سیاست میں اکثر اوقات فیصلوں کی اہمیت کا درست اندازہ وقت گزرنے کے ساتھ ہوتا ہے۔ کون سا فیصلہ اچھا ہے اور کون سا برا‘ اس بارے میں فوری طور پر کوئی حتمی رائے نہیں دی جا سکتی۔ آج کل تحریک انصاف کے سربراہ سے متعلق یہ رائے تقویت اختیار کر چکی ہے کہ وہ جو بھی فیصلہ کر رہے ہیں اس کا انہیں فائدہ ہو رہا ہے۔ سیاسی پنڈتوں کے حساب کتاب بھی الٹ ہوتے دکھائی دے رہے ہیں۔ پنجاب کے ضمنی انتخابات میں بیس میں سے پندرہ سیٹوں پر تحریک انصاف کی کامیابی کو گیم چینجر کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ اس کے بعد نو حلقوں سے عمران خان کا الیکشن لڑنے کا فیصلہ بھی خاصی شہرت حاصل کر چکا ہے۔ عوامی سطح پر یہ مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ جن حلقوں سے عمران خان الیکشن لڑ رہے ہیں دیگر پارٹیوں کے سربراہ بھی ان حلقوں سے الیکشن لڑنے کا فیصلہ کریں تا کہ یہ اندازہ لگایا جا سکے کہ عوامی مقبولیت میں کون سی جماعت بہتر ہے۔ اب خان صاحب نے ''دنیا نیوز‘‘ پر کامران خان کو انٹرویو دیتے ہوئے ایکسٹینشن سے متعلق بات کر کے ایک ایسی ''گگلی‘‘ پھینکی ہے جسے کھیلنا پی ڈی ایم کے لیے خاصا مشکل ہو رہا ہے۔ کچھ شک نہیں کہ اتحادی حکومت اس وقت دفاعی پوزیشن پر ہے اور خان صاحب کی جارحانہ بائولنگ پر چھکے چوکے مارنے کے بجائے گیند کو صرف روکنے یا پاس کرنے کی پالیسی پر گامزن ہے ؛ تاہم میری نظر میں حکومت کی حکمتِ عملی بظاہر بہتر ہے۔
گزشتہ دنوں کچھ امریکی حکام کی بنی گالا میں تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان سے ون آن ون ملاقاتیں ہوئی ہیں۔ یہ بھی خبریں سامنے آ چکی ہیں کہ تحریک انصاف نے امریکہ میں ایک مہنگی لابنگ فرم کی خدمات حاصل کی ہیں‘ بعض وزرا دعویٰ کر رہے ہیں کہ ان ملاقاتوں کو اسی فرم نے ممکن بنایا ہے۔ تحریک انصاف کے ترجمانوں کی حالیہ پریس کانفرنسز میں بھی امریکہ سے تعلقات بہتر بنانے کا ذکر تواتر سے کیا جا رہا ہے۔ اس صورتحال کو تحریک انصاف کی کامیابی گردانا جا رہا ہے لیکن میری رائے میں امریکی حکام کا عمران خان سے ملنا فائدہ مند ثابت نہیں ہو رہا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ دنیا یہ فیصلہ ہی نہیں کر پا رہی کہ امریکہ عمران خان کے ساتھ کھڑا ہے یا پی ڈی ایم کا حمایتی ہے۔ کنفیوژن کی اس صورتحال میں کوئی واضح پالیسی نہیں بن پا رہی۔ سرمایہ کار پریشان دکھائی دیتے ہیں۔ ڈالر سٹاک کم ہو رہا ہے۔ برآمد کنندگان ملک میں ڈالر منگوانے سے ہچکچا رہے ہیں اور روپیہ مسلسل گراوٹ کا شکار ہے۔ یہ حقیقت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ سیاسی عدم استحکام ہی معاشی عدم استحکام کا سبب بنتا ہے۔ سیاستدان سیاسی چالوں کو ذاتی ہار جیت کے پلڑے میں تولتے ہیں اور ملک کو ہونے والے نقصان کو جان بوجھ کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ پہلے وفاق اور پنجاب میں ساڑھے تین سال تک چلنے والی تحریک انصاف کی حکومتوں کو ختم کیا گیا پھر جب پی ڈی ایم ذرا سنبھلنے لگی تو پنجاب میں دوبارہ اکھاڑ پچھاڑ شروع ہو گئی جس میں تحریک انصاف فاتح ٹھہری۔ اب جبکہ تحریک انصاف کی اتحادی حکومت پنجاب میں قدم جما رہی ہے تو ایک مرتبہ پھر پی ڈی ایم نے پنجاب حکومت حاصل کرنے کی کوششوں کا آغاز کر دیا ہے۔ کیا اس صورتحال میں معاشی استحکام آ سکتا ہے؟ ایسی صورتحال میں اکثر مقامی سرمایہ کار اپنا سرمایہ کسی اور ملک میں منتقل کرنے کا سوچ رہے ہیں۔ حال ہی میں ٹیکسٹائل کے بڑے ناموں نے طاقتور حلقوں سے ملاقات کی ہے اور سرمایہ بیرونِ ملک منتقل کرنے کے اپنے فیصلے سے آگاہ کیا ہے۔ جب مقامی سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال نہیں ہو سکا تو بیرونی سرمایہ کاری آنے کی توقع کرنا بیوقوفوں کی جنت میں رہنے کے علاوہ کچھ نہیں۔
