مقبوضہ کشمیر کے انتخابی نتائج

مقبوضہ کشمیر کے حالیہ انتخابات سے ایک بات ثابت ہو گئی کہ بھارتی فوج اور بیرونی دہشت گرد‘ دونوں ہی کشمیری عوام کے جذبہ آزادی کو کچلنے میں ناکام رہے۔پاکستانی حکومتوں کی ابتدائی غلطیوں کی وجہ سے‘ بھارت کو سری نگر میں فوجیں اتارنے اور موجودہ مقبوضہ کشمیر پر قبضہ جمانے کا موقع مل گیا۔اقوام متحدہ میں بھارت اپنے عالمی اثر ورسوخ‘ اپنے سائز‘ بہتر ڈپلومیسی کی وجہ سے کشمیری عوام کو‘ حق رائے دہی سے محروم رکھتا چلا آرہا ہے۔ بی جے پی کی موجودہ حکومت بننے کے بعد‘ اس کوشش میں ہے کہ بھارتی آئین کی دفعہ370 کو ختم کر کے‘ مقبوضہ کشمیر کوبھارتی ریاست کا باقاعدہ حصہ بنا دیا جائے۔ اس دفعہ کے تحت‘ مقبوضہ کشمیر کے عوام کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنی ریاستی اسمبلی خود منتخب کریں۔ حکومت کی پالیسیاں آزادانہ حیثیت میں بنائیں۔ بھارتی حکومتیں مسلسل اس کوشش میں ہیں کہ آئین کی یہ دفعہ ختم کر کے‘ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کر دی جائے۔ مشکل یہ ہے کہ جب تک مقبوضہ کشمیر کی منتخب اسمبلی‘ اس دفعہ کا خاتمہ قبول نہیں کرتی‘ کشمیر کو بھارت کا حصہ قرار نہیں دیا جا سکتا۔ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق‘ کشمیری عوام اپنے مستقبل کا فیصلہ صرف اسی صورت میں کر سکتے ہیں جب پاکستان اور بھارت دونوں کی افواج کشمیر سے نکل جائیں۔ مقبوضہ کشمیر کے بہادر عوام‘ گزشتہ66سال سے اپنی اس خصوصی پوزیشن کا تحفظ کرتے آرہے ہیں ۔ درمیان میں بہت سے نشیب و فراز آئے۔ بھارتی حکومتوں نے‘ کشمیریوں کی لیڈرشپ کو طرح طرح کی ترغیبات دیں کہ وہ بھارت کا حصہ بننا تسلیم کر لیں لیکن وہ ہر طرح کی مشکلات کا مقابلہ کرتے اور قربانیاں دیتے آرہے ہیں لیکن اپنی آزادی کے حق سے دستبردار ہونے کو تیار نہیں۔ گزشتہ چند برسوں سے بیرونی جہادیوں نے‘ کشمیر میں جا کر‘ دہشت گردی کو فروغ دینے کی کوشش کی ‘ جس کی آڑ میں بھارت نے وادی کشمیر میں‘ فوج کی تعداد میں اضافہ کر کے‘ اپنا قبضہ مستحکم کرنے کی کوشش کی۔ دہشت گردی کی تاریخ یہ ہے کہ جس نعرے کے تحت عوام کو متاثر کرنے کی کوشش کی جاتی ہے‘ اصل میں مقصد اس کے برعکس ہوتا ہے۔دہشت گردوں نے مقبوضہ کشمیر میں بھارت کوفوجی طاقت میں اضافے کا بہانہ مہیا کیا اورساتھ کشمیری عوام پر تنگ نظری کا کلچر مسلط کرنے کی کوشش کی‘اس صورت حال کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ‘بھارت نے ظلم و جبر میں بے پناہ اضافہ کردیا اورکشمیری عوام کے جذبہ آزادی کو کچلنے کی کوشش کی ۔