جہازوں کی پروازیں بند ہو چکی ہیں‘ اس لئے وہ خشکی کے راستے پاکستان آتے۔ پہلے وہ دلی سے امرتسر جاتے۔ پھر وہاں سے کرائے کی گاڑی میں پاکستان کی واہگہ سرحد تک آتے۔ وہاں سے انہیں پھر گاڑی لینا پڑتی۔ لاہور میں ان کا ٹھکانہ ایرج مبارک کا گھر تھا۔ گویا ایرج مبارک ان کے مستقل میزبان تھے۔ کراچی جانے کے لئے بھی پہلے انہیں لاہور ٹھہرنا پڑتا تھا۔ اس کے لئے انہیں ہوائی جہاز کی پرواز کا انتظار کرنا ہوتا۔ اس عرصے کے لئے بھی ان کے ٹھہرنے کو ایرج مبارک کا گھر حاضر تھا۔ اگر وہ لاہور میں ہوتے‘ اور کوئی ان سے ملنا چاہتا تو انہیں ایرج مبارک کا پتہ بتا دیا جاتا۔
شمیم حنفی جدید حسیت کے ادیبوں اور نقادوں میں صف اول پر موجود تھے۔ ایک زمانے میں بلراج مین را نے جدید ادب کے فروغ کیلئے جو ادبی جریدہ نکالا تھا‘ وہ شمیم حنفی کے سہارے ہی چل رہا تھا۔ اس جریدے میں جدید ادب کے بارے میں جو مباحث ہوتے ان میں شمیم حنفی کا حصہ زیادہ ہوتا تھا‘ یا جو فیچر شائع کئے جاتے‘ وہ زیادہ تر شمیم حنفی کے ہی ہوتے تھے۔ شمیم حنفی کی تنقید اردو ادب کے ساتھ عالمی ادب پر بھی گہری نظر رکھنے والے ادیب کی تنقید ہوتی تھی۔
دو تین دن پہلے تک ان کے بارے میں یہ اطلاعات تھیں کہ وہ ایک بار بیمار ہو کر ہسپتال گئے تھے، لیکن طبیعت ٹھیک ہو جانے کے بعد وہ واپس آ گئے تھے‘ لیکن اس بار اس بیماری کا حملہ اتنا شدید تھا کہ وہ ہسپتال سے واپس گھر نہ آ سکے۔ سنا ہے اس وبا کا مقابلہ کرنے کیلئے انہوں نے خاصے انتظام کر رکھے تھے‘ لیکن اس منحوس وبا نے اس کے باوجود انہیں نہیں چھوڑا۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ہمارے اخبار اور دوسر ے ذرائع ٹھیک ہی کہتے ہیں کہ ہندوستان میں اس وبا نے خاصی تباہی مچائی ہوئی ہے۔ ویسے اس کا تجربہ ہمیں بھی ہوا ہے۔ ہندوستان میں ہمارے کئی جاننے والے اس وبا کا شکار ہو چکے ہیں۔ علی گڑھ میں ہماری چچا زاد بہن کی بیٹی اسی کا شکار ہو گئی ہے۔ وہ تو ہسپتال جاتے ہوئے راستے میں ہی ختم ہوگئی تھی۔ یہ وبا پاکستان میں بھی موجود ہے لیکن اس میں اتنی شدت نہیں ہے‘ یا پھر یہاں اس کا علاج کار گر ثابت ہو رہا ہے۔ پاکستان میں ہمارے کئی جاننے والوں کو اس بیماری نے اپنی گرفت میں لیا، لیکن علاج کے بعد وہ ٹھیک ہوگئے۔ ہندوستان میں ایسا نہیں ہو رہا ہے۔ پاکستان میں ادبی جریدے ''ادب لطیف‘‘ کے ایڈیٹر اور شاعر حسین مجروح اور ان کے بیٹے اس بیماری کا شکار ہوئے مگر چند دن کی تکلیف اور علاج کے بعد وہ ٹھیک ہو گئے۔ ہمارے اپنے گھر میں بھی ایسا ہی ہوا ہے۔ اب ہم کہہ سکتے ہیں کہ یا تو ہمارے ہاں اس بیماری کی شدت اتنی زیادہ نہیں ہے، یا پھر ہمارا علاج ہندوستان سے بہتر ہے۔ ہمارے گھر میں ایسا ہی ہو چکا ہے لیکن یہ بیماری آتی ہے اور چند دن الگ تھلگ رہنے اور مناسب علاج کے بعد مریض ٹھیک ہو جاتا ہے۔
لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ اس وبا کا مقابلہ کرنے کے لئے ہمیں پوری احتیاط نہیں کرنی چاہیے۔ ہمارے ہاں بھی یہ وبا اپنی پوری شدت کے ساتھ موجود ہے‘ لیکن ہم توجہ نہیں دیتے۔ ورنہ ہمارے ہاں بھی ہر روز کئی موتیں ہوتی ہیں۔ ہمارے لوگ ایسے من موجی ہیں کہ وہ کسی کی پروا ہی نہیں کرتے۔ بازاروں میں خریداروں کا وہی ہجوم ہے‘ بلکہ عید قریب آنے کے ساتھ اس ہجوم میں اضافہ ہی ہوتا جا رہا ہے۔ ہم ہندوستان کی طرف تو دیکھتے ہیں اپنی طرف نہیں دیکھتے۔ ڈاکٹر تو خبردار کر رہے ہیں کہ اگر ہم نے احتیاط نہ کی تو ہمارا حشر بھی ہندوستان والا ہی ہو جائے گا۔ ہمارے لئے کورونا ویکسین کی سہولت موجود ہے‘ اور اس کے مرکز کئی جگہ موجود ہیں۔ ہم نے دیکھا ہے کہ بہت سے لوگ اس سے فائدہ اٹھا بھی رہے ہیں‘ لیکن عام طور پر جس احتیاط کی ضرورت ہے وہ ہمیں نظر نہیں آتی۔ اس وبا کی شدت تیزی سے بڑھتی ہی جا رہی ہے۔ اب دیکھئے عید پر کیا ہوتا ہے۔ حکومتوں کی طرف سے تو لاک ڈائون بھی کیا جا رہا ہے‘ مگر ہمارے کاروباری حضرات اس پر ناراض ہیں۔ بہرحال ہمارا حال ہندوستان سے بہت بہتر ہے۔ ہمارے کئی جاننے والے اس وبا کا شکار ہوئے‘ مگر کچھ دن علاج کے بعد وہ ٹھیک ہو گئے۔ اس بیماری اور اس کی وجہ سے موت کے منہ میں چلے جانے والے افراد ہندوستان کے مقابلے میں ہمارے ہاں بہت ہی کم ہیں‘ لیکن اس کا حساب رکھتے ہوئے ہمیں ہندوستان کے آبادی کا خیال بھی رکھنا چاہئے۔ پھر بھی ہمیں ماننا پڑے گا۔ ہماری حالت اتنی مخدوش نہیں ہے جتنی ہندوستان کی ہے۔ ہمیں تو شمیم حنفی یاد آ رہے ہیں۔ اس وقت کی ان کی شکل ہماری آنکھوں میں پھر رہی ہے۔ اب ہماری ادبی تقریبوں میں شمیم حنفی نظر نہیں آیا کریں گے۔
ہم نے اپنے پچھلے کالم میں یوم مئی کا ذکر کیا تھا‘ اور اس ضمن میں سلیم شاہد کا حوالہ بھی دیا تھا کہ وہ ہر سال پاک ٹی ہائوس میں لاہور کے ادیبوں کو اکٹھا کرتے اور مزدوروں کا یہ دن منایا کرتے تھے۔ ہمارے اکثر پڑھنے والوں نے اس خوشی کا اظہار کیا کہ کسی نہ کسی بہانے سلیم شاہد کا نام لیا گیا‘ ورنہ ہم اتنے اچھے شاعر کو بالکل ہی بھلا بیٹھے تھے‘ لیکن ہمیں یہ بھی یاد دلایا گیا کہ کشور ناہید جب تک لا ہور میں رہیں وہ بھی پابندی کے ساتھ یوم مئی مناتی تھیں۔ ان کے یوم مئی میں ہماری مشہور مغنیہ اقبال بانو شریک ہوتی تھیں‘ اور اپنی سریلی آواز میں فیض کی یہ نظم گایا کرتی تھیں: ہم دیکھیں گے‘ لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے۔ اب افسوس تو اس بات کا ہے کہ سلیم شاہد کے بعد ہماری دنیا میں ان جیسا کوئی نہ رہا‘ اور کشور ناہید لاہور چھوڑ کر اسلام آباد چلی گئی ہیں۔ اب ہمیں نہیں معلوم لاہور کے ادیب مزدوروں کا یہ دن مناتے بھی ہیں یا نہیں۔ ایسا لگتا ہے جیسے سب اپنے اپنے کاموں میں ایسے مصروف ہو گئے ہیں کہ یوم مئی جیسے دن انہیں یاد ہی نہیں رہتے‘ لیکن اس کی وجہ اور بھی ہماری سمجھ میں آتی ہے کہ ان دنوں ہمارے ادیبوں میں جو انقلابی جذبہ تھا اس کی وجہ سے وہ سمجھتے تھے کہ وہ اپنے زمانے کے حالات تبدیل کر سکتے ہیں۔ اب وہ جذبہ ماند پڑ گیا ہے‘ جیسے ہمارے ادیب مایوس ہو گئے ہیں کہ وہ حالات تبدیل کرنے کی صلاحیت سے محروم ہو گئے ہیں۔ ہمارے ہاں اس انقلابی جذبے کو بائیں بازو کی جماعتیں اور تنظیمیں زندہ رکھتی تھیں۔ اول تو وہ جماعتیں اور تنظیمیں بکھر چکی ہیں یا پھر عوام کو متاثر کرنے والی ان کی طاقت کمزور پڑ چکی ہے۔