وفاقی وزرا اور وزیراعظم صاحب جس طرح امریکہ کے حوالے سے بیانات دے رہے ہیں‘ اس سے یہی محسوس ہوتا ہے کہ امریکہ پی ڈی ایم کے ساتھ زیادہ کمفرٹ ایبل ہے۔ آنے والے دنوں میں یہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے‘ اس کا تعین ہو ہی جائے گا لیکن زیادہ اہم معاملہ یہ ہے کہ ملک کا معاشی اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا۔ اس خدشے کا ایک مرتبہ پھر اظہار کیا جانے لگا ہے کہ ملک دیوالیہ پن کی جانب بڑھ رہا ہے۔ آئی ایم ایف سے قرض ملنے کے باوجود سٹیٹ بینک کے زرِمبادلہ کے ذخائر تقریباً سات بلین ڈالرز کے قریب ہیں جو ملک کی تقریباً ایک ماہ کی درآمدات کے لیے بھی ناکافی ہیں۔ آئی ایم ایف کے بعد ورلڈ بینک نے بھی قرض دینے کے لیے طے شدہ شرائط پر عمل درآمد کو لازمی قرار دے دیا ہے۔ حکومت کئی سالوں سے ورلڈ بینک سے وعدے کر رہی ہے کہ وہ بجلی کے متبادل ذرائع پر انحصار بڑھائے گی اور بجلی کا شارٹ فال کم کرے گی لیکن ابھی تک اس پر عمل درآمد نہیں ہوا۔ اس کے علاوہ ورلڈ بینک چین کے ساتھ کیے گئے آئی پی پیز معاہدوں کو پبلک کرنے کا مطالبہ کر رہا ہے تا کہ دنیا کو پتا چل سکے کہ چینی کمپنیاں پاکستان میں کن شرائط پر کام کر رہی ہیں۔ یہاں اس پہلو کو مدنظر رکھے جانے کی ضرورت ہے کہ ورلڈ بینک، آئی ایم ایف اور امریکہ کئی مرتبہ پاکستان میں معاشی مسائل پیدا کرنے کا ذمہ دار چین کو قرار دے چکے ہیں۔ اب ورلڈ بینک نے چینی قرض پر انحصار ختم کرنے اور مزید قرض نہ لینے کی بھی شرط عائد کر دی ہے لیکن پاکستان ان تمام شرائط پر عملدرآمد سے گریزاں ہے بلکہ وزیراعظم صاحب جلد ہی چین سے قرض مانگنے کا ارادہ بھی رکھتے ہیں کیونکہ پہلے یہ معاملات آئی ایم ایف ڈیل کی وجہ سے اٹکے ہوئے تھے۔ حالیہ دنوں میں وزیراعظم صاحب کا شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس کے علاوہ امریکہ میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس سے خطاب بھی متوقع ہے‘ جہاں ورلڈ بینک سے قرض مانگا جائے گا۔ اگرچہ وزیراعظم صاحب کے حالیہ غیر ملکی دوروں کی کارکردگی مایوس کن رہی ہے اور خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ اقوام متحدہ کا دورہ بھی ثمر آور نہیں ہو سکے گا۔
اس وقت عالمی سطح پر ہمارے ملک کی شہرت زیادہ اچھی نہیں ہے۔ پاکستان حالیہ عرصے میں آئی ایم ایف سے سب سے زیادہ مرتبہ بیل آئوٹ پیکیج لینے والا ملک بن چکا ہے۔ ہر مرتبہ آئی ایم ایف سے اصلاحات کے وعدے کیے جاتے ہیں لیکن ان پر عمل درآمد نہیں کیا جاتا۔ دوست ممالک اور دیگر مالیاتی اداروں سے بھی کئی دہائیوں سے درست اقدامات کرنے کے وعدے کیے جا رہے ہیں لیکن معاشی صورتحال روز بروز تنزلی کا شکار ہو رہی ہے۔ وزیر خزانہ متعدد مرتبہ اس حقیقت کا اظہار کر چکے ہیں کہ اب دنیا ہم پر اعتبار نہیں کرتی‘ اور اس کی وجہ شاید کرپشن ہے۔ وزیراعظم صاحب بھی اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کو بار بار اس بات کا یقین دلاتے دکھائی دیے کہ سیلاب متاثرین کے لیے دی جانے والی امداد میں کرپشن برداشت نہیں کی جائے گی۔ پاکستانی سیا ستدانوں پر عدم اعتماد کا عملی مظاہرہ سیلاب کے بعد پیدا ہونے والے المیے پر دنیا کے ردِعمل کی صورت میں سامنے آیا ہے۔ ابتدائی رپورٹ کے مطابق تقریباً چالیس ارب ڈالرز سے زائد کا نقصان ہو چکا ہے اور کم و بیش 248 رابطہ پل مکمل طور پر تباہ ہو چکے ہیں۔ اس سیلاب کو دنیا کی تاریخ کے بڑے قدرتی سانحات میں شمار کیا جا رہا ہے لیکن اس کے باوجود نہ تو مطلوبہ امداد پہنچ رہی ہے اور نہ ہی پاکستان کو قرضوں کی ادائیگی پر ریلیف دیا جا رہا ہے جبکہ تمام مالیاتی اداروں اور ممالک کی پالیسیوں میں ایسی صورتحال میں ریلیف دینے کی واضح پالیسی موجود ہے۔ یہ صورتحال اگر اسی طرح برقرار رہی تو ملک کو دیوالیہ پن کی طرف لے جا سکتی ہے۔ واضح رہے کہ سری لنکا کے دیوالیہ ہونے کے اثرات صرف سری لنکا اور سری لنکن عوام ہی پر پڑے تھے لیکن پاکستان اپنی سٹرٹیجک حیثیت کی وجہ سے پوری دنیا کے لیے اہم ہے۔ یہ ایک ایٹمی ملک ہے‘ لہٰذا اگر یہاں پر خدانخواستہ دیوالیہ پن کی نہج آئی تو صورتحال یکسر مختلف ہو گی۔