چپے چپے پر فوجی چوکیاں بنا کر‘ بھارتی حکمرانوں نے سمجھ لیا کہ اب وہ مقبوضہ کشمیر پر اپنا تسلط قائم کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔بار بار جعلی انتخابات کا ڈھونگ رچا کر‘ پٹھو اسمبلی قائم کرنے کی کوشش کی گئی لیکن ہر بار اس میں ناکامی ہوئی۔ کشمیریوں نے ہر الیکشن کا بائیکاٹ کر کے بھارت کو مجبور کر دیا کہ وہ جعلی اسمبلیاں قائم کرے۔ اس صورت حال میں بھارتی حکمران یہ جرأت نہیں کر پائے کہ وہ آئین کی دفعہ370کو ختم کر سکیں۔
تنازعِ کشمیر ابھی تک اقوام متحدہ کے ایجنڈے میں شامل ہے اور کسی جعلی اسمبلی کے ذریعے‘ بھارت میں شامل ہونے کا فیصلہ‘ دنیا کے لئے قابل قبول نہیں ہو گا۔ بھارت‘ جعلی اسمبلیوں کے ذریعے یہ مقصد حاصل کرنے میں مسلسل ناکامیوں کا سامنا کرتا آرہا ہے۔ اس سال جب بی جے پی نے‘ بھارتی انتخابات میں فیصلہ کن اکثریت حاصل کر کے‘ حکومت بنائی تو‘ دیرینہ منصوبے کے تحت‘ مقبوضہ کشمیر میں مرضی کے انتخابی نتائج حاصل کرنے کے لئے‘ ہر طرح کا حربہ آزمانے کا فیصلہ کیا۔ مرکزی حکومت کے کئی وزیر وں نے‘ مقبوضہ کشمیر میں ڈیرے جمالئے۔ کئی وزیر‘ دورد ورتک دیہی علاقوں میں جا کر‘انتخابی مہم چلاتے رہے۔ لالچ‘ دولت‘ عہدے ‘ اعلیٰ ملازمتیں‘ غرض ہر قسم کا لالچ ٹھکرا کے عوام نے‘ انتخابی نتائج میں بی جے پی کے اس خواب کو چکنا چور کر دیا ‘ جو اس نے بڑے اعتماد کے ساتھ دیکھا تھا۔ انتخابات جیتنے کے لئے‘ بھارت نے جو زور لگایا‘ اس کا ثبوت وزیراعظم نریندر مودی کے مقبوضہ کشمیر کے وہ دورے ہیں ‘جو انہوں نے چندروز کے دوران کئے۔ بے پناہ دولت اور طاقت کے زبردست مظاہروں کی بنیاد پر‘ بی جے پی کی قیادت نے 44پلس کا نعرہ لگا کر‘ اپنی کامیابی کا یقین کر لیا۔یہ ایک طرح کا نفسیاتی حربہ تھا کہ بھر پور پراپیگنڈے کے ذریعے‘ بی جے پی کی جیت کا تاثر‘ اس طرح پیدا کر دیا جائے کہ ووٹر اس کی کامیابی کو یقینی سمجھنے پر مجبور ہو جائیں لیکن آفرین ہے کشمیری عوام پر کہ انہوں نے سرکاری مشینری کی تمام تر طاقت ‘قدم قدم پر موجود فوجی چوکیوں‘ پیسے اور عہدوں کے لالچ اور بھر پور پراپیگنڈا مہم کے باوجود‘ مرعوب ہونے سے انکار کر دیا۔
مقبوضہ کشمیر کے عوام کی سوچ اور سیاسی شعور کا اندازہ ‘اس بات سے کیا جا سکتا ہے کہ انہوں نے ماضی کی طرح الیکشن کا بائیکاٹ کرنے کے بجائے‘ اس بار فیصلہ کیا کہ وہ انتخابات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں گے اور بی جے پی کے مخالفین کو ووٹ دے کر‘ انہیں کامیاب کرائیں گے۔بی جے پی اسی خیال میں سرشار رہی کہ کشمیریوں نے بائیکاٹ کی روایت توڑ کر‘ انتخابات میں جو پرجوش حصہ لیا ہے‘ اس کا براہ راست فائدہ‘ بی جے پی کوپہنچے گا۔ مودی کے حوار ی پر امید ہو گئے کہ وہ کامیابی حاصل کرکے‘ آئین کی دفعہ370کو ختم کر دیں گے اور بھارت میں دعوے کرنا شروع کر دئیے کہ کانگرس جو کام66سال میں نہیں کر سکی‘ بی جے پی کر کے دکھائے گی۔مسلمانوں نے الیکشن میں جوش و خروش سے حصہ لینے کے فیصلے کی جو وجہ بتائی ‘وہ بڑی دلچسپ ہے۔ جہاں تک ‘مسلم لیڈر شپ کا تعلق ہے‘ اس کے بارے میں ہم جان چکے تھے کہ اس نے یہ فیصلہ‘ ایک طے شدہ حکمت عملی کے تحت کیا ہے لیکن قیادت کے بجائے‘ ایک عام ووٹر کی زبان میں اس کی وجہ سننا زیادہ دلچسپ ہے کہ مسلمانوں نے انتخابات میں بھر پور حصہ کیوں لیا؟ بھارتی میڈیا کے نمائندے نے سری نگر میں ایک عام نوجوان سے پوچھا کہ'' اس بار کس جماعت کو زیادہ ووٹ ملیں گے؟‘‘ اس کا جواب تھا '' مسلمان امیدوار کامیابی حاصل کریں گے‘‘۔ اس سے پوچھا گیا کہ'' آپ کے خیال میں اس کی وجہ کیا ہے؟‘‘ اس نوجوان کا جواب پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ اس نے کہا'' فیئر فیکٹر۔ مسلمانوں کو ڈر تھا کہ بائیکاٹ کی صورت میں ‘بی جے پی من گھڑت نتائج مرتب کر کے‘ اپنی فتح کا اعلان کر دے گی اور پٹھو اسمبلی کی مدد سے‘ آئین کی دفعہ370 کو ختم کر دیا جائے گا۔ مسلمانوں نے اسی خوف کی وجہ سے‘ انتخابات میں بھر پور حصہ لینے کا فیصلہ کیا اور مجھے یقین ہے کہ بی جے پی حکومت بنانے میں کامیاب نہیں ہو سکتی‘‘۔ 
درحقیقت اس مرتبہ کشمیری مسلمانوں کی ایک ہی سوچ تھی کہ ووٹ دے کر‘ بی جے پی کو ناکام کرنا ہے۔انتخابی نتائج نے‘ بی جے پی کی مغرور قیادت کے ہوش ٹھکانے کر دئیے۔ وہ مسلم اکثریت کے ایک بھی حلقے میں کامیاب نہ ہو سکی۔ بے شک وہ 11 کے بجائے 25 نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئی مگر اس کے تمام اکثریتی ووٹ‘ ہندو حلقوں میں نکلے جبکہ وادی کشمیر اور لداخ میں‘ مسلمان امیدوار کامیاب ہو ئے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ گزشتہ انتخابات میں لداخ سے لوک سبھا کی نشست پر‘ بی جے پی کامیاب ہو ئی تھی۔ اس بار اس کی جیتی ہوئی سیٹ پر ‘بی جے پی کا ایک بھی نمائندہ کامیاب نہیں ہوا۔انتخابی نتائج کی صورت حال یہ ہے کہ مفتی محمد سعید اور ان کی بیٹی محبوبہ مفتی کی پارٹی‘ پی ڈی پی کو28نشستیں ملیں۔ بی جے پی25نشستوں کے ساتھ دوسرے نمبر پر رہی اور عمر عبداللہ کی نیشنل کانفرنس نے15نشستیں حاصل کیں جبکہ کانگرس کو12نشستوں پر کامیابی ملی۔ انتخابی نتائج کا اعلان ہوئے آٹھ روز گزر چکے ہیں۔ ابھی تک حکومت سازی کا مسئلہ حل نہیں ہو سکا۔ جو مختلف قیاس آرائیاں ہو رہی ہیں‘ ان کے مطابق پہلا فارمولا یہ سامنے آیا ہے کہ بی جے پی اور پی ڈی پی مل کر حکومت بنائیں گے۔ بی جے پی کی شرط یہ ہے کہ وزارت اعلیٰ کا منصب‘ پہلے تین سال کے لئے اسے دیا جائے اور آخری تین سال میں وزارت اعلیٰ‘ پی ڈی پی کے پاس رہے۔یہ شرط پی ڈی پی کو منظور نہیں۔ مفتی خاندان پورے چھ سال کے حق اقتدار پر اصرار کر رہا ہے۔ دوسری طرف مسلمان ممبروں کی اکثریت جمع کر کے‘ پی ڈی پی کی قیادت میں حکومت بنانے کی کوششیں ہو رہی ہیں۔ کانگرس‘ پی ڈی پی کو غیر مشروط تعاون کی پیش کش کر چکی ہے۔ عمرعبداللہ دونوں طرف سے امیدیں لگائے بیٹھے ہیں لیکن خیال کیا جا رہا ہے کہ آخر کار انہیں بھی‘ پی ڈی پی کا ساتھ دینا پڑے گا۔ اس میں مشکل یہ ہے کہ ریاست کی ہندو آبادی‘ مکمل طور پر حکومت سے باہر ہو جائے گی۔ایسا ہو گیا تو کسی بھی مسلمان وزیراعلیٰ کیلئے حکومت کرنا مشکل ہو جائے گا۔ہندوئوں کا مطمئن ہونا ضروری ہے ۔ دیکھنا یہ ہے کہ نئی منتخب کشمیری قیادت‘ اس مسئلے کا کیا حل تلاش کرتی ہے؟غالب امکان ہے کہ جو بھی کولیشن بنے گی‘ اس میں نصف مدت کی وزارت اعلیٰ‘ بی جے پی کو دینا پڑے گی۔ بی جے پی پر زیادہ دبائو آیا تو وہ آخری نصف مدت کی وزارت اعلیٰ پر آمادہ ہو سکتی ہے۔ یہاں بی جے پی کے ساتھ‘ مل کر حکومت بنانے کے لئے پی ڈی پی نے ایک ایسی شرط رکھ دی ہے‘ جسے ماننابی جے پی کے لئے انتہائی مشکل ہوگا۔شرط یہ ہے کہ بی جے پی نے‘ اپنے منشور میں آئین کی دفعہ 370 ختم کرنے کا جو وعدہ کررکھا ہے‘ اس سے دستبردار ہو جائے۔یہ شرط قبول کرنا بی جے پی کے لئے‘ قریباً ناممکن ہے۔بی جے پی مقبوضہ کشمیر کی حکومت میں شمولیت چاہتی ہے تو اسے اس مسئلے کا حل بہر حال ڈھونڈنا پڑے گا‘ جو یہ بھی ہو سکتا ہے کہ بی جے پی کی مقبوضہ کشمیر کی شاخ‘ چھ سال کے لئے‘ اس وعدے سے دستبرداری کا اعلان کر دے اور بھارت کی بی جے پی‘ اس اعلان سے لاتعلق ہو جائے۔بہر حال اگلے چند روز کے اندر‘ عمر عبداللہ کی حکومت ختم ہو رہی ہے۔ اس سے پہلے نئی حکومت کا فیصلہ ہو جانا چاہئے۔آخر میں مقبوضہ کشمیر کے عوام کو زبردست خراج تحسین پیش کروں گاکہ بی جے پی نے مرکزی حکومت کی پوری طاقت کے ساتھ‘ مقبوضہ کشمیر میں اقتدار پر قابض ہونے کا جو منصوبہ‘ بھرپور تیاریوں کے ساتھ بنایاتھا‘ نہتے اور بے وسیلہ مسلمانوں نے اسے بری طرح سے ناکام بنا دیا۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں